’رشوت‘ نہ ملنے پر ’انتقام کے جذبے‘ سے اٹھایا قدم؟ وزارت صحت کے نوٹس پر ایمس کی خاموشی

ایمس کے جئے پرکاش نارائن اپیکس ٹراما سینٹر کی وجہ سے حکومت کو تقریباً 50 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کمپنی کی ادائیگی کو طویل عرصے تک التوا میں رکھا، جس کے نتیجے میں ایک لمبی قانونی لڑائی چلی، لیکن ایمس کو ہر قدم پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وزارت صحت نے ایمس کو نوٹس بھیجا تو ایمس نے جواب تک نہیں دیا۔

ایمس کے جئے پرکاش نارائن اپیکس ٹراما سینٹر کی وجہ سے حکومت کو تقریباً 50 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کمپنی کی ادائیگی کو طویل عرصے تک التوا میں رکھا، جس کے نتیجے میں ایک لمبی قانونی لڑائی چلی، لیکن ایمس کو ہر قدم پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وزارت صحت نے ایمس کو نوٹس بھیجا تو ایمس نے جواب تک نہیں دیا۔

تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔

تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔

نئی دہلی: دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس)، نئی دہلی کے ذریعے سرجیکل  دستانے کی خریداری میں بے قاعدگیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ وزارت صحت نے پندرہ مہینوں میں ایمس کے ڈائریکٹر کو دو بار خط لکھ کر اعلیٰ شرحوں پر کی جانے والی اس خریداری کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی، لیکن ملک کے اہم میڈیکل انسٹی ٹیوٹ نے وزارت کو جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

اس رپورٹ  میں ایک ایسے  واقعہ کا جائزہ لیا گیا ہے، جہاں ایمس کے جئے پرکاش نارائن اپیکس ٹراما سینٹر نے حکومت کو تقریباً 50 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا، ایمس کے ایک سینئر اہلکار پر رشوت مانگنے اور ‘انتقام’کے جذبے سےکام کرنے کے الزام لگے، لیکن اس بار بھی ایمس نے وزارت صحت کے نوٹس کا جواب نہیں دیا۔

یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا،  جب انسٹی ٹیوٹ نے لانڈری سروس فرم اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ادائیگی میں تاخیر کی، جس کے نتیجے میں ایک طویل قانونی جنگ چلی ، معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ لیکن ایمس  کو ہر قدم  پر ہار کا سامنا کرنا پڑا، اور آخر کار جنوری 2024 میں، ایمس کو نہ صرف تمام بلوں کی مکمل ادائیگی کرنی پڑی، بلکہ 4629003 روپے کا سود اور عدالتی کارروائی کے اخراجات کے طور پرکمپنی کو 167493 روپے بھی دینے پڑے۔

جب معاملہ پہلے ثالث بنچ کے پاس گیا تو اس نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ ‘ایسا لگتا ہے’ کہ کمپنی کی رقم روکنے کی اصل وجہ ‘انتقام’ کا جذبہ ہے۔ ثالث سریندر ایم متل ٹراما سینٹر کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امت لٹھوال کا حوالہ دے رہے تھے جنہوں نے اس ادائیگی کو روکنے کا حکم دیا تھا۔

تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔

تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔

غور کریں کہ اسپارکل ایسوسی ایٹ اور ٹراما سینٹر کے درمیان طویل قانونی جنگ کے باوجود یہ  فرم اب بھی ایمس  میں لانڈری کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

ایمس انتقام  کے جذبےسے متاثر تھا؟

قابل ذکر ہے کہ 15 فروری 2016 کو ٹراما سینٹر نےاسپارکل ایسوسی ایٹ کے ساتھ 1 نومبر 2015 سے 31 اکتوبر 2017 کی مدت کے لیے لانڈری کی خدمات کے لیے معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ پہلے ڈیڑھ سال تک ٹھیک چلا ۔ جون 2017 میں، ایمس  کے ڈاکٹر امت لٹھوال کو ٹراما سینٹر میں ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد سینٹر نے اپریل 2017 سے اکتوبر 2017 تک اسپارکل ایسوسی ایٹ کے بلوں کی ادائیگی یہ کہتے ہوئے روک دی کہ فرم ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے اور اس نے معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

چار (4 ) اگست 2017 کو ٹراما سینٹر نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

جب ٹراما سینٹر کمپنی کے جواب سے مطمئن نہ ہوا تو ہسپتال نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی تحقیقات کے دوران اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیاں پائیں اور 9 اکتوبر کو دوسرا شو کاز نوٹس جاری کیا۔

کمپنی نے 17 اکتوبر کو اس نوٹس کا جواب دیا، ہسپتال ایک بار پھر سے مطمئن نہیں ہوا اور 26 اکتوبر کو ذاتی سماعت کے بعد، کمیٹی نے اسپارکل ایسوسی ایٹ پر یکم نومبر 2017 سے 5 سال کے لیےایمس  کے جاری کردہ ٹینڈرز میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ اس کے علاوہ کمپنی کی طرف سے جمع کرائی گئی ساڑھے 4 لاکھ روپے کی سکیورٹی ڈپازٹ بھی ضبط کر لی گئی۔

جب اسپارکل ایسوسی ایٹس نے اس کے خلاف ہائی کورٹ کا رخ کیا تو عدالت نے ٹینڈرز میں اس کی شرکت پر پابندی کے فیصلے پر اگلے احکامات تک روک لگا دی اور 25 فروری 2019 کے اپنے حکم میں دونوں فریقوں کو دہلی انٹرنیشنل ثالثی مرکز (ڈی آئی اے سی) سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔

اپنے فیصلے میں ڈی آئی اے سی کے ثالث سریندر ایم متل نے ڈاکٹر لٹھوال پر سنگین سوالات اٹھائے۔

بارہ  مارچ 2020 کو اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کیس کی ‘جڑ’ وہ ‘ویجیلنس شکایت’ تھی جو اسپارکل ایسوسی ایٹ نے ڈاکٹر لٹھوال کے خلاف 2016 میں دائر کی تھی۔ متل نے مزید کہا کہ ‘اصولوں کی مبینہ عدم تعمیل’ یعنی ٹھیک سے کام  نہ کرنے  کا دعویٰ ایمس نے  ‘بدلہ لینے کے لیے’ کیا گیا تھا۔ متل نے اس بات پر زور دیا کہ ‘معاہدہ 24 مہینوں کے لیے تھا… پہلے 21 مہینوں تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن ڈاکٹر لٹھوال کے ٹراما سینٹر میں شامل ہونے کے بعد… وجہ بتاؤ نوٹس جاری’ہو گیا۔

ثالث نے کہا کہ چونکہ اسپارکل ایسوسی ایٹ نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی، اس لیے ان کی خدمات کے لیے 4252505 روپے کی رقم کے ساتھ 15 فیصد سالانہ سود یعنی 4629003 روپے ایمس کے ذریعے فرم کو دیے جائیں گے۔ ثالث نے کمپنی کو 12 فیصد سود کے ساتھ 450000 روپے کی سکیورٹی ڈپازٹ واپس کرنے کی بھی ہدایت کی، ساتھ ہی عدالتی کارروائی کے دوران خرچ  ہوئی رقم  کے عوض میں ایمس سے بھی کہا کہ وہ کمپنی کو 167493 روپے کی اضافی رقم ادا کرے ۔

ہسپتال کی جانب سے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ٹینڈر میں حصہ لینے سے روکنے کے بارے میں ثالث نے کہا کہ یہ سراسر غیر منصفانہ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

ڈی آئی اے سی کے فیصلے کے بعد ٹراما سینٹر نے ساکیت، دہلی میں ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا۔ ایمس نے عدالت میں دلیل دی کہ انہوں نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی داخلی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے ان خدمات میں کئی جگہوں پر بے ضابطگیاں پائی تھیں۔ کمیٹی نے سروس میں بے ضابطگیوں اور ایمس کی مشینری کو نقصان پہنچانے کےلیے 1849000 روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

ساکیت عدالت نے اس دلیل کو قبول نہیں کیا اور ڈی  آئی اے سی کے فیصلے سے اتفاق کیا اور 18 اپریل 2022 کو ایمس کو ادائیگی کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ ایمس نے اسپارکل ایسوسی ایٹس کو معاہدے کے دوران کسی بھی مشین کے نقصان کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا، اس لیے وہ کوئی جرمانہ نہیں لگا سکتا۔

ساکیت کورٹ میں شکست کے بعد ایمس نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

ایک اگست 2023 کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ جب تک ثالث کا فیصلہ غیر قانونی نہیں پایا جاتا، اس فیصلے میں کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایمس سپریم کورٹ گیا، جس نے 8 اپریل 2024 کو ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست کو خارج کر دیا۔

اس طرح ایمس نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو کل 9331507 روپے ادا کیے۔

اس پورے معاملےکے دوران اسپارکل ایسوسی ایٹ ہسپتال کو لانڈری کی خدمات فراہم کرتا رہا۔

ایمس کے فٹ پاتھ پر لاتعداد مریض اور ان کے رشتہ دار ہفتوں  گزار دیتے ہیں۔ (تصویر: وپل کمار/ دی وائر)

ایمس کے فٹ پاتھ پر لاتعداد مریض اور ان کے رشتہ دار ہفتوں  گزار دیتے ہیں۔ (تصویر: وپل کمار/ دی وائر)

ایمس نے رشوت مانگی؟

اس قانونی جنگ کے درمیان ایمس کے ایک اہلکار ڈاکٹر امت لٹھوال کا نام سامنے آیا۔

اسپارکل ایسوسی ایٹ نے ساکیت عدالت کو بتایا تھا کہ لٹھوال نے انتقام  کے جذبےکی وجہ سے ان کی ادائیگی روک دی تھی کیونکہ کمپنی نے جنوری 2016 میں ان کے خلاف ‘رشوت’ کا مطالبہ کرنے پر ‘ویجیلنس شکایت’ درج کرائی تھی۔

اسپارکل ایسوسی ایٹ کے مطابق، اس وقت بھی وہ ایمس میں لانڈری کی خدمات فراہم کر رہی تھی۔ فرم نے عدالت میں دلیل دی کہ ‘اس شکایت کا بدلہ لینے کے لیے لٹھوال نے اس کی ادائیگی روک دی اور تحقیقات کا حکم دیا۔’

جب دی وائر  نے لٹھوال سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں ان الزامات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ ‘مجھے اس کا علم اس وقت ہوا جب اسپارکل ایسوسی ایٹ نے عدالت کے سامنے اس کا ذکر کیا’۔

انہوں نے کسی ذاتی دشمنی سے بھی انکار کیا۔ ‘میں نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیاں دیکھیں، جس کے بعد میں نے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کو کہا، جس کے بعد وہی فیصلے کیے گئے جو کمیٹی کی تحقیقات میں سامنے آئے تھے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میں نے یہ سب کچھ ذاتی دشمنی کی بنا پر کیا۔ مجھے 2016 میں کمپنی کی طرف سے میرے خلاف دائر کی گئی ویجیلنس شکایت کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ مجھے اس شکایت کے بارے میں ثالث کے فیصلے کے بعد معلوم ہوا،‘انہوں نے کہا۔

ثالثی کے فیصلے میں اپنا نام سامنے آنے پر لٹھوال کہتے ہیں، ‘میں نے قواعد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، تمام فیصلے کمیٹی کے مشورے کی بنیاد پر کیے گئے۔’

اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ادائیگی روکنے کے الزام پر وہ کہتے ہیں، ‘میں ادائیگی میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں تھا۔ ادائیگی کی فائلیں لانڈری سروس کے انچارج افسر کی سطح پر زیر التوا تھیں۔ ہمیں اس کا علم اس وقت ہوا جب فرم نے ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ادائیگی زیر التواء ہے۔ پھر میں نے انچارج افسر کو خط لکھا کہ ادائیگی کو التوا میں رکھنے سے ہمارے لیے قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے فرم کی خدمت میں کوتاہیوں کے لیے جو بھی رقم کاٹی جائے، اسے کاٹ لیا جائے اور پھر ادائیگی کا عمل شروع کیا جائے۔ ‘

مشینوں کو نقصان پہنچانے پر فرم پر لگائے گئے جرمانے کے بارے میں،؎ وہ کہتے ہیں کہ ایمس نے مشینوں کی مرمت کے لیے تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ لٹھوال کہتے ہیں، ‘معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ اگر کوئی مشین خراب ہو جاتی ہے تو فرم کو اس کا خرچہ ادا کرنا پڑے گا۔’

ظاہر ہے یہ کسی ایک ڈاکٹر یا افسر کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اتنی طویل قانونی لڑائی کے ہر قدم پر ایمس کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے تو سوال ایمس کی انتظامیہ  پر ہے۔ لیکن وزارت صحت کی جانب سے ایمس کے ڈائریکٹر کو نوٹس بھیجے کافی وقت ہو گیا ہے، اس پر کوئی کارروائی کرنا تو دور کی بات، انہوں نے اس کا جواب تک نہیں دیا۔

اس نوٹس پر ایمس کے ڈائریکٹر کی خاموشی پر لٹھوال کا کہنا ہے کہ ‘یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے’، اور خود ڈائریکٹر اور ان کے میڈیا ڈپارٹمنٹ نے کئی بار رابطہ کرنے کے بعد بھی کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔