جامعہ ملیہ اسلامیہ: امتحان میں ’مسلمانوں پر مظالم‘ سے متعلق ایک سوال پر تنازعہ کے بعد پروفیسر معطل

جامعہ ملیہ اسلامیہ بی اے (آنرس) سوشل ورک کے سوالنامے میں 'مسلمانوں پر مظالم' سے متعلق سوال شامل کرنے پر  ایک پروفیسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ متعدد طلباء نے اسے 'اکیڈمک آزادی پر حملہ' قرار دیتے ہوئے معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ بی اے (آنرس) سوشل ورک کے سوالنامے میں ‘مسلمانوں پر مظالم’ سے متعلق سوال شامل کرنے پر  ایک پروفیسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ متعدد طلباء نے اسے ‘اکیڈمک آزادی پر حملہ’ قرار دیتے ہوئے معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ۔فوٹوبہ شکریہ؛ جامعہ ویب سائٹ

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) نے منگل کو بی اے (آنرس) سوشل ورک کے سوالنامے میں ‘مسلمانوں پر مظالم’ سے متعلق سوال شامل کرنے پر ایک پروفیسر کو معطل کر دیا، جسے سوشل میڈیا صارفین نے ‘پولرائزنگ اور فرقہ وارانہ’ قرار دیا ہے۔

جے ایم آئی کے متعدد طلباء نے اسے ‘تعلیمی آزادی پر حملہ’ قرار دیتے ہوئے معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ سوال 21 دسمبر کو بی اے سوشل ورک سمسٹر 1 کے پیپر میں ‘ہندوستان میں سماجی مسائل’ پر پوچھا گیا تھا۔ سوال میں لکھا گیا؛’ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر مثالوں کے ساتھ بحث کریں۔’

اس سوال کو بعد میں کچھ صارفین نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا اوریہ  بڑے پیمانے پر وائرل ہوگیا۔

قائم مقام رجسٹرار سی اے شیخ صفی اللہ کے دستخط شدہ جے ایم آئی کے ایک آرڈر میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی نے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے اس پروفیسر کی ‘لاپرواہی ‘ کو سنجیدگی سے لیا ہے ،جس  نے یہ سوالیہ پرچہ تیار کیا تھا۔

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر کو اگلے احکامات تک معطل کیا جاتا ہے اور جب تک پولیس قواعد کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں کر لیتی تب تک معطلی جاری رہے گی۔

ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے بتایاکہ بعد میں ایف آئی آر سے متعلق حصہ کو آرڈر سے ہٹا دیا گیا اور ترمیم شدہ آرڈر کو پروفیسر کے ساتھ شیئر کیا گیا۔

تاہم، یونیورسٹی حکام نے ترمیم شدہ آرڈر کو ‘خفیہ’ کہہ کر شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔

یونیورسٹی نے کہا کہ ایک انکوائری کمیٹی معاملے کی تحقیقات کرے گی اور پروفیسر وریندر بالاجی شاہارے اس وقت تک معطل رہیں گے جب تک کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتی۔

یونیورسٹی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا،’اس سوال کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا گیا اور اس نے تنازعہ کو جنم دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ یہ پولرائزنگ اور فرقہ وارانہ ہے۔ یونیورسٹی نے کارروائی کی ہے اور پروفیسر کو اس وقت تک کے لیےمعطل کر دیا ہے جب تک کہ انکوائری کمیٹی اپنی رپورٹ پیش نہیں کر دیتی۔’

دریں اثنا، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کی جے این یو یونٹ کے رکن ستیم وتس نے کہا، ‘جب ہمارے پڑوس میں ہر روز ہندوؤں کو مارا جا رہا ہے تو ایک مرکزی یونیورسٹی ایسا سوال کیسے پوچھ سکتی ہے؟’

طلبہ تنظیم نے پروفیسر کی حمایت کی

تاہم، طلبہ تنظیم فراترنٹی موومنٹ نے پروفیسر کی حمایت کی۔ تنظیم نے کہا، ‘ہم ہندوتوا فاشسٹ اتحاد کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے میں پروفیسر اور ان کے جرأت مندانہ موقف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں جو تعلیمی حلقوں میں مستقل طور پر قدم جما رہا ہے۔ جامعہ طویل عرصے سے تنقیدی سوچ، بحث اور اختلاف کا مرکز رہا ہے، اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، تنظیم نے الزام لگایا کہ ‘یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی آزادی پر سزا کا راستہ چنا ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی بات بھی کر رہی ہے۔’

بیان میں کہا گیا ،’ ایک ایسی  یونیورسٹی، جو اپنی مسلم شناخت اور فکری مزاحمت کی روایت کے لیے معروف ہے، حقیقی سماجی مسائل پر ایماندارانہ بحث کی اجازت نہیں دے سکتی، تو پھر کون دے گا؟’

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ویب سائٹ پر دستیاب پروفیسر شاہارے کی سی وی کے مطابق، ان کے پاس 22 سال سے زیادہ تدریسی اور تحقیقی تجربہ ہے۔ ان کی تحقیقی دلچسپیوں میں دیہی اور شہری کمیونٹی کی ترقی، دلت اور قبائلی مطالعہ، سماجی اخراج اور شمولیت، اور تعلیم اور سماجی ترقی شامل ہیں۔

انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے اسکول آف سوشل سائنسز کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوشل سسٹم سے پی ایچ ڈی اور ایم فل اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، ممبئی سے ایم اے (سوشل ورک) کی ڈگری حاصل کی ہے۔

سی وی کے مطابق، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، اور ناگپور یونیورسٹی سمیت متعدد اداروں میں طلباء کو پڑھایا اور ان کی رہنمائی کی۔ وہ 2019-2022 کے درمیان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سوشل ورک کے ڈپارٹمنٹل ریسرچ کمیٹی (ٖی آر سی)کے کنوینر اور 2019-2020 کے درمیان پی ایچ ڈی کوآرڈینیٹر سمیت کئی انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

ان کے تحقیقی مقالے اور کانفرنس پریزنٹیشنز سماجی اخراج، پسماندہ برادریوں کے خلاف تشدد، دستی صفائی، مہاجر مزدور، دلت خواتین اور انسانی حقوق جیسے مسائل کا احاطہ کرتی ہیں۔