انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون کے تحت 5422 مقدمات درج کیے ہیں، لیکن اب تک صرف 23 افراد کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا ہے- جو کہ 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔
نریندر مودی حکومت کے لیےمکمل نااہلی یا بدنیتی پر مبنی ارادے یا دونوں کو تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اور بھی زیادہ ناممکن یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں پارلیامنٹ کے سامنے متعلقہ ڈیٹارکھے۔
بہرحال، وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری کے لوک سبھا میں دیے گئے جواب کے مطابق، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون (پی ایم ایل اے) کے تحت 5422 مقدمات درج کیے ہیں، لیکن صرف 23 لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے – یعنی 0.5 فیصدسے کم۔یہ اپنی ہی جانچ ایجنسی کے خلاف حکومت کی طرف سےفرد جرم عائد کرنےسے کم نہیں ہے اور پارلیامانی کمیٹی سے خصوصی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔
ای ڈی نے حقیقت میں اتنی بری طرح سے گڑبڑ ی کیسے کی؟ اگر اس کا موازنہ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کریں، تو ایجنسی کے ڈائریکٹر سبودھ کمار جیسوال نے پچھلے سال سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ان کی ایجنسی نے 65-70 فیصد کی سزا کی شرح حاصل کی تھی اور اس کو اگست 2022 تک 75 فیصد بڑھانا چاہتے تھے۔ یہ ای ڈی کے برعکس بالکل الگ تصویر ہے۔
یہ دریافت کرنا چاہیے کہ کیا منظم طریقے سے حکومت کرنے والی جمہوریت میں کسی بھی جانچ ایجنسی کی اتنی قابل رحم، تقریباًنہ کے برابر کنوکشن ریٹ ہے۔ لیکن ای ڈی آئے دن خبروں میں ہے – کبھی کسی سیاستدان یاپھر تاجر کے یہاں چھاپے ماری کی خبریں عام ہیں۔ ٹی وی چینل ای ڈی کے چھاپوں اور تحقیقات کی رپورٹ تو دیتے ہیں لیکن یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کرتے کہ اس کی سزا کی شرح اتنی کم کیوں ہے۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کنوکشن مقصد ہی نہیں ہے؟ اقتدار کا مقصد صرف سیاسی حریفوں،آواز بلند کرنے والوں یا میڈیا کو اپنی آمرانہ طاقتوں سے ڈرانا ہے۔ ای ڈی شاید اس محدود مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ محض ہے۔
دراصل، لوک سبھا میں جاری کردہ اعداد و شمار موجودہ حکومت کے دوران ای ڈی کے ذریعے مبینہ طور پرمنی لانڈرنگ کے لیے درج کیے گئے مقدمات کی ایک بڑی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں میں، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (ایف ای ایم اے) کے تقریباً 72فیصد اورپی ایم ایل اے کے 65فیصد معاملات مودی حکومت نے ہی شروع کیے ہیں۔ لیکن کنوکشن کا وہی شرمناک ریکارڈ قائم ہے۔
ایف ای ایم اے یعنی فیما کے تحت، منی لانڈرنگ ایک کمپاؤنڈیبل سول کرائم ہے، جبکہ پی ایم ایل اے، خصوصی طور پر منی لانڈرنگ سے متعلق ہے جہاں جرم سے حاصل ہونے والی آمدنی شامل ہے۔ پی ایم ایل اے کے تحت غیر قانونی لین دین کا تعلق عام طور پر رشوت خوری، منشیات یا دہشت گردی سے ہوتا ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ ای ڈی نے ہراساں کرنے کے مقصد سے زیادہ تر علاقائی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں اور اتحادیوں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔ مودی حکومت کے آٹھ سالوں میں ای ڈی نے 3010 چھاپے مارے اور تلاشیاں لی ہیں، لیکن 2005 سے 2014 کے درمیان تلاشیوں کی تعداد صرف 112 ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ای ڈی اقتدار کے لیے کتنی اہم ہے۔
بی جے پی میں شامل ہونے والے اپوزیشن لیڈروں کے لیے ای ڈی کے شکنجے سےچھوٹ جانا عام بات ہوگئی ہے۔ اس سےزیادہ بے شرمی اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ درست ہے کہ پچھلی حکومتوں میں بھی ای ڈی کو سیاسی ہراسانی کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، لیکن گزشتہ آٹھ سالوں میں ہوئے اس کے غلط استعمال کا موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
ای ڈی کا خوف اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس کے پاس تفتیش کے دوران کسی ملزم کو جرم قبول کرنے پر مجبور کرنے کے خصوصی اختیارات ہیں- انہی اختیارات کو ایک عرضی میں غیر آئینی بتاتے ہوئے چیلنج دیا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس کے قانونی جواز کو برقرار رکھا۔ تفتیش کے دوران لیے گئے بیانات کو بطور ثبوت استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کی عام فوجداری قانون اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ واضح ہے کہ ای ڈی اپنے سیاسی استعمال کی وجہ سے ہی زندہ ہے۔ تاہم، پیشہ ورانہ طور پر اس کی سزا کی شرح بتاتی ہے کہ اس کے پاس اپنے وجود کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)