ونیش پھوگاٹ جدوجہد، کڑی محنت اور حوصلے کی مثال ہیں۔ ایک ایسی مثال جو بتاتی ہے کہ مختلف اسپورٹس فیڈریشن میں مخالفین یا حکمراں طبقے کی سرپرستی میں بیٹھنے والے سربراہوں کے خلاف شکست تسلیم کرلینا کوئی متبادل نہیں ہے۔
سات اگست 2024 کو کھیل شائقین کے لیے صبح سویرے ایک منحوس خبر آئی کہ پہلوان ونیش پھوگاٹ کو اولمپک میں اپنے فائنل مقابلے سے پہلے ہی نااہل قرار دے دیا گیا ۔ ونیش نے ایک دن پہلے ہی جاپان کی ورلڈ چیمپئن ریسلر یوئی سساکی کومقابلے میں شکست دی تھی۔ سساکی نے اس سے پہلے کبھی کسی مقابلے میں شکست کا منھ نہیں دیکھا تھا اور انہیں یقین تھا کہ وہ ونیش کے ساتھ ہونے والے مقابلے میں بھی فاتح ہوں گی۔ ونیش یہیں نہیں رکیں بلکہ اپنے اگلے دونوں مقابلے جیت کر اولمپک گیمز کے فائنل میں جگہ بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون پہلوان بنیں۔
حالاں کہ، ونیش فائنل تو نہیں کھیل پائیں، لیکن فائنل تک پہنچنے کے لیے انہوں نے جو سفر طے کیا اس نے نہ صرف کھیل کی دنیا بلکہ ہندوستانی معاشرے میں بھی ایک سنگ میل قائم کر دیا۔ کشتی کے میدان میں ونیش کے اس کرشمے کی بازگشت ہندوستانی سماج میں ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔
ونیش ایک بہترین پہلوان رہی ہیں۔ ریسلنگ کے واقف کار جانتے ہیں کہ وہ 2015 سے اچھی فارم میں رہی ہیں اور ریو 2016 اور ٹوکیو 2020، دونوں ہی اولمپک میں میڈل کی مضبوط دعویدار تھیں۔ لیکن ہونی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دونوں بار انہیں چوٹ کی وجہ سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ تاہم، انہوں نے اس دوران ورلڈ چیمپئن شپ، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز جیسے بڑے بڑے مقابلوں میں مسلسل میڈل جیتے۔
کھیل کے میدان اور میدان کے باہر کسی فاتح کے بارے میں جب بھی کوئی کہانی لکھی جائے گی، ونیش پھوگاٹ کی کہانی کو ضرور شامل کیا جائے گا، جو آج تک کی سب سے خوبصورت کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ایک کھلاڑی کی، ایک پہلوان کی کہانی، جس نے گزشتہ 18 ماہ کے مختصر عرصے میں عرش سے فرش تک اور پھر ققنوس(دیومالائی پرندہ) کی طرح زمین سے آسمان کی بلندی تک کے سفر کوطے کیا۔
یاد دلادیں کہ 28 مئی 2023 کو جب پہلوانوں کو ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ونیش اور اس کے ساتھی پہلوانوں کو دھکا دیا گیا، مارا پیٹا گیا اور یہاں تک کہ زمین پر گھسیٹا گیا، وہاں سے لے کر6 اگست 2024 کی شام تک، جب ونیش نےحریف پہلوانوں کو کشتی کے میٹ پر ہرا دیا اور اولمپک فائنل میں پہنچنے والی پہلی ہندوستانی خاتون ریسلر بننے تک ، انہوں نے وہ کر دکھایا ،جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ونیش پچھلے سال ہوئی پہلوانوں کی تحریک کی سرگرم رکن تھیں۔ یہ تحریک بنیادی طور پر خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کے خلاف تھی۔ یہ تحریک کئی لحاظ سے بے مثال تھی۔ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف اسپورٹس فیڈریشن کے رہنماؤں پر خواتین کھلاڑیوں کے جنسی استحصال کے الزامات لگتےآرہے تھے، لیکن ان خبروں کو یا تو دبا دیاجاتا تھا،یا پھر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں خواتین کھلاڑیوں کا کیریئر داؤ پر تھا۔ اور ان کے کیرئیرکو منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا تھا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسپورٹس فیڈریشن بنیادی طور پر نہ صرف ذات پات اور پدر شاہی کے گڑھ ہیں بلکہ وہاں خواتین کی تضحیک یا روزمرہ کی مساجنی عام ہیں۔ ایسی جگہوں پر جنسی ہراسانی ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپورٹس ایسوسی ایشن میں جنسی استحصال کے الزامات پر کارروائی کرنے کے حوالے سے ہمیشہ لیپا پوتی کی جاتی رہی ہے۔
جب ریسلنگ فیڈریشن کے اس وقت کے صدر اور حکمراں پارٹی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر خواتین پہلوانوں کے استحصال کا انکشاف ہوا تو اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن اس بار پہلوانوں کی تحریک نے اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور برج بھوشن اور ریسلنگ فیڈریشن کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اس تحریک سے جڑے واقعات آئے روز نئے موڑ لیتے رہے لیکن خواتین پہلوانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ونیش اس تحریک کے قائدین میں تھیں اور حکومت سے لوہا لیتی رہیں۔ ان کے لیے سمجھوتہ کرنا یا ہار مان لینا آسان ہو سکتا تھا، لیکن ونیش نے جدوجہد اور حوصلے کا راستہ چنا اور اپنے اور دیگر ساتھی خواتین کھلاڑیوں کے وقار اور ان کے محفوظ مستقبل کے لیے ثابت قدم رہیں۔ان کا مستقبل اور ان کا وقارجو ان اسپورٹس فیڈریشن کے سربراہوں اور ان کی پنچایتوں کے پاس رہن تھے۔
کھلاڑی اپنے کھیلوں میں ٹاپ تک پہنچنے کے لیے بہت قربانیاں دیتے ہیں۔ اور ونیش جیسی باصلاحیت پہلوان کے لیے یہ سفر کھیل کے میدان میں جتنا مشکل تھا، اس سے کہیں زیادہ مشکل کھیل کے میدان کے باہر تھا۔ پہلوانوں کی تحریک میں بےباک ہونے کی وجہ سےسوشل میڈیا پر ان کا کافی مذاق اڑایا گیا، گالیاں دی گئیں اور بہت زیادہ ٹرول کیا گیا۔ انہیں ذات پرست، ناکام پہلوان، ملک دشمن اورنہ جانے کیاکیاکہا گیا۔ کھیلوں اور سیاسی اداروں کی پوری مشینری نے انہیں درکنارکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا پورا کیریئر تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایک کھلاڑی اپنے کھیل کو مسلسل بہتر بنانے کی سمت میں بڑھتے ہوئے نشیب وفراز سے گزرتا ہے اور اپنے آپ کو آگے آنے والے چیلنجز کے لیے تیار کرتا ہے۔ لیکن ونیش کے خلاف میدان کے باہرجس طرح کا ماحول بنایا گیا تھا اور وہ جس طریقے سے اس سے نبرد آزما رہیں اس کو سمجھنے کے لیے شاید ہمارے پاس کوئی ٹول بھی نہیں ہے۔ ونیش اس ماحول میں تمام خدشات اور پریشانیوں کے باوجود میدان میں ہمت کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔ لیکن ہم اس پورے واقعہ میں، ایک قوم کے طور پر میں ان کی حمایت میں نہیں آ سکے۔ ہم نے ان سے اجتناب کیا۔
یہ سب دیکھنا کسی کھلاڑی کا دل توڑنے کے لیے کافی ہو سکتا تھا۔ ونیش اس ملک کی نمائندگی کر رہی تھیں جس نے انہیں 28 مئی 2023 کوہی کھو دیا تھا۔ وہ آج بھی لڑیں اسی ملک اور لوگوں کے لیے جس نے انہیں اس آندھی طوفان میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔
درحقیقت، ہم کھیلوں کو ایک باشعور ناظر کی طرح نہیں دیکھتے، کھلاڑیوں کے نقطہ نظر سے تو بالکل ہی نہیں۔ زیادہ تر لوگ کھیلوں کو قوم پرستی کے چشمے سے دیکھتے ہیں، جو اکثر شاونزم میں بدل جاتا ہے۔ محدود وژن کے حامل لوگ کھلاڑیوں کو محض قومی امنگوں کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ جس میں کسی کھلاڑی کا معیار صرف پوڈیم تک پہنچ کر ملک کے لیے جیت حاصل کرنے سے طے ہوتا ہے۔
اور اگر کوئی کھلاڑی، خاص طور پر کوئی خاتون کھلاڑی، ان معیارات پر سوال اٹھاتی ہے، تو انہیں بے لگام اور جارح کہا جاتا ہے۔ جب خواتین پہلوانوں نے اپنے وقار کے لیے جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائی تو فیڈریشن کی ٹرول آرمی نے ونیش اور دیگر پہلوانوں کی کردار کشی شروع کردی۔ یہ گالیاں اور کردار کشی کھلاڑیوں کے بارے میں کم اور ان ثالثوں کے مردانہ خدشات کے بارے میں زیادہ بتاتے ہیں۔
اس طرح کا ماحول کھلاڑیوں کے مستقبل اور کیریئر کو ڈانواڈول کر دیتا ہے اور انہیں مایوسی اور حوصلہ شکنی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ کیا ونیش ایسے جذبات سے نہیں گزری ہوں گی؟ کیا اس کا اثر ونیش کی ذہنی نفسیات پر نہیں پڑا ہوگا؟ اس کا ذمہ دار اور جوابدہ کون ہوگا؟ فیڈریشنوں میں بیٹھےیہ ثالث؟ حکومت ؟ میڈیا ؟ یا وہ لوگ جو خاموش رہ کر اس پورے واقعہ کو اپنی رضامندی دے رہے تھے؟
اور کیا ان سب کو ونیش کی جیت مبارک کہنے کا کوئی حق ہے؟ اگر 28 مئی 2023 کو سامنے آئی تصویروں نے ہمیں پریشان نہیں کیا تو پھر 6 اگست 2024 کو ونیش کے ساتھ جو ہوا اس میں بھی شامل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہم بحیثیت قوم انہیں کھو چکے ہیں۔ ہمیں اس فعل کے لیے ونیش سے معافی مانگنی چاہیے اوراپنا گمبھیر جائزہ لینا چاہیے۔ ونیش نے اولمپک کا فائنل تو نہیں کھیلا لیکن ریسلنگ کے میدان سے باہر فاتح رہیں۔
ونیش گزشتہ 18 مہینوں میں جس جذباتی سفر سے گزری ہیں اس کا ماضی کی کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس پورے واقعہ سے دور رہنا آسان ہوتا۔ لیکن ونیش نے اپنی ہمت اور جذبے کو کم نہیں ہونے دیا۔ وہ ضرور ریسلنگ کی بنیادی تعلیم پر عمل کر رہی ہوں گی ؛ کہ جب ایک بار آپ ریسلنگ سیکھ لیتے ہیں ، تو آپ کسی بھی صورتحال کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اسی بنیادی تعلیم نے ونیش کو مضبوطی سے واپس لوٹنے کا راستہ دکھایا ہوگا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ونیش کو اپنی طے شدہ 50 کلوگرام وزن کے زمرے سے 100 گرام زیادہ ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ زیادہ تر پہلوان بین الاقوامی مقابلوں میں جس وزن کے زمرے میں حصہ لیتے ہیں ،عام دنوں میں اس سے 2 سے 4 کلو تک زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی مقابلوں میں انہیں وزن کے وقت صرف مقررہ وزن میں ہونا پڑتا ہے۔ ان مقابلوں سے پہلے اور اس کے دوران کھلاڑیوں پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے کافی دباؤ ہوتا ہے۔ یہاں وزن کم کرنا ایک اضافی دباؤ بن جاتا ہے، جو جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ایک پہلوان کو ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوتا ہے۔
اسپورٹس فیڈریشن یا حکومت کی جانب سے کھلاڑیوں پر خرچ کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ ڈاکٹروں، فیڈریشن کے نمائندوں اور معاون عملے پر خرچ ہوتا ہے۔ اور وہ پہلوان کی صحت، خوراک، وزن اور آرام کا خیال رکھتے ہیں۔ لہذا، ان میں سے کسی بھی چیز کی کوتاہی کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوتی ہے نہ کہ صرف کھلاڑی پر۔
ونیش جدوجہد، کڑی محنت اور حوصلے کی زندہ مثال ہیں۔ ایک ایسی مثال جو بتاتی ہے کہ مخالفین یا حکمراں طبقے کی طرف سے تحفظ یافتہ اسپورٹس فیڈریشنوں میں بیٹھے سربراہوں کے خلاف شکست قبول کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پیرس 2024 میں ونیش کی کارکردگی نے ہندوستان میں خواتین کے کھیلوں میں ایک نئے باب کی شروعات کی ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال اور لیجنڈ بن کر ابھری ہیں۔ جب کبھی ہمیں ہمت کی کمی محسوس ہوگی، ہمیں ونیش کی طرف دیکھناہوگا جہاں ہمت اورحوصلہ نظر آئے گا۔
(پروین ورما پہلوان رہے ہیں اور اس وقت دہلی یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔)