بچوں کو صبح جلدی بیدار کرنے کے لیے مندر-مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کریں: ہریانہ محکمہ تعلیم

دسویں اور بارہویں بورڈ کے امتحانات کے پیش نظر ہریانہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے پرنسپل سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں بچوں کے لیے مطالعہ کا سازگار ماحول بنانے کی غرض سےگرام پنچایتوں سے رابطہ کریں۔ اس طرح کی کوشش کریں کہ گاؤں میں صبح کے وقت پڑھائی کرنے کا ماحول بنے۔

دسویں اور بارہویں بورڈ کے امتحانات کے پیش نظر ہریانہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے پرنسپل سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں بچوں کے لیے مطالعہ کا سازگار ماحول  بنانے کی غرض سےگرام پنچایتوں سے رابطہ کریں۔ اس طرح  کی کوشش کریں کہ گاؤں میں صبح کے وقت پڑھائی کرنے کا ماحول بنے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: دسویں اوربارہویں کے طلبہ کے سالانہ بورڈ امتحانات سے چند ماہ قبل ہریانہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے پرنسپل سے کہا ہے کہ وہ بچوں کے گھروں پرمطالعہ کےلیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیےگرام پنچایتوں سے رجوع کریں، خاص طور پر بچوں کو صبح  جلدی بیدار ہونے اورعلی الصبح  (4:30 صبح) پڑھنے کے لیے راغب کریں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 22 دسمبر کو پرنسپل کو جاری کردہ ہدایات میں محکمہ تعلیم نے کہا ہے، ‘پنچایتوں کے نو منتخب اراکین سے اپیل کی جائے کہ وہ ایسی کوششیں کریں کہ گاؤں میں صبح  کے وقت پڑھائی  کا ماحول بنے۔ مندروں، مساجد اور گرودواروں سے صبح کے اعلانات (لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے) کے لیے رابطہ کیا جانا چاہیے،تاکہ طلبہ جاگ کر پڑھنا شروع کر سکیں۔ اس پہل سے بچوں کو مطالعہ کرنے کے لیے اضافی 2-3 گھنٹے ملنے کی امید ہے۔

ڈائریکٹر (ثانوی تعلیم) انشج سنگھ نے ضلعی تعلیمی افسران اور ریاست کے تمام سرکاری اسکولوں کےپرنسپل کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ 10ویں اور 12ویں کے امتحانات کی تیاری کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

خط کی ایک کاپی ریاست کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (اسکول ایجوکیشن) مہاویر سنگھ کو بھی بھیجی گئی ہے۔

انشج سنگھ کے خط کے مطابق،  والدین اور اساتذہ کی طرف سے مشترکہ منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے تاکہ طلبہ کو خود سیلف اسٹڈی  کے لیے اضافی گھنٹے مل سکیں۔

خط کے مطابق، ‘صبح اس کے لیے بہترین وقت ہے، جب دماغ تروتازہ ہوتا ہے، ماحول پرسکون ہوتا ہے  اور گاڑیوں کا شوربھی نہیں ہوتا۔ اور اس کے لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ والدین سے کہیں کہ وہ اپنے بچوں کو صبح ساڑھے چار بجے جگائیں۔ والدین اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے صبح 5:15 بجے تک کتابوں سے چمٹے رہیں۔ وہاٹس ایپ کے ذریعے اساتذہ پوچھ سکتے  ہیں کہ طالبعلم جاگ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ اگر والدین تعاون نہیں کر رہے تو اسے اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے نوٹس میں لایا جائے۔

خط میں پرنسپل کو یاد دلایا گیا ہے کہ مارچ 2023 میں ہونے والے بورڈ کے امتحانات میں صرف 70 دن رہ گئے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکول اپنے اداروں کے نتائج کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کریں۔

محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ یہ پہل طلبا کو سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن جیسے مختلف خلفشار سے دور رہنے اور اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے میں مدد کے لیے کی گئی ہے۔

Next Article

مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے پیغامات فارورڈ کرنے پر غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھ سکتے: عدالت

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار سرکاری کالج کی گیسٹ فیکلٹی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے

نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ڈنڈوری کے گورنمنٹ ماڈل کالج کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر نسیم بانو کو ضمانت دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہیں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بارے میں مبینہ طور پر وہاٹس ایپ پیغامات اور ایک ویڈیو فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جسٹس اویندر کمار سنگھ نے 13 جون کے اپنے آرڈر میں کہا، ‘پہلی نظر میں یہ بہت محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ کالج میں گیسٹ فیکلٹی کے عہدے پر فائز ایک پڑھے لکھے شخص پر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرتے ہوئے زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔ لیکن محض پیغامات اور ویڈیوز کو فارورڈ کرنے کی بنیاد پر، جس سے کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں، کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔’

معلوم ہو کہ ڈاکٹر بانو کو 28 اپریل کو ڈنڈوری پولیس اسٹیشن میں دیپیندر جوگی نامی شخص کی شکایت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف بھارتیہ  نیائےسنہتا(بی این ایس) 2023 کی دفعہ 196، 299 اور 353 (2) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پروفیسر نے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کچھ پوسٹ ڈالے تھے، جن کا مقصد ایک کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے، ساتھ ہی ‘نیا راون’ کے عنوان سے ایک ویڈیو بھی نشر  کیا تھا ہے۔

ایڈوکیٹ ایشان دت اور سینئر ایڈوکیٹ منیش دت نے ڈاکٹر بانو کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے دلیل دی کہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ان کا کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں  تھا۔

ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل رویندر شکلا نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر وہاٹس ایپ پیغام اور ویڈیو کو آگے بڑھایا تھا۔

تاہم، انہوں نے بتایاکہ پروفیسر کے خلاف کوئی اور جرم درج نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو سننے اور کیس ڈائری کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس سنگھ نے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے ضمانت دینا مناسب سمجھا۔

Next Article

کیا اسرائیل ایرانی مخبروں کے بغیر تہران پر حملہ کر پاتا؟

اسرائیل نے یہ کیسے معلوم کیا کہ اعلیٰ ایرانی حکام کے گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے؟ اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر  بنا رکھا ہے۔

13 جون 2025 کو ایران کے تہران میں ہوئے دھماکے کے بعد اٹھتادھواں تصویر: اے پی /پی ٹی آئی

جمعہ ، 13 جون ، صبح 4 بجے کے قریب ، اسرائیل نے ایران  پر، اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور مبینہ طور پر چھ شہروں میں ایران کے اعلیٰ فوجی حکام کو ہلاک کر دیا ۔

اعلیٰ ترین رینکنگ والے میجر جنرل محمد باقری ، مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل حسین سلامی ، ایران کی بنیادی فوجی طاقت، اسلامی انقلابی گارڈ کور کے کمانڈر ان چیف  اور جنرل غلام علی راشد ، مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف  کے ساتھ تین جوہری سائنسدانوں –  فریدون عباسی ، ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سابق سربراہ محمد مہدی تہرانچی ، نظریاتی طبیعیات دان اور تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر اور عبدالحمید منوشار  بھی مارے گئے ۔​​​

مجھے ایک کہانی یاد آرہی ہے ۔ چینیوں نے خود کو حملوں سے بچانے کے لیے ‘ دیوارِ چین ‘ تعمیر کی ۔ لیکن حملے کبھی نہیں رکے کیونکہ ملک  کے اندر غدار دشمنوں کے لیے دروازے کھول دیتے تھے ۔ ایران نے زیادہ بڑی قیمت ادا کی ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف سے ایسا حملہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اسرائیل کو ‘ خفیہ ‘ اور ‘ کھلی ‘ حمایت حاصل نہ ہو ۔

آخر کیسے اسرائیل نے ایران کے چھ شہروں پر اتنی درستگی کے ساتھ  حملہ کیا ؟ اسرائیل کو کیسے پتہ چلا کہ ایران کے اعلیٰ حکام کے  گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے ؟

اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بنا رکھا ہے ۔

ایران میں ہلاکتوں کی فہرست بہت طویل ہے

ہلاکتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر بم دھماکوں کا بھی ایک سلسلہ ہے ، جو ایران کے اندر موجود جاسوسوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ٹھکانے کی جانکاری کس نے دی ، جس کے نتیجے میں ان کا قتل ہوا ؟ نیوکلیئر سائنسدان محسن فخر زادہ کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب ان کے ٹھکانے کی جانکاری لیک کی گئی ۔

گزشتہ 19مئی 2024 کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو قتل کر دیا گیا ۔ ایران نے سرکاری طور پر اسے ایک حادثہ قرار دیا  تھا ۔ لیکن یہ حادثہ مخبروں کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتا تھا ۔

اس کے بعد 31 جولائی 2024 کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران کے انتہائی محفوظ علاقے میں قتل کر دیا گیا ، وہ بھی اس وقت جب مسعود پیزشکیان صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے تھے ۔ یہ پیزشکیان کے لیے ذاتی دھچکا تھا ۔

اسرائیل نے یہاں تک مذاق اڑایا کہ ہانیہ کو رئیسی کے جنازے میں مارا جانا تھا لیکن اسے کسی اور دن قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لبنان کے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران کے جنرل عباس نیلفروشان  کوبھی اسرائیل نے ملبے میں دفن کر دیا ۔ یہ سب ایسے  ہی ‘ اندرونی لوگوں  ‘ کی مدد سے ہوا ۔

کیا ہم نے کبھی ایران میں ہائی پروفائل قتل کے بعد کسی تحقیقاتی کمیشن کے نتائج کے بارے میں سنا ہے ؟ شاید نہیں ۔ دو بار منتخب ہونے والے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ، جن کا پرچہ نامزدگی اس بار بھی مسترد کر دیا گیا ، ایک بار ایک تلخ سچائی سے پردہ اٹھایا تھا ۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے دور میں انہوں نے ایران کے سیکورٹی اداروں میں موساد کے ایجنٹوں کی تحقیقات کے لیے ایک خفیہ سروس یونٹ قائم کیا تھا اور پتہ چلا کہ اس کا سربراہ 20 دیگر افراد کے ساتھ موساد کے پے رول پر تھا ۔

اسرائیل نے اہم ایرانی تنصیبات پر بمباری کی

رئیسی کے قتل کے بعد ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے میں پورے دو ماہ ( اکتوبر 2024 ) لگے ، کیوں ؟

اسرائیل نے جوابی کارروائی کی، لیکن ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکا، کیونکہ ایران نے خود کو نئے روسی دفاعی نظام کے ساتھ جوڑ رکھا تھا ۔ یہ وہی نظام ہے جو اس بار ناکام ہوا ۔ اسرائیل نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں سے ایران کے اندر اہم تنصیبات پر بمباری کی ۔ اردن نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود بھی فراہم کر رکھی ہیں ۔ اسرائیل ایران کے اندر تمام ریڈار وغیرہ کو جام کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔

تیرہ جون کو، اسرائیل نے دن دہاڑے 200 لڑاکا بمبار طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا ۔ اسرائیل سائنسدانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر کیسے مار سکتا ہے ؟

عالمی میڈیا میں اس وقت ایسی خبروں کی بھرمار ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موساد کے کمانڈوز پہلے ہی ایران میں گھس گئے تھے۔ انہوں نے خفیہ ڈرون لگائے ، میزائلوں کی اسمگلنگ کی اور ایرانی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کی سطح سے فضا تک میزائل ڈیفنس کے قریب درست گائیڈڈ ہتھیار نصب کیے ۔

اسرائیل نے ویڈیوز جاری کیے ہیں کہ  کیسے اس نے خفیہ طور پر اسٹرائیک سسٹم قائم کیا ، جو ایرانی فضائی دفاعی نظام پر فائر کیے گئے ۔ یہ روس میں یوکرین کے ‘ آپریشن اسپائیڈر ویب ‘ سے بہت ملتا جلتا ہے ، جس میں سینکڑوں ڈرون روس میں بھیجے گئے تھے ۔ اسرائیل نے اس حملے کو ‘ آپریشن رائزنگ لائن ‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ حملے جاری رہیں گے ۔

مشرق وسطیٰ کا تقریباً ہر ملک ایران کے خلاف ہے ۔ 22 عرب ممالک امریکہ کے سیٹلائٹ ہیں ۔ مصر ، اردن ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، قطر ، عمان وغیرہ ہمیشہ امریکہ کی طرف رہے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے ان ممالک نے غزہ ، فلسطین میں اسرائیلی نسل کشی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ غزہ میں روزانہ اوسطاً 100 افراد مارے جا رہے ہیں ۔

ایران کو سخت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے

کوئی بھی اسٹریٹجسٹ  بہت آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ امریکی صدر کا مشرق وسطیٰ کا آخری دورہ ( 13-16 مئی ) ایران پر آنے والے اسرائیلی حملے کے پیش نظر عرب ریاستوں کی حمایت حاصل کرنا تھا ۔ ایران 50 سال سے زیادہ عرصے سے سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا، لیکن اس نے اسے برداشت کیا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں تنازعہ روس اور چین کے حمایت یافتہ ایران بمقابلہ امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ہے ۔ فلسطین کی نسل  کشی عربوں یا ترکوں کے لیے ‘ تشویش کا معاملہ ‘ نہیں ہے ۔

ایران نے فلسطین میں حماس ، لبنان میں حزب اللہ ، شام میں بشارالاسد اور یمن میں انصاراللہ کی مدد کی ، جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف محاذ تھے ۔​​​ فلسطین کی نسل کشی کے دوران ترکی خاموش تماشائی بنا رہا ۔ لیکن اس نے الجولانی کو شام میں اسد کا تختہ الٹنے میں مدد کی اور کھیل اسرائیل کے حق میں جھک گیا ۔      الجولانی اور اسرائیل شام میں ایرانی تنصیبات پر حملوں میں ایک ساتھ ہیں ۔ روس ، جس نے گزشتہ دہائی میں اسد کی مدد کی تھی ، کو بھی اپنے فوجی اڈے چھوڑنے پڑے ۔ روس فروری 2022 سے یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جسے نیٹو اور امریکہ نے مسلح کیا ہے ۔ لیکن ایران میں موساد کی دراندازی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل اب آیت  اللہ  خامنہ ای کو نشانہ بنانے کے بہت قریب ہوسکتا ہے ۔

(حیدر عباس اتر پردیش کے سابق ریاستی انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)

Next Article

یوپی کانسٹبل بھرتی: امت شاہ نے جس امتحان کو بے داغ کہا، وہ کبھی پیپر لیک کے بعد ہوا تھا رد

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یوپی پولیس میں بھرتی کے عمل کو ‘شفاف’ قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ سال پیپر لیک کی وجہ سے اس امتحان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کا انعقاد کرنے والی گجراتی کمپنی ایڈوٹیسٹ کی تاریخ داغدار رہی ہے۔ یوپی حکومت کو بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس کمپنی کے بانی ڈائریکٹر کے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جوائنگ لیٹردیتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس/ امت شاہ

نئی دہلی: 15 جون، 2025 کو لکھنؤ میں منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتر پردیش پولیس کے ‘اب تک کی سب سے بڑی بھرتی کے عمل’ کے تحت منتخب کیے گئے   60244سپاہیوں کو تقرری لیٹر سونپے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بھرتی مکمل طور پر شفاف تھی اور کسی کی سفارش نہیں چلی، اور نہ ہی رشوت لی گئی اور ذات یا برادری  بھی نہیں دیکھی گئی- انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔

اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟

وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کئی سطحوں پر سوالوں کے دائرے میں ہے۔

اول، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے امت شاہ بھول گئے کہ پچھلے سال، اسی امتحان، یعنی ‘کانسٹبل سول پولیس ڈائریکٹ ریکروٹمنٹ-2023’ پربدعنوانی کے تمام طرح کے الزام لگے تھے اور اس کی جانچ یوپی ایس ٹی ایف نے کی تھی۔ وہ بھول گئے کہ سال بھرقبل پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے اتر پردیش حکومت کو یہ امتحان منسوخ کرنا پڑا تھا۔

اس کے بعد دوبارہ امتحان ہوا جس کے بعد اب بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اس دوسرے امتحان کی شفافیت کا دعویٰ کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ پچھلے سال منسوخ ہونے والے امتحان کا ذکر کر دیا جائے جس نے لاتعداد امیدواروں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی تھیں۔

دوم، امت شاہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اس امتحان کا انعقاد کرنے والی کمپنی ایڈوٹیسٹ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈپربہارحکومت نے ایک دوسرےپیپر لیک معاملے میں بہت پہلے پابندی لگا دی تھی ۔ اس کے باوجود اتر پردیش حکومت نے دوبارہ امتحان کرانے کا ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا ۔

سوم، امت شاہ بھول گئے کہ یہ کمپنی دراصل گجرات کی ہے  اور اس کے بی جے پی لیڈروں سے روابط رہےہیں۔

چہارم، انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ 20 جون 2024 کو اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود، سی ایس آئی آر نے، جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والا ادارہ ہے، سیکشن آفیسر (ایس او)، اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر(اے ایس او) کے عہدوں پر بھرتی کے لیے ایڈوٹیسٹ کی خدمات کو لینا جاری رکھا، جس پر شدید بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔

یعنی، جس امتحان کو ملک کے وزیر داخلہ نے شفاف قرار دیا ، نہ صرف اس کی تاریخ پیپر لیک اور بدعنوانی کی  ہے بلکہ اس امتحان کو منعقد کرنے والی کمپنی پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے- اور ان پابندیوں کے باوجود کمپنی مختلف امتحانات کا انعقاد کرتی رہی ہے۔

پیپر لیک کی تاریخ

اتر پردیش پولیس میں کانسٹبل کی بھرتی کے لیے امتحان 17 اور 18 فروری 2024 کو منعقد ہوا تھا۔ 48 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ لیکن سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزام کے بعد دوبارہ امتحان کرانے کا مطالبہ کیا جانے  لگا۔

اس معاملے میں ریاست کے مختلف حصوں سے 120 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ کچھ لوگوں کو اصلی امیدواروں کی جگہ امتحان میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے امیدواروں کے ساتھ  دھوکہ  کیا تھا۔

اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہا تھا ، ‘کل 122 گرفتار لوگوں میں سے 15 کو ایٹا میں، نو-نو کو مئو، پریاگ راج اور سدھارتھ نگر میں، آٹھ کو غازی پور میں، سات کو اعظم گڑھ میں، چھ گورکھپور میں، پانچ کو جونپور میں، چار کو فیروز آباد میں، تین-تین کو کوشامبی میں اورہاتھرس میں،دو-دو کو جھانسی ،وارانسی، آگرہ آگرہ اور کانپور میں ، اور ایک -ایک کوبلیا، دیوریا اور بجنور میں گرفتار کیا گیا ۔’

یہ بدعنوانی ریاست گیر تھی

سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے فروری 2024 میں ایس ٹی ایف کی تشکیل کی تھی۔ ایس ٹی ایف نے مارچ 2024 میں بلیا کے رہنے والے نیرج یادو کو گرفتار کیا تھا ۔ اس پر امیدواروں کو وہاٹس ایپ پر جوابات بھیجنے کا الزام تھا۔

اس کے علاوہ بھی کئی گرفتاریاں  کی گئی تھیں۔

کمپنی پر اٹھائے گئےسوال

ریاست بھر سے امیدواروں نے لکھنؤ پہنچ کر احتجاج کیا ، اور آخرکار یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحان کو رد کرنے کا اعلان کیا ۔

گجرات کی جس  ایجنسی ایڈوٹیسٹ کو اس امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی تھی، اسے ریاستی حکومت نے پیپر لیک کے الزامات کے بعد 20 جون 2024 کو بلیک لسٹ کر دیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کمپنی پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ سال تین حصوں میں اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا تھا کہ یوپی میں پولیس بھرتی امتحان کے لیے ٹینڈر حاصل کرنے سے پہلے بہار میں امتحان کے عمل میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے ایڈو ٹیسٹ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔

بلیک لسٹڈ کمپنی کی بی جے پی لیڈروں سے قربت

بار بار تنازعات میں آنے کے باوجود اسے بی جے پی مقتدرہ ریاستوں اور خود نریندر مودی کی سربراہی والی سی ایس آئی آر سے ٹھیکے ملتے رہے۔ اس کمپنی کا رجسٹریشن گجرات میں ہوا تھا۔

دی وائرنے اپنی رپورٹ میں بتایاتھا کہ نہ صرف اس کمپنی کو کئی بار بلیک لسٹ کیا گیا، بلکہ اس کے بانی ڈائریکٹر کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں سے خوشگوار تعلقات ہیں۔

دراصل، ایڈوٹیسٹ کے بانی ڈائریکٹر سریش چندر آریہ ایک ممتاز ہندو تنظیم ‘سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا‘ کے صدر ہیں ۔ سبھا نے سال 2018 میں چار روزہ بین الاقوامی آریہ مہا سمیلن کا انعقاد کیا تھا ، جس میں بی جے پی اور سنگھ کے کئی سینئر لیڈروں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند مہا سمیلن کی افتتاحی تقریب میں پہنچے تھے اور سریش چندر آریہ نے استقبالیہ تقریر کی تھی۔

فروری 2023 میں نئی دہلی میں دیانند سرسوتی کے 200 ویں یوم پیدائش کی تقریبات کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ آریہ سماج کے اس پروگرام کے دوران پی ایم مودی کے ساتھ اسٹیج پر سریش چندر آریہ موجود تھے۔  مودی نے اپنی تقریر میں سریش چندر کا بھی ذکر کیا تھا ۔

سریش چندر آریہ پی ایم مودی کے دائیں طرف کھڑے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: نریندر مودی ویب سائٹ)

وزیراعظم کے ادارے کے امتحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے

سریش چندر کے بیٹے یعنی ایڈوٹیسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو 2017 میں امتحان سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل رسید کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی سربراہی والی  مرکزی حکومت کے ادارے سی ایس آئی آر اور کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں نے امتحان کے انعقاد کے لیے ایڈوٹیسٹ کو ٹھیکہ دیا تھا۔

سی ایس آئی آرکےسیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) بھرتی امتحان کے مختلف مراحل میں بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ پہلے مرحلے کا امتحان 5 اور 20 فروری 2024 کے درمیان ملک بھر کے مختلف مراکز پر آن لائن منعقد ہوا تھا۔ 8 فروری 2024 کو اتراکھنڈ پولیس نے ایک امتحانی مرکز پر چھاپہ مارا اور ملزم انکت دھیمان کو گرفتار کیا تھا، جس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک امیدوار کا پرچہ حل کرایا تھا۔

ایسے تمام الزامات کے بعد امیدواروں نے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) سے رجوع کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہاں کوئی فیصلہ ہوتا، 7 جولائی 2024 کو ملک کے بڑے میٹرو میں منعقد ہونے والے امتحان کے دوسرے مرحلے میں بدانتظامی اور بے ضابطگیاں سامنے آ گئیں ۔

ظاہر ہے، اگر امت شاہ نے اتر پردیش پولیس بھرتی امتحان کے ماضی اور امتحان منعقد کرنے والی اس کمپنی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہوتی، تو شاید وہ ‘بدعنوانی سے پاک عمل اور شفافیت’ کا دعوی کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے ہوئی لاپرواہی کا تذکرہ کرتے۔

Next Article

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

Next Article

بانو مشتاق کو کیوں پڑھیں؟

بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

بانو مشتاق، فوٹو: پی ٹی آئی

ممتازادیبہ اور مترجم ارجمند آرا نے جہاں بخوبی یہ استدلال کیا ہے کہ بانو مشتاق کو کیوں پڑھا جانا چاہیے، وہیں انہوں نے بانو کی ایک کہانی ‘فائر رین’ میں تخلیقیت پر اصرار کرتے ہوئے بے حد خوبصورت ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔

امید ہے قارئین کو ہماری یہ پیش کش پسند آئے گی۔(ادارہ)

میں ان دنوں بانو مشتاق اور دیپک شرما کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی  کوئی کہانی انگریزی ترجمے کی مدد سے پڑھ لیتی ہوں، اور کبھی ہندی ادیبہ دیپک شرما کی کہانی ہندی میں۔ اس طرح ادل بدل کر، کوئی آٹھ آٹھ کہانیاں دونوں کی ابھی تک پڑھی ہیں۔ بانو مشتاق، بکر نام کی جادو کی چھڑی کے سبب، کنڑ علاقے سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اچانک ظہور پذیر ہوئی ہیں جبکہ دیپک شرما کو ہندی کی دنیا سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ہو سکتا ہے وہ ہندی کی بھی کچھ زیادہ معروف ادیبہ نہ ہوں۔

کہانی کو ہم آج جن معیاروں پر پرکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً انعام یافتہ کہانیوں کو، تو اس کسوٹی پر پرکھنے سے یہ تحریریں مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کر رہی ہیں، لیکن کیا کروں، یہ واپس شیلف میں جانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کچھ تو بات ہے کہ دونوں کا ذکر  ایک ساتھ کر رہی ہوں۔ کچھ تو  دونوں میں مشترک ہے جو ٹھہر کر، سنجیدگی سے غور کرنے پر اکسا رہا ہے!

اس ’کچھ‘ کا تعلق یقیناً افسانہ نگاری کے لوازم سے، فصاحتِ زبان و بیان سے، اسلوب اور تکنیک کے تجربوں وغیرہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان خوبیوں کو تلاش کرنے والا میرے اندر کا نام نہاد ’تربیت یافتہ قاری‘ مجھے بار بار کچوکے لگا رہا ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہے جس سے محظوظ ہوا جائے، رکھ دو بس۔

لیکن میرے اندر کی غیر تربیت یافتہ، غیر روایتی عورت مجھے سمجھا رہی ہےکہ ان عورتوں کی تحریریں کیا تم بھی نظرانداز کروگی؟ ان دانشور (مرد حضرات) کی طرح جو بنیادی سماجی رشتوں کو، ان کی پیچیدگیوں اور ان میں مضمر تشدد اور ناانصافیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے؟ ان نام نہاد دانشور نقادوں کی نقل میں جو ان پر بات کرنا، ان پر لکھنا، ان پر لکھے کو پڑھنا تک تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں؟

تو بس یہی بات ہے کہ یہ خواتین شیلف پر جانے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ سماجی رشتوں کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھ رہی ہیں، خواہ ان کے موضوعات گھسے پٹے ہی کیوں نہ کہلائیں۔ نادر قسم کی، اَن چھوئی، نئی اپج کی حامل، انسائیکلوپیڈک علمیت کی پریڈ کراتی، جادوئی حقیقت نگاری اور پوسٹ ٹُروتھ تجربوں کی حامل کہانیوں سے بے شک انھیں کوئی مَس نہ ہو (جس کی تلاش میں بانو مشتاق کو تجسس سے پڑھنا شروع کرنے والا قاری بری طرح مایوس ہوا ہے، یہ سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں سے مجھے اندازہ ہو چکا ہے)، لیکن کہانی کیا ہم محض اسی نئے پن اور تجربوں کی تلاش میں پڑھتے ہیں؟

اس طرح تو ہم پریم چند کو، اور منٹو کو بھی، جلد ہی ماضی کی کباڑ کوٹھری میں ڈال کر بھول جائیں گے۔

 لیکن لوگ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معاشرے کی ہر نئی پود میں تالستائی، دوستوئفسکی اور چیخوف سے لےکر شرت چند، ٹیگور، ویکوم محمد بشیر، پریم چند، عصمت، بیدی اور منٹو کو قاری ملتے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہ ادیب انسانی سماج، اس سماج میں موجود رشتوں کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کے نباض ہیں؛ اور جب تک انسان کی وہ سرشت باقی ہے (جو باقی رہے گی بھی) جس کی کہانیاں یہ ادیب بیان کرتے رہے ہیں، ان کو قارئین بھی ملتے رہیں گے۔

چنانچہ بانو مشتاق اور دیپک شرما جیسی ادیبوں کو بھی کیوں نہ پڑھا جائے جو بھلے ہی مذکورہ بالا عظیم مصنفین کی صف میں شامل نہیں، لیکن انہی کی طرح ایسے موضوعات پر لکھتی ہیں جو فرسودہ اور گھسے پٹے سہی لیکن مطلق الوجود اور قدیمی ہیں— سورج اور ہوا کی مانند، جو محض اپنی ہمہ گیر موجودگی سے اور بے طلب حاصل ہونے کے سبب کسی کی نظروں میں نہیں سماتے۔

لیکن ایک بات اور بھی ہے، جو غور طلب ہے۔ یہ خواتین رشتوں کی ان پیچیدگیوں کو، جو اپنی ہرجا اور ہمہ گیر موجودگی کے سبب نظروں میں نہیں سماتیں، کس زاویے یا کن زاویوں سے نمایاں کر رہی ہیں؟

اردو میں خواتین کی تحریروں پر اگر پیچھے مڑ کر نظر ڈالیں تو فکشن کی خاتونِ اوّل رشید النساء (’اصلاح النسا‘ 1883) سے لے کر محمدی بیگم، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور  قرۃ العین حیدر تک کی تحریروں کے مرکز میں آخر عورتیں ہی کیوں ہیں؟

کیا ان کے سوال، عورتوں کی ماہواری کی طرح،  خالص زنانے سوال ہیں جن پر مردوں کو سوچنے اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ صرف اصلاحِ نسواں اور آگے چل کر تانیثی، یعنی حقوقِ نسواں کے سوال اٹھا رہی ہیں؟

اگر ہمارے ادیب، نقاد اور قاری ایسا سمجھتے ہیں تو پھر اصل مسئلہ عورتوں کی تحریروں کے موضوعات کے خالص زنانہ ہونے کا نہیں بلکہ مردانہ کوتاہ نظری اور احمق پن کا ہے کہ انھیں ماہواری کے مسائل میں اپنی نسلوں کے مستقبل کا مسئلہ نظر نہیں آتا، حالانکہ قوتِ مردانگی بڑھانے والے اشتہاروں کی دیواروں، اخباروں اور دیگر ترسیلی ذرائع پر ہمہ وقت اور ہمہ گیر موجودگی میں پورے مرد معاشرے کی پدرشاہی نفسیات بھی خود کو مشتہر کرتی رہتی ہے اور اپنی نسلوں کی بقا کی تشویش بھی۔ پھر وہ عورتوں کی صحت (جسمانی، سماجی، نفسیاتی، تہذیبی) کے سوالوں سے بدکتے کیوں ہیں؟

کبھی غور کیا ہے کہ رشتوں کی بنیادی پیچیدگیوں، ان میں پوشیدہ بے انصافیوں اور تشدد نے، اس نفسیاتی اور ذہنی کرب نے جو عورتوں کی مجموعی اور عمومی ماتحتی سے پیدا ہوا ہے،  خود مردوں کی دنیا اور نفسیات میں کیا گل کھلائے ہیں؟ آخر ان سوالوں کو مخاطب کیے بغیر وہ ایک مثالی گھر اور بستی، مثالی سماج اور سماجی ادارے، سیاسی اور اقتصادی اداروں کو کیسے وجود میں لا سکتے ہیں جو اُن کے اجارے ہیں؟

عورتوں کی تحریروں یا ان کے موضوعات کو ناقابلِ اعتنا اور غیر معیاری گرداننے پر یاد آیا کہ جب دلت ادب منظرِ عام پر آنا شروع ہوا تھا، خاص طور سے آپ بیتیوں کی شکل میں، تو ہندی جگت میں طویل بحث چھڑی تھی (گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں)، اور ہندی کے کئی بڑے نقادوں نے ان تحریروں کو ادب کی صفوں سے خارج کیا تھا—اور ستم ظریفی یہ کہ اعلیٰ ذاتوں والے ادیبوں کے قائم کردہ ادبی معیاروں پر پرکھ کر خارج کیا تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ معیار دلتوں نے طے نہیں کیے تھے، انھوں نے تو ابھی لکھنا شروع ہی کیا تھا، اور ان کے ادب کی معیار بندی اور اصولِ نقد کی کوئی شکل ابھرنے میں ابھی وقت تھا۔ ایک مختلف معاشرت و تہذیب کے اصولوں پر انھیں پرکھنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی کرکٹ کے اصول ٹینس یا فٹ بال کے کھلاڑیوں پر تھوپے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کن بحث تھی جس کا اصل مقصد دلتوں کو اسی احساسِ کمتری اور احساسِ محکومیت میں مبتلا رکھنا تھا جس میں انھیں ہزاروں سال سے گرفتار رکھا گیا ہے۔

میرے خیال میں بالادست اور پدرسری معاشرہ یہی سلوک عورتوں کی تحریروں کے ساتھ بھی کرتا رہا ہے۔ اور کر رہا ہے۔


بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں کہ ان کی کہانیاں ’معمولی‘ ہیں، یا ان معمولی موضوعات اور واقعات پر مرکوز ہیں جو ہمارے ارد گرد ہمہ وقت موجود ہیں، بلکہ اتنے زیادہ موجود ہیں کہ قابلِ اعتنا نہیں ٹھہرتے۔

میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

کسی نقاد نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ محلے میں مسجد کے متولی کی مقتدر حیثیت، اس کے ذریعے شریعت کی عورت مخالف تعبیر، حقِ وراثت اور موروثی جائیداد میں عورت کے حصے کے مسائل کسی حاشیے کے نہیں بلکہ معاشرے کے مرکزی سوال ہیں جن پر بات کرنے کے بجائے بانو مشتاق کے معمولی افسانہ نگار ہونے پر بحث کی جا رہی ہے۔


Heart Lamp: Selected Stories
Penguin, 2025

اسی صورتِحال نے مجبور کیا کہ بانو مشتاق کی کچھ کہانیاں ضرور ترجمہ کروں، اس توقع کے ساتھ کہ انھیں پڑھ کر اردو کے قارئین بھی ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں گے جن کو وہ نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔

بے شک وہ کنڑ زبان میں کنڑ علاقے کی کہانیاں بیان کرتی ہیں لیکن ان کا اطلاق سارے برصغیر پر، اور خصوصاً برِ صغیر کے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں غورو فکر پر مجبور کریں گی، قدرے حساس اور عقلمند، اور نسبتاً بہتر انسان بننے پر مائل کریں گی۔

آخر میں واضح کرنا چاہوں گی کہ بانو مشتاق کو پڑھنے کی ضرورت میرے نزدیک ادبی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ وہ جن مسائل کو اٹھاتی ہیں، جن پر بولنا اور لکھنا ضروری سمجھتی ہیں وہ مسائل اہم ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی نمائندگی کرنے والے اردو اخبارات و رسائل ان مسائل پر کبھی کوئی فکر انگیز یا معمولی مضمون بھی نہیں چھاپتے۔

یعنی ایک بلیک ہول ہے جس میں مسلمانوں کے طرز معاشرت سے وابستہ ہر مسئلہ سماتا جاتا ہے اور اس کا وجود عنقا تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں بانو مشتاق کا دم غنیمت ہے کہ وہ بعض مسائل کو اہمیت دے رہی ہیں۔

اور آخری بات یہ، بلکہ پہلی بات یہیں سے شروع ہونی چاہیے تھی، کہ ترجمہ کا بُکر عموماً ناول پر دیا جاتا ہے، کسی افسانوی مجموعے کو پہلی بار دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سپاٹ بیانیے پر مبنی، ان عام سی کہانیوں کو آخر کیوں منتخب کیا گیا؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہم سرسری نگاہ میں بھانپ لیتے ہیں کہ انگریزی ترجمہ زبان کے اعتبار سے خاصا معمولی اور ناقص ہے۔ پھر وہ کون سے پیمانے رہے ہوں گے کہ کہانیوں کو بھی بہترین سمجھا گیا اور ترجمے کو بھی ۔

اس کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو کتابیں بکر انعام کے لیے فراہم ہوئیں سب غیر معیاری تھیں، جن میں سے بہترین کو چن لیا گیا۔ دوسری یہ ہو سکتی ہے کہ اچھی کہانیوں کے دن لد گئے اور عالمی ادب بحران کے دور میں ہے۔ دونوں ہی دلیلیں خود میرے لیے بھی بودی اور ناقابلِ قبول ہیں۔

تب سوال رہ جاتا ہے کہ بُکر کی کوئی ایسی پالیسی ہے جسے ہم جانتے تو نہیں لیکن اس پر قیاس آرائی ضرور کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات حتمی طور پر جانتے ہیں کہ بکر انعام صرف انگلینڈ یا آئرلینڈ سے شائع ہونے والی کتابوں پر ملتا ہے۔ چنانچہ ایک بات تو  طے ہو گئی کہ مسابقت میں شریک ہونے والے ادیب منصوبہ بندی کرکے وہاں سے کتاب شائع کرائیں انھیں میں سے کسی کو انعام ملے گا،  ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ مسابقت کا دائرہ عالمی نہیں رہ گیا، اور نام میں عالمی ہوتے ہوئے بھی یہ کسی طرح عالمی ایوارڈ نہیں ہے، البتہ عالمی سطح پر معتبر ضرور ہے۔

قیاس آرائی اس نکتے پر کی جا سکتی ہے کہ  اس کا ایک مقصد شاید کم معروف زبانوں اور خطّوں کے ادب کی حوصلہ افزائی کرنا، یا مخصوص فرقوں اور گروہوں کے طرزِ زندگی اور مسائل پر مبنی ادب کو روشنی میں لانا وغیرہ ہو۔

ایک  اور وجہ کتابوں کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قارئین کے نئے گروہوں کی تلاش بھی  ہو سکتی ہے۔ جس طرح ایک زمانے میں عالمی حسن کے مقابلوں میں ہندوستان کو لگاتار سبقت ملتی رہی (ظاہر ہے ان کا مقصد واضح طور پر فیشن پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے نئے  نئےعلاقوں تک پہنچنا ہوتا ہے)، اسی طرح انگریزی کتابوں کی عالمی صنعت میں ہندوستان  ایک بڑا بازار تصور کیا جاتا ہے۔

غالباً اسی لیے بہت کم عرصے میں دو دو بکر ہندوستان کے حصے میں آ گئے۔ یہ بات دوسری ہے کہ سوال گیتانجلی شری کے ناول ریت سمادھی کے معیار پر بھی اٹھے تھے اور بانو مشتاق کے تخلیقی جوہر پر بھی اٹھ رہے ہیں۔

♦♦♦

بہرحال، معیار کے تنازعات سے قطع نظر بانو مشتاق کی ایک کہانی ’رین فائر‘ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے جس کا موضوع بھی دلچسپ ہے اور اس میں تخلیقیت بھی ہے۔

اس کہانی میں موروثی جائیداد میں بہنوں کے حصہ کے سوال کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حصہ نہ دینے والا ایک متولی ہے، جس کو مرکزی کردار بنانا، ہماری معاشرتی تنگ نظری کے باعث، کم حوصلے کی بات نہیں۔

یاد کیجیے بدنامِ زمانہ خواتین رشید جہاں ’انگارے والی‘ اور عصمت چغتائی ’لحاف والی‘ کو، سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے ان افسانوں کو جن کے ناگفتنی موضوعات پر لکھے افسانوں کے سبب ’انگارے‘ پر پابندی لگی، نیز یاد کیجیے سلام بن رزاق کے افسانے (زندگی افسانہ نہیں) کو جس میں اپنے خاندان کی پرورش اور دیگر ذمہ داریوں سے پہلو بچاکر تبلیغی جماعت میں چلے جانے والا کردار تخلیق کرنے کی پاداش میں انھیں حقیقی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پبلشر، ’نیا ورق‘ کے مدیر ساجد رشید کو بھی۔

سوشل بائیکاٹ  بانو مشتاق کا بھی ہوا اور وہ بھی معتوبین کی لیگ میں شامل ہوئیں، جیسا کہ وہ خود اپنے کسی انٹرویو میں بتاتی ہیں۔ ایکٹوسٹ ہونا اور اپنی تحریروں سے بھی سماجی تبدیلی کا کام لینا، سمجھ میں نہ آنے والے تجریدی تجربوں کے طوطا مینا بنانے سے بہتر کام ہے۔ ان جیسے باحوصلہ اور باضمیر ادیب سماجی مسائل پر لکھتے رہیں، یہ بھی ایک کارِ خیر ہے تاکہ معاشرہ ان مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہو۔


انگار کا مینہ

(دیپا بھاستی کے انگریزی ترجمے فائر رین پر مبنی)

فجر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی، متولی عثمان صاحب اپنے بستر پر اٹھ بیٹھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کی بیوی عارفہ ان کے پہلو میں نہیں ہے،  وہ کمرے سے نکل کر ہال کمرے میں آئے اور دیکھا کہ وہ اور ان کا بیٹا انصار گہری نیند میں قالین پر پڑے ہیں۔ ایک سرسری نظر نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ تین سال کے بچے کی سانسیں ناہموار ہیں۔ اس کی پیشانی پر رکھی گیلی پٹّی، بکھرے برتن—دودھ کی بوتل، کپ،  چمچ، پانی کا جگ اور گرم پانی کا فلاسک — دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔

عارفہ یقیناً ساری رات جاگتی رہی تھی اور تھکن سے چور اپنے بستر پر نہیں، بلکہ اس ہال میں تھی اور اب بے خبر سوئی پڑی تھی۔ انھیں اپنے سینے میں احساسِ جرم کا خنجر اترتا محسوس ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے یاد آیا کہ ان کی چھوٹی بہن جمیلہ اور اس کا شوہر برابر والے کمرے میں سوئے ہوئے ہیں،  اور وہ بے چین ہو اٹھے۔ پہلے خیال آیا کہ عارفہ کو کمبل اڑھا دیں لیکن پھر جمیلہ کے شوہر کا خیال کر کے ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور بدن میں اینٹھن ہونے لگی۔ انہوں نے جھنجھوڑ کر عارفہ کو جگایا۔ وہ اپنی تھکن کے باعث گہری نیند سے فوراً بیدار نہیں ہوئی، جس سے متولی صاحب کا پارہ چڑھنے لگا۔

چھوٹا سا ایک گیت جو ایک فقیر گایا کرتا تھا، ان کے ذہن میں گونجنے لگا۔

ہاندی اینڈیکے ہیگلی یووے

مناڈَلّی ہاندی، مَنے یَلّی ہاندی

مائی یَلّی ہاندی ہوتتا وانےـــ

سور کا گوشت حرام ہے۔ اسی کی مانند غصہ بھی۔ متّقی مسلمان یہ مانتے ہیں کہ اگر سور پر نظر بھی پڑ جائے تو آدمی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اس گیت میں اس غصے کو، جو انسان کے قلب و قالب اور گھر میں سرایت کر جاتا ہے، سور کے مساوی بتایا گیا ہے۔ متولی نے بھی گیت کو بار ہا گنگنایا تھا۔ لیکن یہ وہ صبح تھی کہ ان کے نامعقول غصے کے آگے گیت بھی چمپت ہو گیا۔ اضطراب کے عالم میں انہوں نے ادھر ادھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور پھر اچانک گویا عرفان ہوا  ہو، انہوں نے عارفہ کی ٹانگوں پر زور سے ٹھوکر ماری۔ وہ معاً  اٹھ بیٹھی۔

’’تم اندر نہیں سو سکتیں‘‘، انہوں نے کرخت آواز میں کہا، اور جواب کا انتظار کیے بغیر باہر نکل گئے۔

مسجد ان کے گھر سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے، لمبے لمبے ڈگ بھر کر صبح کی دُھند کے  پردے کو چاک کرتے ہوئے۔ ان کا جسم گو کہ مسجد کی جانب بڑھ رہا تھا، تاہم ذہن مستقل پیچھے کی طرف، گھر کی جانب بھاگتا رہا۔

ان کی سب سے پیاری، سب سے چھوٹی بہن—وہ بہن جس کو انہوں نے سیکنڈری اسکول تک کرامت و شفقت سے پڑھایا تھا، وہ بہن جس کی شادی پر اب سے پانچ سال پہلے انہوں نے اٹھارہ  ریشمی ساڑیاں، سونے کا زیور،  اور اس کے شوہر کے لیے موٹر بائیک دی تھی — وہی بہن اب موروثی جائیداد میں حصہ مانگنے آئی تھی۔ اس کے اعزاز میں  بریانی اور سوئیوں کی خاص کھیر ’شاویگے پایَسا‘  تیار کرائی گئی تھی، جس میں اب تلخی آ گئی تھی۔ ’ہونہہ۔ یہ کس قسم کا رویّہ ہوا؟‘ ان کا بدن دوبارہ غصے سے سلگ اٹھا۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس نے جرح بھی شروع کر دی تھیں۔ ’’اَناّ! میرا اتنا ہی حصہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت نے مجھے حق عطا کیا ہے۔ میں اُس جائیداد میں سے حصہ نہیں مانگ رہی ہوں جو آپ نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔ ‘‘

وہ کون سی جائیداد ہے جو انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے؟ کیا وہ محض اسی جائیداد کا انتظام نہیں سنبھالے ہوئے تھے جو ان کے والد نے جمع کی تھی؟

’’ہمارے والد کی جائداد کے چھٹے حصے پر میرا حق ہے۔‘‘

اوفوہ!  اس نے پہلے ہی سارا حساب لگا رکھا ہے۔  وہ اس کے منہ پر تھپڑ جڑتے ہوئے کہنا چاہتے تھے،  ’یہ لو اپنا چھٹا حصہ!‘  لیکن انہوں نے سؤر کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی جو ان کے بدن میں سرایت کر چکا تھا اور اب عالمِ  اضطراب میں کود پھاند مچا رہا تھا۔ جمیلہ کا چھ فٹا شوہر بھی قریب ہی رکھی ایک کرسی پر گویا اس کا محافظ بنا بیٹھا تھا۔

’’آپ محلے بھر کے مسئلوں کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے بلاتے اور کہتے:  لو جمیلہ، اپنا حصہ لے لو۔ چلیے میری بات چھوڑیے، سکینہ اَکّا معاملہ ہی لیجیے۔ نہ تو ان کے شوہر زندہ ہیں اور نہ بچے ہی اتنے بڑے ہیں کہ کوئی کام دھندا کرسکیں ۔ وہ اپنی دو دو جوان بیٹیوں کی شادی کا انتظام کس طرح کریں گی؟‘‘

متولی صاحب بیٹھے فرش کو گھورتے  رہے۔  یہ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ جمیلہ یوں فرفر بولے جا رہی تھی ۔ اس کی خاموشی کی عادت کیا ہوئی؟ آم اور ناریل کے باغیچے، کھیت کھلیان اور وہ ساری جگہیں جہاں ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے،  اور شہر بھر میں بکھرے بے شمار مکانات— ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ان میں سے کچھ بھی کیا وہ اپنی بہنوں کو حصے کے طور پر دے سکتے تھے؟

جمیلہ مینڈک کی طرح سے ٹرّاتی رہی، ’’اَنّا،  ایک اچھے خاندان میں آپ نے میری شادی کی ہے،  میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ آپ نے ایسا نہیں کیا۔  لیکن مہربانی کر کے ذرا سوچیے، ابّا کے انتقال کو دس سال گزر چکے ہیں۔ اگر آپ نے مجھے تبھی میرا حصہ مجھے دے دیا ہوتا تو اب تک میں نے اس سے دس گنا  پیسہ کما لیا ہوتا جو آپ نے میری شادی پر خرچ کیا تھا۔ میں اب وہ سارا پیسہ تو آپ سے نہیں مانگ رہی ہوں نا۔ لیکن…‘‘

متولی صاحب کے صبر کا باندھ پھٹ پڑا۔  عارفہ دروازے کے سہارے کھڑی یہ ساری گفتگو بے چینی سے سن رہی تھی۔ اس کے خیال میں جمیلہ کے سارے الفاظ، اس کا لہجہ اور جرح کا انداز، سب کچھ بہت افسوسناک تھا، لیکن اس کا مطالبہ تو بالکل جائز تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اس کی دلیلوں کو کوئی نہیں کاٹ سکتا تھا۔

وہ گھر جس سے متولی کو چار ہزار روپے ماہانہ کرایہ ملتا تھا اور ساتھ میں ایک کافی کا باغ، کیا عارفہ کو اس کے والدین کی جانب  سے اس کے  حصے کے طور پر  نہیں ملے تھے؟ عارفہ کو اپنا حصہ بغیر مطالبے کے ملا تھا ۔ اس کے والدین نے اسے اور متولی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی،  انہیں عمدہ کھانا کھلایا ، ایک نئی ساڑی اور بلاؤز تحفے میں دیا، اور جو جائیداد اس کے نام منتقل کی تھی اس کی رجسٹری کے کاغذات ان کے حوالے کیے اور بہت شفقت سے انہیں رخصت کیا۔ لیکن یہاں جمیلہ کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑ رہا تھا۔

متولی صاحب کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، وہ گھُرگھُراتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور جمیلہ کو گھورتے رہے۔  اپنے بڑے بھائی کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ تھوڑی سی سہم گئی لیکن پھر اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا، تھوڑا سا حوصلہ بٹورا اور اس طرح جیسے جملہ رٹ کر آئی ہو، اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی؛ ’’اگر آپ مجھے میرا جائز حق نہیں دیں گے تو میں عدالت میں حاصل کروں گی۔‘‘

متولی صاحب سُنّ رہ گئے اور دَم سادھے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھے۔ ان کے قدموں کی مغضوب دھمک سے سہم کر عارفہ تیزی سے دروازے سے ہٹ گئی اور انہیں نکلنے کا راستہ دیا۔

کمرے میں وہ مورت بنے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی ٹوپی تک اتارنے کا خیال نہیں آیا۔ عارفہ نے آکر پنکھا چلا دیا۔

واقعے  کی ساری تفصیلات ان کے ذہن میں ایک ایک کرکے گزرنے لگیں۔  سردی کا موسم تھا  اور مسجد کے عقب میں غسل خانے میں پانی گرم ہو رہا تھا۔ عادت کی اٹکل کر انہوں نے غائب دماغی سے وضو کے مراحل طے کیے، اور نماز کے بھی۔ گو کہ انہوں نے اپنے اعضا کو دھو کر پاک صاف کر لیا تھا، لیکن کرب ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھا رہا۔ ایک تو جمیلہ کی ڈھٹائی  کچو کے لگا رہی تھی، اور دوسرے جائیداد میں حصہ دینے کا خیال کچوٹ رہا تھا۔ ان کی اصل تشویش یہ تھی کہ وہ اس ڈھٹائی پر اسے کس طرح سزا دیں اور ساتھ میں جائداد پر قبضہ بھی برقرار رکھیں۔

مسجد کشادہ تھی اور اس کا صحن وسیع و عریض۔ جو لوگ صبح کی نماز ادا کرنے آتے تھے وہ انھیں اپنی انگلیوں پر شمار کر سکتے تھے۔ اس وقت ان کے حلقہ احباب میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ مجبور ہو کر انہوں نے گھر کا رخ کیا۔

لیکن وہ سیدھے گھر نہیں گئے۔ جب تک وہ  دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قصبے کے گول چکر تک پہنچے، مدینہ ہوٹل کے  دروازے کھل چکے تھے۔ وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک کپ چائے پی۔ لیکن قرار نہیں آیا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور نہایت بے دلی سے چلتے ہوئے گول چکر کے بیچوں بیچ جا کھڑے ہوئے جہاں دراصل ٹریفک پولیس والے کو ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے سیٹی نہیں بجائی اور نہ ٹریفک کو راستہ دکھایا۔ وہ چاروں سمتوں میں کچھ یوں دیکھتے رہے جیسے فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ کون سے راستے پر چل پڑیں۔ ان کا حال قابلِ رحم تھا۔ اور تبھی وہ ناممکن الوقوع حادثہ وقوع پذیر ہو گیا۔

دھپّ!!! ایک آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ وہ دیکھتے کہ کیا ہوا ہے، ایک کوّا بجلی کے تار سے لڑھکا اور درخت سے ٹوٹے خشک پتے کی مانند سڑک پر آن گرا۔  متولی صاحب نے اس کو چند گز کے  فاصلے سے دیکھا اور چلنے کو ہوئے۔ تبھی ایک اور کوا جانے کہاں سے کائیں کائیں کرتا نمودار ہوا۔ اس کی آواز گونجی  تو مزید  کوے جمع ہونے لگے،  جیسے جادو سے ظاہر ہو رہے ہوں۔

انھوں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض کی کائیں کائیں درد آمیز تھی،  بعض میں جارحیت  تھی اور بعض میں غصہ۔ بعض میں تساہل تھا،  گویا فرض سے مجبور ہوکر کانکنا  پڑ رہا ہو۔  کچھ آوازیں ایسی تھیں گویا گہری سانس بھر کر لعنت بھیج رہی ہوں،  کچھ جشنِ آزادی کی تُرہی بجا رہی تھیں اور مسرت آمیز چیخوں کی مانند تھیں۔ متولی گویا ہر طرح کی چیخیں محسوس کرنے لگے اور انھوں نے وہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔  لیکن کوّے ان کے سر پر منڈلانے لگے، جیسے ان پر حملہ کرنے والے ہوں۔ کنفیوزڈ ہو کر انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ آنکھ کے گوشے سے انھوں نے بے حرکت کوّے پر نگاہ ڈالی۔  ارے!  نفوذ ناپذیر سیاہ رنگ میں دھنک کے اتنے سارے رنگ؟

جب تک وہ گھر پہنچے—اب تک اسی غائب دماغی کے ساتھ، اور اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے، متولی صاحب کو نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ عارفہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی، بیمار بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ  دوسرے بچوں کے لیے ناشتے اور لنچ کا اہتمام، ان کے بستے اور جوتے موزے وغیرہ۔ نیز جمیلہ اور اس کے شوہر کے لیے خصوصی کھانوں کا انتظام۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس گھر کی بیٹی کوستی پیٹتی، ناراض ہوکر مائیکے سے جائے۔اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد تھے : حقدار ترسے تو انگار کا نوہ برسے۔ یعنی اگر حقدار ناخوش ہوا تو انگاروں کا مینہ برسے گا۔

گزشتہ رات اس نے متولی صاحب سے دھیمی سرگوشیوں میں باتیں کی تھیں۔  ’’رائی (اجی)، گھر کی بیٹی کو کبھی تکلیف نہ دو۔ قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ لڑکی  بھی اپنے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیا؟ اپنی چاروں بہنوں کو بلالو اور ان کا جو حق بنتا ہے، دے کر اپنا دامن صاف کرلو۔ ہمارے پاس جو کچھ بچے گا اللہ اسی میں ہمیں برکت دے گا۔‘‘

عارفہ عموماً انھیں مشورے نہیں دیتی تھی۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی، پھر بھی اس موضوع پر اس نے اپنی بات کی۔ متولی صاحب نے سکیڑوں فیصلے کیے تھے۔ وہ انھیں ایسا کیا بتا رہی تھی جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے؟ وہ ایسی عورت کے الفاظ کیوں برداشت کریں جو برقعہ اوڑھتی ہے اور معمولی حیثیت رکھتی ہے۔

’’چپ رہو، اور اپنے کام سے کام رکھو،‘‘ انھوں پھٹکارا تھا ، اور بستر پر دراز ہو کر جلد ہی خراٹے لینے لگے تھے۔

عارفہ چپاتیاں بیل رہی تھی،  اور نہایت مضطرب تھی۔ ’’اے پروردگار، انھیں تھوڑی سی  سمجھ عطا کر،‘‘ اس نے دل ہی دل میں رو کر کہا۔  وہ ابھی ابھی انصار کی پیشانی پر گیلا تولیہ رکھ کر آئی تھی۔ وہ حالانکہ مشینی انداز میں آٹا  بیلتی اور توے پر روٹیاں  سینکتی رہی تاہم اسے احساس تھا کہ انصار تکلیف میں ہے، اور بار بار ہال کی طرف دوڑتی تھی جہاں اس نے انصار کو لٹا رکھا تھا۔

اسی دوران میں اس کی نظر اس عورت پر پڑی۔ اس نے حالانکہ برقعہ اوڑھ رکھا تھا اور اس کے چہرے پر نقاب تھی، تاہم عارفہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ برقعے کے سوراخوں میں سے ایک   گندی سی ساڑی جھانک رہی تھی جس کا رنگ کبھی سیاہ رہا ہوگا  لیکن اب فرسودہ  ہوکر بھوری ہو چکی تھی۔ ایڑیاں کٹی پھٹی، جلد کا رنگ اڑا ہوا، پیروں میں ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں جن کو سیفٹی پن لگا کر مرمت کی گئی تھی۔

عارفہ نے ایک ہی نظر میں اس کی حالتِ زار کو بھانپ لیا اور خود کو پریشان ہوتے محسوس کیا۔وہ عورت اندر نہیں آئی بلکہ برآمدے میں ہی رک گئی، ان لوگوں کے ساتھ جو متولی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس کو ایک گوشے میں یوں کھڑی دیکھ کر عارفہ نے اپنے حلق میں ایک گولا سا اٹکتا محسوس کیا۔ پردے کے پیچھے سے،  جو ہال کمرے کو برآمدے سے الگ کرتا تھا، اس نے اتنی اونچی آواز میں کہ عورت تک پہنچ جائے، سرگوشی کے انداز میں کہا، ’’سکینہ اَکّا، تم سے بِنتی کرتی ہوں، اندر آ جاؤ۔ باہر کیوں کھڑی ہو؟‘‘

عارفہ پردے کے پیچھے سے عورت کے تاثرات نہیں دیکھ سکی کہ اس نے سن لیا ہے یا نہیں۔ تاہم، اس کے پاس کھڑے لڑکے نے تقریباً بے رحم لہجے میں جواب دیا تھا،  ’’ہم ٹھیک ہیں مامی، آپ اپنا کام کیجے۔ ماما آئیں گے تو ہم ان سے بات کر کے چلے جائیں گے۔

سکینہ، اس کی سب سے بڑی نند، نہایت خوددار عورت تھی۔ جب وہ بیوہ ہوگئی تو اپنے تین بچوں کی پرورش اور گھریلو اخراجات اٹھانے کے لیے اس نے سلائی کا کام شروع  کر دیا تھا۔ اپنے مائیکے سے وہ پانی کی ایک بوند کی بھی روادار نہ تھی۔ وہ تیج تہوار کے موقعے پر  کبھی کبھار آتی اور اپنے بڑے بھائی کی دعا لیتی۔

لیکن اس دن وہ ایک اجنبی کی طرح دوسروں کے ساتھ قطار میں کھڑی تھی۔ عارفہ حیرت زدہ تھی کہ کیا وہ بھی جمیلہ کی طرح جائیداد میں حصہ مانگنے آئی ہے۔  لیکن اس نے جلد ہی  اپنے خیال کو جھٹک دیا  اور سکینہ کو دوبارہ اندر آنے کو کہا۔ اپنے شوہر کے باہر آنے سے پہلے سکینہ کو بلا کر کمرے میں بٹھانے کی اس کی یہ کوشش بے سود رہی۔

متولی صاحب اپنے بدن میں بھاری پن محسوس کر رہے تھے لیکن نیند ان کو اچھی آئی تھی۔ وہ عارفہ کو برآمدے میں کھڑے لوگوں کو جھانکتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے، کیونکہ وہ پہلے کبھی یوں تاک جھانک اور اشارے کرتے  نہیں دیکھی گئی تھی۔ نادانستہ ان کی آواز اونچی ہوگئی، ’’عارفا اااا؟‘‘

گھبرا  کر عارفہ نے پردہ گرا دیا اور بڑبڑائی، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہو، ’’سکینہ اکّا باہر  والوں کی طرح ، مردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ میں ان سے اندر آنے کو کہہ رہی تھی۔‘‘

’’کیا؟‘‘  متولی صاحب باہر نکلے توسکینہ اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر ان کا چہرا سرخ ہو گیا۔

سکینہ نے اپنی ہتھیلیاں آپس میں جوڑیں اور اجنبی لہجے میں اپنی درخواست گزاری؛’’بھائی صاب، مجھ جیسی بے سہارا بیوہ کی مدد کیجیے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو خوشیاں اور خوشحالی عطا فرمائے۔ میرا بیٹا  بی اے کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہے۔  ایک انجینئرنگ کالج میں اٹینڈر کی نوکری کے لیے اس کا انٹرویو ہے۔ سنا ہے آپ وہاں کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ میرے بیٹے کا نام سید ابرار ہے۔ مہربانی کرکے  اسے یہ نوکری دلوا دیجیے۔ یہ اس کی درخواست ہے، دیکھیے۔  اگر میرے بیٹے کو یہ نوکری مل گئی تو وہ ہمارے خاندان کا بڑا سہارا بن جائے گا، حالانکہ وہ مجھ جیسی بدنصیب عورت کے ہاں پیدا ہوا  ہے۔سب کہتے ہیں  کہ اگر آپ کہیں گے تو اسے کام پر ضرور رکھ لیا جائے گا۔ آپ غریبوں کی خوشی  غمی کے شریک ہیں۔ مجھ پر بھی مہربانی کیجیے۔‘‘  اس سے پہلے کہ متولی صاحب کچھ کہتے، اس نے نوکری کی درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی، ان کے پیر چھوئے  اور جلدی سے باہر نکل گئی۔

متولی صاحب کے دماغ میں کوّوں نے چیخنا شروع کر دیا ۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ سردی کے باوجود ان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلک اٹھیں۔ وہ ایک گدی دار کرسی پر ڈھہہ گئے۔ پردے کے پیچھے عارفہ کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔

دروازے کے پاس ایک نوجوان عورت اپنے بچے کو سینے سے چپکائے ہوئے کھڑی تھی۔ ساڑی کے پلّو کو اپنے سر پر درست کرتے ہوئے وہ ان  سے تھوڑے فاصلے  پر کھڑی ہو  گئی اور بولی، ’’انّا، اس بچے کے باپ کے پاس بیل گاڑی تھی۔ پندرہ دن پہلے اس کا آپریشن ہوا۔ آپریشنے کے لیے میں نے اس کی گاڑی اور دونوں بیل  بیچ دیے تھے۔ اب پتا چلا اسے ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے! ڈاکٹر نے یہی بتایا۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ آپ… آپ…‘‘  اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔

متولی صاحب نے اس سے ہسپتال اور ڈاکٹر کا نام، اور دیگر تفصیلات پوچھیں۔ پھر کہا کہ وہ اس کے شوہر کے آپریشن کا انتظام کریں گے اور اسے رخصت کر دیا۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، عورت اپنے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔

اب ایک اسکولی بچے نے اپنی نوٹ بک ان کی جانب بڑھا ئی۔ ہائر پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے اپنے مدوّر خط میں متولی صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس دن سہ پہر تین بجے اسکول ڈویلپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوکر شکریے کا موقع عطا فرمائیں۔ انھوں نے نوٹ  پر دستخط کرکے لڑکے کو رخصت کیا۔ اب وہ مسائل سننے کے لیے مردوں کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ طوفان کی طرح داؤد داخل ہوا۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

داؤد ان کا دایاں بازو تھا۔ وہ ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہو چکا تھا جتنا غیر ارادی سانس لینا ہوتا۔ یہ بات  کہ ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے، ان کی دوستی کا ثبوت کہی جا سکتی ہے۔ متولی صاحب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ، ان کی بھنووں کی حرکات کے طول و ارض، ان کی مونچھوں کی تھرتھراہٹ، ناک کی نہج اور دہانے کے گوشوں کی لکیروں سے وہ ان کے مزاج کا اندازہ لگانے میں مہارت حاصل کر چکا تھا۔ وہ اپنے الفاظ، اپنے سلوک، اور اپنی کمر کے  جھکاؤ میں ان کے مزاج کے مطابق تبدیلی کر لیتا۔ اس میں ایک چالاکی بھری بے شرمی تھی اور ساتھ ہی عزتِ نفس کا فقدان بھی۔ بہرحال…

وہ صبح کی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا۔’یہ حرامزادہ اب آیا ہے؟ حیران ہوں کہ اپنا وقت کہاں ضائع کر رہا تھا…‘ متولی نے سوچتے ہوئے دانت پیسے، لیکن پرسکون رہنے کا ڈراما کیا اور پوچھا،  ’’داؤد صاحب،  کہاں چلے گئے تھے؟ آپ کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں۔‘‘

داؤد ان کے سوال اور ان کے لہجے، دونوں کو سمجھ گیا۔ دھیرے سے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’السلام علیکم، متولی صاحب!‘‘  اور ظاہری شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔

بہت سے لوگ اب بھی ان سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔ لیکن انھیں داؤد سے ایک ضروری کام تھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر بینچ پر بیٹھے بےچین لوگوں کی طرف دیکھا اور اٹھنے کو ہوئے۔ بوڑھا صابجان جیسے ٹھوکر کھاتا ہوا آگے بڑھا اور موتیابند کے سبب دھندلی آنکھوں اور سفید بھنووں کے درمیان سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، ’’صاب، صاب… میری سب سے  چھوٹی بیٹی کی اگلے ہفتے شادی ہونے والی ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مہربانی کیجے صاب۔ اگر اس کی شادی ہو جائے تو میں سکون سے آنکھیں موند سکوں گا۔ مائی باپ! آپ میرے باپ سمان ہیں… آپ کو مجھ بوڑھے پر رحم کھانا ہوگا۔‘‘  کہتے ہوئے وہ متولی صاحب کے قدموں میں گرنے کو ہوا۔

’’آہا! تو تمھارے بہت سے بچے ہیں!  آخری بیٹی، بتایا نا تم نے؟ یعنی جب تم ساٹھ سال کے تھے تو کیا وہ تب پیدا ہوئی ؟ آخر کار، تمھیں ہوش آ رہا ہے۔‘‘ متولی کے دماغ کے ایک گوشے میں بیٹھا شیطان ہنس پڑا۔ ایک بڑی کشادہ جگہ کی تصویر ان کے تصور میں ابھری جس کے بیچوں بیچ ایک ڈھیتا ہوا مکان کھڑا تھا۔ وہ جب بھی اس قطعۂ زمین سے گزرتے تھے، اس پر ایک شاپنگ کمپلیکس بنانے کا تصور کرتے تھے۔

’’آپ کو مجھ سے کیا چاہیے، صابجان چِکپّا؟‘‘  کسی بھی قسم رحمدلی نہ دکھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

’’زیادہ کچھ نہیں…‘‘  پریشان حال صابجان نے ایک ثانیے کے لیے توقف کیا اور بات جاری رکھی۔ ’’اللہ کی رحمت ہو آپ پر… میں… میں… مجھے اس کی شادی کے لیے کوئی چالیس ہزار روپے درکار ہیں۔‘‘

متولی صاحب نے چونکنے کا مظاہرہ کیا ۔

’’چالیس ہزار روپے… کس واسطے…اتنا  پیسا کہاں سے لاؤگے؟‘‘

وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوے نظر آئے۔ داؤد آہستہ  سے کھانسا۔

’’انّاوری۔ ایک معاملہ ہے … سوچا  آپ کے علم میں لے آؤں …  اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو …  نہیں، جب خیال آتا ہے تو …   دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔  قانون، اخلاقیات، دھرم! کیا ان میں سے کچھ بچا بھی ہے؟‘‘

’’ہوں۔ کیا ہوا ہے، داؤد؟‘‘

’’کیا آپ اس مسئلے سے واقف نہیں ہیں؟  کیا واقعی؟‘‘

یہ دیکھ کر کہ کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا، داؤد نے بات جاری رکھی، ’’اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے، انّاوَرے… مسلمانوں کی کوئی توقیر باقی نہیں رہی…‘‘

اس کی تمہید طویل ہو رہی تھی۔

’’کیا سیدھے سیدھے بیان نہیں  کرسکتے کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘  متولی صاحب نے چِڑ کر پوچھا۔

’’اناوری، آپ عمر کو جانتے  ہیں نا… وہی جو گھوڑوں کی نعلیں بناتا ہے؟ اس کی دوسری بیٹی کی شادی نیلامنگلا میں کسی سے ہوئی ہے۔ ہے نا، لیکن لڑکے نے دوسری لڑکی سے شادی کر رکھی تھی۔ آپ کو یاد ہے؟ بہرحال پہلی لڑکی کا بڑا بھائی-‘‘

’’وہ کون  لعنتی ہے؟‘‘  متولی صاحب سے بڑھتے ہوئے غصے کے ساتھ  پوچھا۔ ان میں رشتوں کے جال کو سلجھنانے کا صبر نہیں تھا۔

’’اس کا نام نثار ہے۔  پینٹر ہے۔ وہی جس نے کہا تھا کہ مسجد کا رنگ روغن کرے گا اور دو سو روپے لے کر بھاگ گیا تھا۔ یاد ہے، پچھلے رمضان میں؟‘‘

’’اوہ، ہاں، ہاں۔ سمجھ گیا۔‘‘

اب متولی صاحب کو سب کچھ یاد آگیا۔ انھیں یاد آگیا کہ مسجد کے پیسے ڈکار جانے کے جرم میں پینٹر کو ایک درخت سے باندھ کر پیٹا بھی گیا تھا۔

’’وہ تالاب میں گر کر مر گیا تھا۔  کوئی ڈیڑھ مہینے پہلے اس کی لاش ملی۔ پولیس والوں نے اسے باہر نکالا۔‘‘

’’ہمم۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ ہونا  کیا تھا۔ سب کچھ برباد ہوگیا۔ پولیس نے نثار کی لاش قبضے میں لے کر ہندو قبرستان میں دفنا دی۔‘‘

داؤد نے خبر کو آہستہ آہستہ،  بتدریج ظاہر کیا تھا، پھر  بھی ایسا لگا گویا کسی نے گولی داغ دی ہو۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی ایسا سنا گیا؟ ایک لمحے کو متولی صاحب کو لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن  رک گئی ہو۔ ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں اور وہ پسینے سے عرق آلود ہو گئی۔ ہر شخص بھول گیا  کہ وہ کس مقصد سے یہاں آیا تھا، یہاں تک کہ صابجان بھی۔ اگر چہ بیٹی کی شادی کا معاملہ اس کے دل میں چبھے جا رہا تھا لیکن اس نے ذکر نہیں کیا۔ اس خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ بات تصور سے بعید تھی کہ کسی مسلمان کی لاش بلاکفن ، بلا غسل ، حتیٰ کہ نمازِ جنازہ کے بغیر، قبرستان کے بجاے شمسان میں بلا رسوم دفن کر دی جائے!  متولی صاحب کے ذہن میں ایک سوال کوندا، ’’لیکن، داؤد، کیا نثار کا ختنہ نہیں ہوا تھا؟‘‘

داؤد کے پاس اس تکنیکی سوال کا جواب نہیں تھا۔

’’چھی، چھی… کیا آخری رسوم نہیں ہونی چاہییں تھیں؟ لیکن پولیس یہ سب  کیوں سوچتی؟  وہ تو بس اتنا چاہتے ہوں گے کہ جلدی سے دفنائیں اور  چھٹی پائیں۔ معاملہ ختم۔‘‘

لیکن سوالات اور بھی تھے—تجسس کو ہوا دینے والے۔ ’’انہیں کیسے پتہ چلا کہ لاش نثار کی ہی ہے؟‘‘

’’لاپتہ ہونے کے کئی دن بعد اس کی بیوی شکایت درج کرانے پولیس کے پاس گئی تھی۔ پولیس نے اسے وہ کپڑے دکھائے جو نامعلوم لاش کے بدن پر ملے تھے، اور اس کی بیوی نے پہچان لیے۔ پھر انہوں نے لاش کی تصویر دکھائی۔ بدن پھولا ہوا تھا مگر نثار کا تھا۔ یا…‘‘

’’یا  پھر پولیس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہوگا، جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں! چاہیے تھا کہ وہ مسجد میں آتے اور ہمیں بتاتے کہ ہمارے کسی آدمی کی لاش ملی ہے۔  ہم اسے فوراً یہاں لا کر مناسب طریقے سے دفنا دیتے۔‘‘

داؤد نےمشکوک انداز میں کہنا شروع کیا، ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، مصیبت کی جڑ شنکر ہے۔ اسی نے پولیس کو اطلاع دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ لاش ہندو قبرستان میں دفن کی جائے۔‘‘

 وہاں موجود ہر شخص شدید صدمے میں  تھا۔ ’’چھی! کیسا خوفناک زمانہ ہے۔ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں لوگ قبرستان تک میت کو کندھا دینے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن اس غریب کو دیکھو ! بیچارے کے لیے مناسب کفن دفن تک کا اہتمام نہیں ہو سکا۔‘‘

سال میں دو بار، رمضان عید اور بقرعید کی نماز کے علاوہ نثار نے کبھی نماز نہیں پڑھی، مسجد میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ سینکڑوں لوگوں سے ان کے گھروں کے رنگ روغن کے لیے ایڈوانس لے کر  غائب ہو جاتا تھا اور انھیں دھوکا دیتا تھا۔ وہ پیسا ڈکار کر بھی دندناتا پھرتا تھا۔ ایک بار تو وہ مسجد کے رنگ روغن کے لیے  جماعت سے بھی پیسہ لے گیا اور ہضم کر گیا۔ اب اس کی مناسب تدفین کرنا انھی لوگوں کو مقدس ترین فریضہ لگ رہا تھا جنھیں وہ دھوکا دیا کرتا تھا۔ اس کی لاش کو شہید کا درجہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ لگ رہا تھا کہ نثار کے جسدِ خاکی کی تدفین کے لیے مناسب رسومات کو یقینی بنانے سے ہی متولی کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اذیت میں مبتلا ہونے کا انداز اختیار کرتے ہوئے نوحہ خواں ہوا، ’’کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہر ایک کو اپنے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘

وہاں جمع سارے لوگ ، جن میں داؤد بھی شامل تھا، جوں جوں اس سانحے پر غور  کرتے، مزید پریشان ہوتے جاتے تھے۔

’’توبہ، توبہ۔‘‘ صابجان نے اپنے گال پیٹے، ’’موت ہر ایک کی طے ہے، لیکن ایسی بھیانک موت کسی کو نہ ملے۔ نہ کلمہ،  نہ درود ، نہ سلام۔ کل کو ہماری میتیں بھی کوئی جہاں چاہے دفنا دے گا۔ جہاں چاہیں گے، ہماری لاشیں پھینک دیں گے۔‘‘

داؤد نے لقمہ دینے کا موقع نہیں گنوایا۔’’متولی صاحب،  وہ تو بھلا ہوا کہ آپ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں، اسی لیے ہم ابھی تک انسان ہیں- وہ  کبھی بھی کورٹ چلے جاتے ہیں، قرآن سے متعلق کوئی معاملہ لے کر۔ اب اس عورت، شاہ بانو کے مقدمے کو ہی لے لیجیے۔ اسے اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا اور بار بار ہماری توہین کی۔ اور اب مسلم لاشیں اٹھا کر ہندو قبرستانوں میں دفن کر رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی؟‘‘

داؤد اب اسے ایک سنگین مسئلے  کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ سب اضطراب میں تھے، حتیٰ کہ متولی بھی۔ وہ کبھی اپنی داڑھی نوچتے، کبھی ناک میں انگلی گھساتے، اور کبھی گہری سوچ میں غرق نظر آتے۔ پھر اچانک جیسے ہوش میں آئے اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ چہرے پر شکنیں ڈالتے ہوئے، جیسے نہایت اداس ہوں، انھوں نے اپنی آنکھیں ذرا سی کھولیں اور کھنکھارکر گلا صاف کیا۔

معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ عارفہ بھی بچوں کو سکول کی تیاری کرانے کے بجائے پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔  جمیلہ جو ذرا دیر سے بیدار ہوئی تھی، پردے کے پیچھے اپنی بھابھی سے آن ملی اور سرگوشی میں باتیں کرتے ہوئے سارا معاملہ سنا۔ خواتین کے دل دھڑ دھڑ دھڑک رہے تھے۔

’’یا اللہ! چاہے جو بھی ہو،  اس غریب بیچارے کی روح کو سکون ملے ۔ اسے وہ سب رسومات نصیب ہوں جن کی  ایک مسلمان لاش حقدار ہوتی ہے۔ اور قبرستان میں اسے تین گز زمین مل جائے۔‘‘

جمیلہ کے شوہر کو خبر ملی تو وہ  بھی باہر آکر دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہر شخص جوش میں تھا، پریشان تھا۔ اسلام کو بچانے کی خاطر مقدس جنگ کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر متولی نے بولنا شروع کیا: ’’اب ہمیں اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کرنی ہوں گی کہ  نثار کے جسدِ خاکی کو وہاں سے نکال کر یہاں دفن کیا جائے۔ ہمیں ہر طرح کی رکاوٹ کا، کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سمجھ گئے؟‘‘

پھر وہ داؤد سے مخاطب ہوئے، ’’اور داؤد، تم ہماری یوتھ کمیٹی کو بھی اس کی خبر کردو۔جب وہ آ جائیں تو ہم  ساتھ چل کر ضلع کمشنر اور  پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملیں گے۔ اس کام کو آج ہی شروع کر دیں تو اچھا ہو۔‘‘ پھر انھوں نے جلدی سے اضافہ کیا: ’’ان سے  یہ بھی کہنا کہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔ فی الحال جماعت کے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن انھیں بتانا  کہ جو بھی اخراجات ہوں گے، میں خود ادا کروں گا۔‘‘

وہ جانتے  تھے کہ خرچ ہونے والی رقم اس مہم کی وجہ سے ملنے والی مقبولیت اور حمایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی تھا کہ متوّلی کی حیثیت کے مدنظر ایسی باتیں کہنا عین مناسب تھا۔ پیسہ آخر جائے گا کہاں ؟ اپنے تجربے سے انھیں معلوم تھا کہ اس طرح کے کاموں کے لیے رقم عطیہ کرنے کے لیے لوگ سر کے بل آتے ہیں۔ یوتھ کمیٹی کا اعتبار  دوبارہ حاصل کرنے کا یہ انھیں ایک بہترین موقع بھی لگا،  کیونکہ کمیٹی  پہلے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا  کر ان سے فاصلہ بنا چکی تھی۔

سب کچھ متولی کی توقعات کے عین مطابق ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر سے قدم باہر نکالیں، جمیلہ کے شوہر نے جیب سے ڈھائی سو روپے نکالے اور متولی کے سامنے میز پر رکھ دیے۔  ’’بھیا، اگر آپ انھیں اپنے کام کے لیے استعمال کریں گے، تو اس نیکی کا اجر مجھے بھی ملے گا۔ اللہ آپ کو اور آپ جیسے لوگوں کو مزید قوت، صحت اور مال و دولت سے نوازے۔‘‘  اس نے صدق دلی سے کہا۔ وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جب ایک عظیم ذمہ داری سامنے ہے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کی بیوی جائیداد میں حصہ مانگے ۔

پردے کے پیچھے  کھڑی جمیلہ نے اپنے شوہر  کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور سکون کا گہرا سانس لیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے جائیداد میں حصہ صرف اس لیے مانگا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے مجبور کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ خود ایسا چاہتی تھی۔ جیسا کہ کہاوت ہے، ’لاٹھی کا وار اگر خالی جائے، تو جیون ہزار برس بڑھے۔‘  وہ خوش تھی کہ وہ اس معاملے کو یہیں چھوڑا جا سکتا ہے، کم از کم فی الحال۔

عارفہ اپنے شوہر پر بہت فخر محسوس کر رہی تھی۔ اس فکر میں  غلطاں کہ شاید  ناشتہ کیے بغیر ہی انھیں یہ ہمالہ جیسا بڑا کام کرنے نہ نکلنا پڑے، وہ ان کے لیے پھولوں جیسے ہلکے پھلکے پراٹھے بنانے چل دی۔ متولی نے اپنی بہن اور اس کے شوہر کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھا اور خود ہی مسکرائے، لیکن اپنی خوشی ظاہر نہیں ہونے دی بلکہ  چہرے پر سنجیدگی طاری کیے گھر میں چلے گئے، جیسے گہری سوچ میں غرق ہوں۔

کئی نوجوانوں کو ساتھ لے کر وہ سب سے پہلے ضلع کمشنر سے ملے۔ ایسا کرنا ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ ضلع کمشنر ایک نوجوان بنگالی برہمن تھا جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ وہ ضلع کے مختلف فرقوں کے باہمی رشتوں کے الجھیڑوں  اور جذباتی آویزشوں سے واقف تھا جو کبھی کبھار سر ابھارتی رہتی ہیں۔ اس نے متولی کی دی ہوئی درخواست پڑھی اور صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی اور وقار طاری کیے بیٹھا رہا۔ اس نے متولی کی پرجوش جذباتی تقریر سنی اور مسئلے کو سلجھانے کے لیے ان سے اردو میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’اور کیا کچھ نیا ہو رہا ہے متولی صاحب؟ آپ اپنے علاقے میں نیا بورویل لگوانے یا اسکول کی عمارت کی مرمت یا اس طرح کے کسی اور کام کے لیے مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے!‘‘

متولی نے بیچ میں ہی قطع کلام کیا۔ ’’میں کاموں کی فہرست بناؤں گا اور اگلی بار ملنےآؤں گا، سوامی؛ فی الحال تو، اگر آپ صرف ایک حکم نامہ جاری کر سکیں، تو مہربانی ہوگی۔

’’مگر پھر بھی متولی صاحب، مٹی تو ہر جگہ ایک سی ہے نا؟ مٹی مٹی میں کیا فرق کرنا؟‘‘ اس نے لاپروائی سے پوچھا۔

متولی کے پاس کئی غیر متعلق جوابات تھے۔ بات کو مزید طول نہ دے کر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر کو ذمہ داری کا حکم نامہ جاری کردیا۔

پندرہ دن گزر گئے۔ متولی صاحب بالکل نہیں تھکتے تھے، اس وقت بھی نہیں جب انہیں ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں چکر لگانے پڑتے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے لوگوں کے لیے کوفی اور سنیکس خریدنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔

وہ اس سے قدرے مایوس تھے کہ اس بدمعاش شنکر کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت نہیں لگتی تھی، تاہم پولیس اور اہلکاروں نے جو تاخیر کر رکھی تھی وہی کم نہ تھی۔

متولی سارا دن مختلف دفتروں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس کے بعد رات گئے تک یا تو مسجد کے صحن میں، یا مدینہ ہوٹل کے بڑے ہال میں، یا ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر غوروفکر کیا جاتا۔ وہ بیان کرتے کہ وہ کتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ منصوبے بناتے کہ کس طرح اور کب، کن افسروں کے پر کترے جائیں۔ وہ بتاتے کہ کن کن حلقوں سے اسلام کو کتنا خطرہ لاحق ہے، اور نوجوانوں کو سمجھاتے کہ ان مسائل کو کس طرح مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھیں قطعی پتا نہ چلا کہ یہ سب کرتے کرتے پندرہ دن کتنی عجلت میں گزر گئے۔ ساری جماعت نثار کی لاش اور متولی صاحب کی کوششوں کے سوا کسی موضوع پر گفتگو نہیں کر رہی تھی۔ عورتیں چادریں اوڑھ کر نماز ادا کرتیں، اور نثار کی لاش کے لیے تہہِ دل سے دعائیں مانگتیں کہ اسے مسلم قبرستان میں دفن ہونا نصیب ہو، اور اس کی روح کو ابدی سکون ملے۔

اس کارِ خیر کے لیے کافی رقم بھی جمع ہو گئی تھی۔

بالآخرکار نثار کی لاش قبر کھود کر نکال لی گئی۔ متولی اور ان کے حواریوں نے بوسیدہ، مسخ شدہ لاش کو بالکل نئے، کلف دار لٹھے کے کفن میں لپیٹ دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ لاش اتنی مسخ تھی کہ غسل نہیں دیا جا سکتا تھا، چنانچہ اس پر مقدس آبِ زم زم چھڑکا گیا۔ لوگوں لگ رہا تھا کہ سڑاندھ کے مارے قے ہو جائے گی، لیکن کسی نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پولیس والوں نے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیے۔ آخر کار نثار کا جنازہ متولی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور جلوس مسلم قبرستان کی سمت روانہ ہوا۔ میّت پر ڈھیروں عطر چھڑکا  گیا اور کفن کے اوپر چمیلی کی کلیوں سے بنی چادر ڈال دی گئی تھی تاکہ سڑتے ہوئے گوشت کی بو چھپ سکے۔ لیکن چمیلی کی کوئی کلی کھلی نہیں۔ ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروس/ چند پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے۔

جنازے کے جلوس کو کافی طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن لوگ بھی خاصی تعداد میں جمع تھے۔ تابوت کسی کے کندھے پر ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا رہا۔ جلوس شہر میں سے گزرا اور قبرستان کی طرف بڑھا۔ قبرستان اب سامنے ہی تھا، شہر کے سرے پر۔ شاید مزید دس قدم باقی تھے۔ تبھی ایک آدمی لڑکھڑاتا ہوا نمودار ہوا جو چیخ چیخ اونچی آواز میں، بیہودگی سے گالیاں بک رہا تھا، گویا صورتِ حال کی ساری سنگینی اور اداسی کو چکناچور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ متولی نے جس لمحے اس شخص کو دیکھا، کہ اس وقت انھوں نے ہی جنازے کو کندھا دے رکھا تھا، تو دنگ رہ گئے۔ ان کا رنگ کسی مردے کی مانند زرد ہو گیا۔ جلوس میں شامل کئی دوسرے لوگوں کا بھی یہی حال ہوا۔ ان کے قدم وہیں تھم گئے۔ سب کے حلق خشک ہو گئے۔ اس آدمی نے زور سے کچھ اور مغلظات برسائیں، اور لڑکھڑاتا ہوا ایک چھوٹی سی گلی میں داخل ہو گیا۔

سب سے پہلے ہوش میں آنے والے متولی ہی تھے۔ انھوں نے پولیس کے اہلکاروں کی طرف دیکھا، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جلوس کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوئی ناخوشگوار بات واقع  نہ ہو، اور فی الفور محتاط ہوگئے۔ جلوس کو رکتے دیکھ کر ایک پولیس والا شرابی کو دھمکانے کے لیے لاٹھی اٹھائے آگے بڑھا۔ متولی نے آہستہ سے قدم آگے بڑھایا۔ جماعت نے پیروی کی۔ متولی صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کوئی آگے بڑھا اور سرہانے کی جانب سے تابوت کو اپنے کندھے پر لے لیا۔ متولی صاحب نے اپنا رومال نکالا اور چہرے سے ٹپکتا پسینہ صاف کیا۔ انھوں نے داؤد کو گھور کر دیکھا جس نے سر جھکا کر نظریں نیچی کر لیں۔ بہت سے لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کر رہے تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، بلکہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے قبرستان میں داخل ہو گئے۔

پولیس کے اہلکار باہر کھڑے رہے اور لاش کو مسلم قبرستان میں دفنایا جانے لگا۔ متولی کے سر کے نسیں پھٹنے کو آمادہ تھیں۔ آخر وہ کس کی لاش تھی جسے وہ دفنا رہے تھے؟

انھیں قطعی شک نہیں تھا کہ وہ شرابی نثار پینٹر ہی تھا۔ انھیں داؤد اور پینٹر کی بیوی پر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ بس چلتا تو ان کا قیمہ کر دیتے۔ لیکن راحت کی بات یہ تھی کہ جماعت کے بہت سے لوگ اگرچہ نثار کو پہچان گئے تھے لیکن کسی نے بھی پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ سب نے ان کی عزت بچالی تھی۔ لیکن یہ سکون لمحہ بھر میں ہوا ہو گیا۔ کائیں کائیں کا نوحہ کرتے ہزاروں کوّے ان کا دماغ نوچنے لگے۔ کیا یہ  ہندو کی لاش تھی؟ یا مسلمان کی؟ لاش اتنی بوسیدہ تھی کہ پہچانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے یہاں مٹی میں ملنا چاہیے، یا وہاں؟

لوگ جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ تدفین کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کی طرف بھاگے۔ وہ بالکل تنہا تھے، لیکن کوے ساتھ تھے، جو چیخ چیخ کر ٹھونگیں مارتے انھیں مار ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تھکن سے چور وہ گھر میں داخل ہوئے اور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک جب عارفہ نظر نہ آئی تو انھوں نے بے چینی سے آواز دی، ’’عارفہ! ایک گلاس پانی تو لا دو۔‘‘

عارفہ کے بجاے انھوں نے اپنی بیٹی کو باہر آتے دیکھا اور پوچھا، ’’آج اسکول نہیں گئیں؟‘‘

’’اماں گھر پر نہیں ہیں، نا۔ اسی لیے میں گھر پر رک گئی تھی۔‘‘

’’گھر پر نہیں ہے؟ کہاں چلی گئی؟‘‘

لڑکی نے آنکھوں پر سے، جو روتے روتے سرخ ہو چکی تھیں، اپنی جھکی ہوئی پلکیں اٹھاتے ہوئے جواب دیا، ’’انصار بہت بیمار ہے نا، اپّا! اماں ہسپتال میں اسی کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’ہیں؟ کیا کہہ رہی ہو؟ کون بیمار ہے؟ کب سے؟ کیا بیماری ہے؟‘‘

سوالوں کی بوچھار پر جواب میں لڑکی کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے ٹپکنے لگے۔

’’انصار کو پندرہ بیس دن سے تیز بخار تھا نا؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا دماغ کی کوئی بیماری ہے۔ بیماری کا نام شاید میننجائٹس ہے۔ گردن توڑ بخار۔‘‘ وہ بے قابو ہو کر رونے لگی۔

پانی کا گلاس پھسل کر متولی صاحب کے  ہاتھ سے گر پڑا۔

آوازیں پھر سے ان کے کانوں میں دھیرے دھیرے سر ابھارنے لگیں۔ انّا، میرے حصے کی جائیداد… انّا، مہربانی کر کے اس غریب بیوہ کی مدد کیجے…  مائی باپ، میری بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ دیجیے… حقدار ترسے تو انگار کا مینہہ برسے… آگ کی بارش، کوے… سیاہ، سرمئی … اور ان سے جھانکتے دھنک کے رنگ…

(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)