اے بی وی پی کے اعتراض کے بعد تمل ناڈو کی یونیورسٹی نے نصاب سے ارندھتی رائے کی کتاب ہٹائی

ایم سندرنر یونیورسٹی کے وی سی نے بتایا کہ انہیں اے بی وی پی سے شکایت ملی تھی کہ بی اے کے نصاب میں شامل بکر ایوارڈیافتہ ارندھتی رائے کی کتاب ‘واکنگ ود دی کامریڈس’ میں مصنفہ کے ماؤنوازعلاقوں میں جانے کو لےکر متنازعہ مواد ہے، جس کے بعد اس کونصاب سے ہٹا دیا گیا۔

ایم سندرنر یونیورسٹی کے وی سی نے بتایا کہ انہیں اے بی وی پی سے شکایت ملی تھی کہ بی اے کے نصاب میں شامل بکر ایوارڈیافتہ ارندھتی رائے کی کتاب ‘واکنگ ود دی  کامریڈس’ میں مصنفہ  کے ماؤنوازعلاقوں میں جانے کو لےکر متنازعہ مواد ہے، جس کے بعد اس کونصاب سے ہٹا دیا گیا۔

ارندھتی رائے ، فوٹو: پی ٹی آئی

ارندھتی رائے ، فوٹو: پی ٹی آئی

منونمنیم سندرنر یونیورسٹی نے آر ایس ایس کی اسٹوڈنٹ ونگ  اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی)کے اعتراض کے بعد بکرایوارڈ یافتہ مصنفہ ارندھتی رائے کی کتاب کو ان کے نصاب سے ہٹانے کافیصلہ کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً ایک دہائی  پہلے لکھی گئی ارندھتی کی کتاب ‘واکنگ ود دی  کامریڈس’ سال 2017 سے کامن ویلتھ لٹریچر کے زمرے میں بی اے انگلش (لینگویج اینڈ لٹریچر)کے تیسرے سیمسٹر کے نصاب کا حصہ ہے۔

اس کتاب میں وسطی ہندوستان کے جنگلوں میں حکومت ہند اور ہتھیاربندانقلابی گوریلاتنظیموں اور ماؤنوازوں کے تصادم کے بارے میں بتایا گیا ہے۔رپورٹس کی تصدیق  کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وی سی کےپیچومنی نے بتایا کہ پچھلے ہفتے اے بی وی پی سے شکایت ملنے کے بعد انہوں نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ کتاب میں مصنفہ  کے ماؤنواز علاقوں میں جانے کو لےکرمتنازعہ مواددرج ہے۔

پیچومنی نے کہا، ‘اکادمک ڈین اور بورڈ آف اسٹڈیز کے ممبروں  والی کمیٹی نے شکایت کانوٹس لیتے ہوئے اس کتاب کو ہٹانے کا فیصلہ کیا کیونکہ طلبا کو کوئی متنازعہ  کتاب پڑھانا مناسب نہیں ہوگا۔ ہم نے اس کی جگہ ایم کرشنن کی مائے نیٹو لینڈ: ایسیز آن نیچر کو شامل کیا ہے۔

غورطلب ہے کہ اس سے پہلے جولائی مہینے میں کیرل کے ایک بی جے پی رہنما نے کالی کٹ یونیورسٹی  کے نصاب سے ارندھتی رائے کی تقریر ہٹانے کی مانگ کی تھی۔ارندھتی رائےکے ذریعے سال 2002 میں کی  گئی ‘کم ستمبر’ [Come September] تقریر کالی کٹ یونیورسٹی  کے بی اے انگریزی کے نصاب میں شامل ہے۔

گورنر عارف محمد خان کو لکھے گئے خط میں بی جے پی کے ریاستی صدرکےسریندرن نے کہا تھا کہ رائے کی ‘ملک مخالف’ تقریر میں ملک  کی سالمیت اور خودمختاریت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

Next Article

ٹرمپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں بنے آئی فون، ٹم کک سے کہا کہ وہ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان  میں ایپل کا مینوفیکچرنگ یونٹ کھولنے سے منع کیا ہے۔ ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون ہندوستان میں تیار کرے گا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

نئی دہلی: مشرق وسطیٰ کے تین ممالک کے دورے پر گئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ کھولنے سے منع کیا ہے، جب تک کہ وہ ‘ہندوستان کا خیال نہیں رکھنا چاہتے’۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے امریکہ کو ‘بغیر کسی ٹیرف’ کے ایک ‘ڈیل’ کی پیشکش کی ہے۔

قطر کے دوحہ میں ایک کاروباری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ، ‘مجھے کل ٹم کک کے ساتھ تھوڑی پریشانی ہوئی۔ میں نے اس سے کہا، ‘ٹم، تم میرے دوست ہو۔ میں نے تمہارےساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ تم  500 بلین امریکی ڈالر لے کر آ رہے ہو، لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تم پورے ہندوستان میں مینوفیکچرنگ  کر رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرو۔ اگر تم  ہندوستان کا خیال رکھنا چاہتے ہو توتم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرسکتے ہیں، کیونکہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں فروخت کرنا بہت مشکل ہے۔’

ٹرمپ کا یہ تبصرہ ہندوستان اور امریکہ کے تجارتی تعلقات میں سرد لہر کے درمیان آیا ہے، جو باہمی محصولات کے اعلان کے بعد سے واضح ہو گیا ہے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ واشنگٹن کے وسیع تجارتی تعلقات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘انہوں نے ہمیں ایک معاہدے کی پیشکش کی ہے جہاں وہ بنیادی طور پر تیار ہیں- سچ مچ  – وہ ہم سے کوئی ٹیرف نہیں لیں گے۔ ہم سب سےاونچے ٹیرف سے آگے بڑحتے ہیں – تم ہندوستان  میں کاروبار نہیں کر سکتے، ہم ہندوستان میں ٹاپ 30 میں بھی نہیں ہیں کیونکہ ٹیرف بہت زیادہ ہیں – ایک ایسے پوائنٹ پر جہاں انہوں نے حقیقت میں ہم سے کہاہے (میرے خیال میں آپ بھی، اسکاٹ، آپ بھی اس پر کام کر رہے تھے) کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔ کیا آپ کہیں گے کہ یہی فرق ہے؟ وہ سب سے اونچے تھے، اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘لیکن میں نے ٹم سے کہا، ‘ٹم، دیکھو، ہم نے تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ہم نے چین میں تمہارے بنائے ہوئے تمام پلانٹ کو برسوں تک برداشت کیا ہے۔تمہیں یہاں مینوفیکچرنگ کرنا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تم ہندوستان میں مینوفیکچر کرو۔ہندوستان اپنا خیال رکھ سکتا ہے، وہ بہت اچھا کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم یہاں مینوفیکچرنگ کرو۔’

دریں اثنا، ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ہندوستان نے امریکہ کو صفر ٹیرف کے ساتھ تجارتی معاہدے کی پیشکش کی ہے، کامرس سکریٹری سنیل بارتھوال نے کہا، “کسی دوسرے ملک کی حکومت کے سربراہ کی طرف سے کوئی بھی بیان آیا ہے، میرے خیال میں وزیر خارجہ کی سطح پر اس کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے میں اس پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا۔’

خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے مبینہ طور پر کہا ، ‘ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی بات چیت چل رہی ہے۔ یہ پیچیدہ مکالمے ہیں۔ جب تک سب کچھ حتمی نہیں ہو جاتا کچھ نہیں کہا جا سکتا… جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس پر کوئی بھی فیصلہ جلد بازی ہو گا۔’

ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں ہندوستان میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون تیار کرے گا، جبکہ چین کے ساتھ غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، جو اب تک اس کا مینوفیکچرنگ مرکز رہا ہے۔

منی کنٹرول کے مطابق ، کک نے کہا، “ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون کا اصل ملک ہندوستان ہی ہوگا۔’ دریں اثنا، امریکہ جانے والےآئی پیڈ، میک، ایپل واچ اور ایئر پوڈز کی زیادہ تر پیداوار ویتنام ہینڈل کرے گا۔

کک نے کہا کہ جون کے آگےکے بارے میں  کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایپل اگلے چند سالوں میں اپنے تمام آئی فون پروڈکشن کا ایک چوتھائی ہندوستان  منتقل کرنا چاہتا ہے۔

Next Article

کرناٹک: بی جے پی ایم ایل اے کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد مندر ٹرسٹ نے مسلمانوں سے معافی مانگی

کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے ہریش پونجا نے گوپال کرشن مندر ٹرسٹ کے ایک پروگرام کے دوران اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ انہیں آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے یہ پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم کمیونٹی کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا۔ اب مندر ٹرسٹ نے مسلم کمیونٹی سے معافی مانگی ہے۔

کرناٹک کی بیلتھنگڈی اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہریش پونجا۔ (تصویر: انسٹاگرام/hpoonja)

کرناٹک کی بیلتھنگڈی اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہریش پونجا۔ (تصویر: انسٹاگرام/hpoonja)

نئی دہلی: کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے بیلتھنگڈی تعلقہ کے ٹیکر گاؤں کے گوپال کرشن مندر ٹرسٹ نے مسلم کمیونٹی سے معافی مانگی ہے ۔

دی ہندو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ،  بیلتھنگڈی کے ایم ایل اے ہریش پونجا کی جانب سے 3 مئی کو مندر کے ایک پروگرام کے دوران کی گئی مبینہ ہیٹ اسپیچ  کی وجہ سے یہ معافی مانگی گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے ہریش پونجا نے مندر کے برہمکلاشوتسوا پروگرام کے دوران ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی کے ایک حصے پر آرگنائزنگ کمیٹی کے ذریعہ نصب ٹیوب لائٹس کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں پونجا کو آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم کمیونٹی کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا۔

تولو زبان میں بات کرتے ہوئے پونجا نے کہا تھا ، ‘ہمیں مسجد جا کر لوگوں کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم ہندو ہیں اور ہمیں ویسے ہی رہنا چاہیے۔’

یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں آئے ہیں جب منگلورو میں دو قتل کے بعد ساحلی جنوبی کنڑ ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا۔

اس کے بعد بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف کئی شکایتیں درج کرائی گئیں۔ مسلم اوکوٹا نامی تنظیم نے مندر انتظامیہ کو خط لکھ کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

اپننگڈی پولیس نے پونجا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی  دفعہ 353(2) کے تحت اشتعال انگیز تقریر کرنے پر مقدمہ درج کیا ہے۔

گزشتہ 7 مئی کو مسلم اوکوٹا کے اراکین نے مندر کے ٹرسٹ سے ملاقات کی، جس کے بعد ٹرسٹ نے اسی دن ایک خط جاری کیا جس میں مذہبی اجتماع کے دوران مسلم کمیونٹی کے خلاف کیے گئے قابل اعتراض ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

دی ہندو کے مطابق، ٹرسٹ نے برہمکلاشوتسو میں فعال طور پر شرکت کرنے پر مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ مستقبل میں تمام برادریوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

وہیں، ایم ایل اے پونجا نے اپنی تقریر کو یہ کہہ کر درست ٹھہرایا کہ انہوں نے صرف ہندو سماج کوبیدار کیا ہے۔

Next Article

ہریانہ: فیس بک پوسٹ کے لیے خواتین کمیشن کے نوٹس کو اشوکا پروفیسر نے سینسرشپ قرار دیا

ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد پر سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کا الزام لگایا ہے۔ علی نے الزامات کی تردید کی ہے اور کمیشن کے نوٹس کو سینسر شپ کا نیا طریقہ قرار دیا ہے ۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے 12 مئی کواشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو طلب کیا تھا۔ کمیشن نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا ہےاور ‘مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کی ہے۔

کمیشن نے ‘آپریشن سیندور’ پر محمود آباد کی جانب سے کی گئی دو فیس بک پوسٹس اور اس پر لوگوں کے ردعمل کے اسکرین شاٹس منسلک کیے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ ان پوسٹوں کے ابتدائی جائزے میں  کئی تشویشناک پہلو سامنے آئے ہیں —جن میں کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ جیسی خواتین افسران کی توہین،’نسل کشی’، ‘ڈی ہیومنائزیشن اور ‘ہیپوکریسی’ جیسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینااوریکجہتی پر حملہ کرنا، خواتین کی توہین کرنا اوریونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے اخلاقی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرناشامل ہے۔

فیس بک پوسٹس میں کیا لکھا ہے؟

آٹھ مئی کو، جب ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا، محمود آباد نے ہندوستانی مسلح افواج کی پہلی قومی پریس بریفنگ پر ایک فیس بک پوسٹ شیئر کی۔

انہوں نے لکھا کہ وہ خوش ہیں کہ دائیں بازو کے مبصرین کرنل قریشی کی تعریف کر رہے ہیں،’ لیکن انہیں اتنی  ہی بلند آواز میں یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہجوم کے ہاتھوں زدوکوب کیے جانے والے، بغیر کسی قانونی کارروائی کے مسمار کیے گئےگھر، اور بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی سیاست کے شکار لوگوں کو  ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کیا جائے۔’

انہوں نے لکھا، ‘دو خواتین افسران کو اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے دیکھنا ایک اہم منظر ہے… لیکن آپٹکس کو زمینی حقیقت میں بدلنے کی ضرورت ہے؛  ورنہ یہ صرف منافقت ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پریس کانفرنس صرف ایک لمحاتی جھلک – شاید ایک وہم اور اشارہ  ہے- اس ہندوستان کا جس نے اس نظریے کو مسترد کردیا جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عام مسلمانوں کوجو زمینی حقیقت جھیلنی پڑتی ہے، وہ حکومت کی طرف سے دکھائی گئی تصویر سے مختلف ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تنوع میں اتحاد سے جڑا ہندوستان پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔’

ایک اور پوسٹ میں،جس کا عنوان تھا’دی  بلائنڈ بلڈ لسٹ فار وار’، انھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے کچھ میڈیا اداروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں پر جنگی جنون پھیلانے کا الزام لگایا۔

انہوں نے لکھا؛’یہ ریڈکلف سرحد کے دونوں طرف ہو رہا ہے – ہر طرف پاگل لوگ ہیں، لیکن سرحد کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ جنگ کا کیا مطلب ہوتاہے؛ یہ من مانی، غیر یقینی اور بے مطلب موت ہوتی ہے۔’

‘ سوچیے، جب آپ کہتے ہیں’انہیں مٹا دو…’ —آپ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام بچوں، بزرگوں، اقلیتوں، اس طرف کے امن کے حامیوں اور تمام بے گناہ لوگوں کو مار دو — جو وہی کرنا چاہتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں؛ ایک باپ ، ایک ماں، ایک بیٹی، بیٹا، دادا-دادی ، یا دوست بننا۔’

‘شرمناک’

اس کےبعدایک پریس کانفرنس میں ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے علی خان محمود آباد کے تبصروں کو’انتہائی شرمناک’ قرار دیا۔

انہوں نے کہا،’اگر وہ ہماری بیٹیوں کی عزت نہیں کر سکتے تو پروفیسر کیسے اور کیوں بنے؟ وہ ہماری بیٹیوں کو کیا سکھائیں گے؟’ انہوں نے کہا، ‘ان کی پوسٹس سے واضح ہے کہ وہ ملک کے خلاف بغاوت کی ذہنیت رکھتے ہیں۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ محمود آباد صرف ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن انہیں ملک سے کوئی محبت نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سال 2023 میں بھاٹیہ کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ‘وہ لڑکیاں جو  بوائے فرینڈ کے ساتھ اویو (ایک ہوٹل چین) جاتی ہیں اور بعد میں ریپ اور بلیک میل کی شکایت کرتی ہیں’۔ انہوں نے کہا تھا، ‘آپ جانتے ہیں کہ آپ وہاں ہنومان آرتی کے لیے نہیں جا رہے ہیں۔’

بھاٹیہ نے اشوکا یونیورسٹی سے اپیل کی کہ وہ محمود آباد کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر وہ کرنل قریشی اور (ونگ کمانڈر) ویومیکا کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں تو وہ ہماری بیٹیوں کو کیا پڑھاتے ہوں گے؟ وہ ان کو کیسے دیکھتے ہوں گے یا ان کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہوں گے؟’

اشوکا یونیورسٹی نے محمود آباد کے خیالات سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ یونیورسٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ‘اشوکا یونیورسٹی اور اس کے تمام ممبران ہندوستان کی مسلح افواج پر فخر کرتے ہیں اور ان کی  مکمل حمایت کرتے ہیں۔’

‘یہ سینسر شپ اور ہراساں کرنے کی ایک نئی صورت ہے’

چودہ مئی کو جاری ہونے والے ایک پریس بیان میں علی خان محمود آباد نے تمام الزامات کو مسترد کریا۔ انہوں نے کہا، ‘نوٹس کے ساتھ منسلک اسکرین شاٹس [میری پوسٹس کے] یہ واضح کرتے ہیں کہ میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔’

محمود آباد نے کہا کہ کمیشن نے ان کی پوسٹس کو اس حد تک غلط پڑھا اور اس کی غلط تشریح کی کہ ان کے اصل معنی ہی الٹ دیےگئے اور ایسے مسائل گھڑے گئے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں تھے۔

انہوں نے نوٹس کو سینسرشپ کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے بیانات سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوئی۔

انہوں نے کہا، ‘الزامات کے برعکس، میری پوسٹ میں اس بات کوسراہا گیا  تھاکہ مسلح افواج نے پریس کانفرنس کے لیے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کا انتخاب کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہماری جمہوریہ کے معماروں کا ہندوستان – جوتنوع میں اتحاد کا ایک خواب تھا- ابھی بھی زندہ ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے تجزیہ کیا اور تبصرہ کیا کہ کس طرح ہندوستانی فوج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی فوجی یا شہری ٹھکانے یا ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، تاکہ کسی غیر ضروری تصادم کو روکا جا سکے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں نے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کیا ہے اور ہندوستانی مسلح افواج کی فیصلہ کن کارروائی کی تعریف کی ہے، ساتھ ہی ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور ہندوستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘میری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے محمود آباد نے کہا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا نے ان کا غلط حوالہ دیا ہے اور انہوں نے کسی بھی پوسٹ کو حذف کرنے سے بھی انکار کیا، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا، ‘ایک نیوز آرگنائزیشن نے میری پوسٹس کا انتخاب کیا اور انھیں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کا مطلب ہی بدل گیا۔ یہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا نہیں بلکہ میری شبیہ کو داغدار کرنے اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون کے متن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میری پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں، جبکہ وہ ابھی تک میرے فیس بک پر موجود ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

مدھیہ پردیش: کرنل قریشی کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کرنے پر ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ نے کی وزیر کی سرزنش

سپریم کورٹ نے ہندوستانی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف متنازعہ ریمارکس کرنے پر مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجئے شاہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں آئینی عہدے پر رہتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سے قبل ہائی کورٹ کی ہدایت پر شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

وزیر کنور وجئے شاہ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@KrVijayShah)

وزیر کنور وجئے شاہ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@KrVijayShah)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (15 مئی) کو مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجئے شاہ کو ہندوستانی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف ان کے متنازعہ ریمارکس پر سرزنش کی- جنہوں نے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے بارے میں میڈیا کو جانکاری دی تھی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے کہا کہ ‘آئینی عہدے پر رہتے ہوئے آپ کو تحمل سے کام لینا چاہیے تھا، خاص طور پر جب ملک ایسی صورتحال سے گزر رہا ہو۔’

عدالت نے جمعہ کو کنور وجئے شاہ کی اس درخواست پر سماعت کرنے پر اتفاق کیا جس میں ان کے خلاف ایف آئی آر پر روک لگانے کی درخواست کی گئی تھی، لیکن اس نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں جاری کارروائی پر روک لگانے سے انکار کردیا، جس نے بی جے پی کے وزیر کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئےحکم جاری کیا تھا۔

سینئر وکیل وبھا دتہ مکھیجا نے شاہ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ شاہ نے اپنے ریمارکس کے لیے معذرت کر لی ہے۔ جسٹس گوئی نے کہا، ‘جائیے اور ہائی کورٹ سے معافی مانگیے۔’ جب وکیل نے اصرار کیا کہ عدالت اس معاملے پر غور کرے، تو سی جے آئی گوئی نے کہا، ‘ہم اس پر کل (جمعہ کو) غور کریں گے۔’

جب مکھیجا نے درخواست کی کہ اس دوران مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے تو چیف جسٹس گوئی نے کہا کہ 24 گھنٹے میں کچھ نہیں ہونے والا ہے۔

مکھیجا نے کہا، ‘میں ایک وزیر ہوں۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ یہ معاملہ آج ہائی کورٹ میں درج ہے۔’ اس پر جسٹس گوئی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔

مکھیجا نے اپنی درخواست کو دہرایا کہ جمعہ کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہونے تک سب اپنے ہاتھ روک کر رکھیں۔

وزیر کی معافی

اس سے قبل وزیر شاہ نے ویڈیو پیغام جاری کرکے معافی مانگی ہے ۔ انہوں نے کہا، ‘میں، وجئے شاہ، اپنے حالیہ بیان سے نہ صرف شرمندہ اور رنجیدہ ہوں جس سے ہر کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے، بلکہ میں معافی بھی چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک کی بہن صوفیہ قریشی جی نے اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے ذات پات اور سماج سے بالاتر ہو کر کام کیا ہے۔’

معلوم ہو کہ وجئے شاہ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے 14 مئی کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ان کے متنازعہ بیان پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے بدھ کو پولیس کو ہدایت دی  تھی کہ وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے ۔

ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد بدھ کو شاہ کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 152، 196(1)(بی) اور 197(1)(سی) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔

بی جے پی میں آدی واسی کمیونٹی  کے ایک اہم رہنما اور اکثر تنازعات میں رہنے والے شاہ نے سوموار (12 مئی) کو مہو کے پاس ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہندوستان نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار لوگوں کو ان کی اپنی بہن کو استعمال کرکے سبق سکھایا ہے۔’

وجئے شاہ  ایک وائرل ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں،’جنہوں نے ہماری بیٹیوں کے سیندور اجاڑے،انہی کٹے –پٹے لوگوں کو انہی کی بہن بھیج کر ان کی ایسی تیسی کروائی۔ انہوں نے کپڑے اتار-اتار کر ہندوؤں کو مارا اور مودی جی نے ان کی اپنی بہن کو ایسی-تیسی کرنے کے لیے ہمارے جہاز سے ان کے گھر بھیجا۔’

وہیں، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن یادو کے دفتر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ، ‘مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے حکم کے بعد وزیر اعلیٰ نے کابینہ وزیر وجئے شاہ کے بیان پر کارروائی کرنے کی ہدایات دی ہیں۔’

Next Article

جموں و کشمیر: ایل او سی کے قریب رہنے والوں کے لیے زندگی ڈراؤنا خواب

ہندوستانی فوج کے فوجی آپریشن کے بعد بے گھر ہوئے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کا اپنا گھر ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی میں سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 لوگوں کی  جان چلی گئی،  جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اُڑی میں بے گھر لوگوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ۔ (تمام تصویریں: عبید مختار)

شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اُڑی میں بے گھر لوگوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ۔ (تمام تصویریں: عبید مختار)

سری نگر/اُڑی: شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے نزدیک گنگل گاؤں میں رہنے والی 65سالہ سعیدہ بیگم 9 مئی کی خوفناک رات کو اس وقت اپنی آواز سے محروم ہوگئیں، جب ان کے گھر پر توپ کا گولہ گرا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب سعیدہ بیگم اپنے خاندان کے ساتھ، جس میں ان کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور نو بچے شامل ہیں، رات 9.30 بجے کے قریب محفوظ مقامات پرمنتقل ہو رہے تھے، کیونکہ ان کے سرحدی گاؤں کا پرامن ماحول بیچ- بیچ میں  زور دار دھماکوں کی آوازوں سے خراب ہو رہا تھا۔

جیسے ہی ان کا بیٹا محمود علی اپنی خوفزدہ سات سالہ بیٹی کو بازوؤں میں اٹھائے گھر سے باہر نکلا تو، توایک  کا گولہ چھت پر گرا اور گھر میں آگ لگ گئی۔

علی نے کہا،’وہ صدمے میں ہے، وہ ایک مسجد میں عارضی پناہ لے رہی ہے، جو سرحدی شہر اُڑی اور اس کے آس پاس کے گاؤںکے رہائشیوں کے لیے کھولی گئی ہے جو ‘آپریشن سیندور’ کے بعد ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان کی گولہ باری  سے بے گھر ہوگئے ہیں۔

اڑی میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد عارضی پناہ گاہ کے باہر بیٹھاایک خاندان، جسےگولہ باری  کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اڑی میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد عارضی پناہ گاہ کے باہر بیٹھاایک خاندان، جسےگولہ باری  کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 ایک مقامی ٹھیکیدار کے یہاںاکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کروالے علی بتاتے ہیں کہ زور دار دھماکے اور ان کے جلتے ہوئے گھر کے مناظر نے ان کی بیٹی کو بھی صدمے میں ڈال دیا ہے۔ علی نے اداس لہجے میں کہا کہ جب بھی ہم اپنے گھر کا ذکر کرتے ہیں تو وہ خوف سے کانپ جاتی ہے اور مسلسل روتی رہتی ہے۔ وہ گھر واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔’

پاکستان اور پاکستان مقبوضۃ جموں و کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں کے  ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے بعد بے گھر ہونے والے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کے اپنے گھر  ڈراؤنے خواب بن گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی کے دوران سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

تاہم، ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس گولہ باری میں فوج کے پانچ اہلکار مارے گئے ہیں۔

ان حملوں میں پونچھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے چار بچوں سمیت 14 شہری مارے گئے۔ پونچھ میں ہلاک ہونے والوں میں 13 سالہ جڑواں بچے – زین علی اور ان کی بہن فاطمہ شامل ہیں، جنہیں ان کے خاندان والے آیان اور زویا بلاتے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سکھ برادری کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔

اڑی میں اپنے گھر کی دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہوا متاثرہ شخص۔

اڑی میں اپنے گھر کی دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہوا متاثرہ شخص۔

وہیں، راجوری میں جموں و کشمیر حکومت کے ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر اور ایک دو سالہ بچی سمیت تین شہری مارے گئے، جبکہ دو شہری شمالی کشمیر کے سرحدی شہر اُڑی اور جموں میں بین الاقوامی سرحد پر آر ایس پورہ میں مارے گئے۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے تین دن بعد، جموں و کشمیر انتظامیہ نقصان کا اندازہ لگانے میں مصروف ہے،جبکہ  دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کے خوف سے بہت سے سرحدی باشندے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز بے گھر ہونے والے مکینوں کو ان کے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے سے پہلےمتاثرہ علاقوں کی صفائی کر رہی ہیں۔

وادی کشمیر کے ڈویژنل کمشنر وی کے بیدھوڑی اور جموں کے ان کے ہم منصب رمیش کمار سے پاکستان کی جانب سے کی گئی گولہ باری اور مشتبہ ڈرون حملوں کی وجہ سے یونین ٹیریٹری میں ہونے والے مادی نقصان کے سرکاری تخمینہ پر تبصرہ کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔

دی وائر نے اڑی اور پونچھ اضلاع کے درجنوں رہائشیوں سے بات کی، جن میں سے کچھ اب بھی اسکولوں، مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر رہ رہے ہیں، جنہیں بے گھر خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

زیادہ تر متاثرہ رہائشیوں نے زیر زمین بنکروں کی کمی یا مکمل غیر موجودگی کی شکایت کی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس سے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کم ہو سکتی تھی۔

اڑی گاؤں کے رہائشی آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی طرف سے کی گئی گولہ باری کے بعد اپنے گھروں پر لگے گولوں کی باقیات دکھا رہے ہیں۔

اڑی گاؤں کے رہائشی آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی طرف سے کی گئی گولہ باری کے بعد اپنے گھروں پر لگے گولوں کی باقیات دکھا رہے ہیں۔

پونچھ کے ڈنگلا کے رہائشی وقار عزیز، جو سرحدی ضلع میں توپ کی گولہ باری  کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے سرکاری اسکول میں چلے گئے تھے، نے بتایا کہ وہ منگل کو گھر لوٹ آئے۔

عزیز نے بتایا،’بہت سے رہائشی واپس آ چکے ہیں، حالانکہ دوبارہ تشدد پھوٹنے کا خدشہ باقی ہے۔ اندیشہ تھا کہ ڈی جی ایم او کی بات چیت ناکام ہو جائے گی، لیکن انہیں پرسکون کر دیا گیا ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ  جموں اور دیگر اضلاع میں بھاگ گئے تھے، وہ بھی  واپس آ رہے ہیں۔’

معلوم ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار (13 مئی) کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلح افواج نے ‘دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے، بہت سے دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے اور پاکستان میں ان کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے’۔

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے سوموار کی شام 5 بجے 30 منٹ کی بات چیت کے دوران جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

عزیز کہتے ہیں،’ہم نے کیا حاصل کیا؟ کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی گھر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ کیا پونچھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں اور تباہی پاکستان کو ہمارا جواب ہے؟ کون گارنٹی دے گا کہ پاکستان ہمارے گھر پر دوبارہ گولہ باری نہیں کرے گا؟’

نوے(90) سالہ سعید حسین نے بتایاکہ 1947-48 کی ہند-پاک جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پونچھ کا تاریخی شہر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہوا تھا اور سرحدی ضلع میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد چار دن کی جھڑپوں کے دوران شہری علاقوں پر توپ سے گولہ باری کا مشاہدہ کیا گیا۔

پونچھ کے ننگلی گاؤں کے رہنے والے حسین نے فون پر کہا، ‘1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں اور 7 مئی کے بعد بھی دہشت گردوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن دہشت گردی کا مسئلہ بدستور برقرار ہے۔ جان و مال کے نقصان کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا؟’

اڑی  کا مرکزی بازار، جو کبھی خریداروں سے گلزار رہتا تھا،سوموار کو ویران نظر آیا کیونکہ زیادہ تر رہائشی گھر کے اندر ہی رہے،انہیں نہیں معلوم کہ  مستقبل  میں کیاہوگا۔

علی، جن کے گنگل میں گھر کو گولہ باری سے جزوی نقصان پہنچا، کہتے ہیں کہ ان  کی بیمار ماں کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ ان کی آنکھیں غباروں کی طرح سوجی ہوئی ہیں۔ انہوں نے  مزید کہا،’میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتا ہوں، لیکن ہم ایک مسجد میں رہ رہے ہیں اور حالات اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔’

علی کی اہلیہ اور گھریلو خاتون مصرہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے دور گرنے والے گولوں کی آواز سننے کے عادی تھی، لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ نشانہ بنیں گے۔

انہوں نے کہا،’میں سو نہیں پاتی۔ اس نے کہا۔ اس رات کی دہشت آج بھی مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی سو نہیں پاتے۔’

سعیدہ بیگم (دائیں) اور ان کی بہو اڑی کے گنگل گاؤں میں اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان میں۔

سعیدہ بیگم (دائیں) اور ان کی بہو اڑی کے گنگل گاؤں میں اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان میں۔

حکمراں نیشنل کانفرنس کے رہنما اور اڑی سے جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن سجاد شفیع نے سوموار کو متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے سرحدی باشندے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘اڑی کی آدھی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ دہلی اور اسلام آباد میں سب آرام سے بیٹھے ہیں جبکہ ہم سرحدی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے مشکلات کا سامنا کیا اور اب ہم، ہمارے بچے ان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اس تنازعہ کا جلد از جلد اورمستقل خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم جنگ بندی نہیں چاہتے۔ ہم مستقل حل چاہتے ہیں۔’

اڑی کے کمال کوٹ کے رہائشی منیر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام رہائشی علاقوں میں زیر زمین بنکر بنائے جو گولہ باری سے متاثر ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،’ہم نے زیر زمین بنکر بنانے کی سرکاری تجاویز کے بارے میں سنا ہے، لیکن یہ وعدے صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ ہم اس بار قسمت سے بچ گئے، لیکن کون جانتا ہے کہ اگر یہ دوبارہ شروع ہوا تو کیا ہوگا۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )