
بائیس اپریل کے بعد کے ہفتوں میں ثابت ہوا کہ ہم ایک سماج کے طور پر ہوش مند اور ذی شعور نہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے ہلا دے سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں غصے کی جو نئی لہر دہشت گردی اور پاکستان مخالف جذبات کے نام پر دیکھی گئی اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں سے نفرت ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی 13 مئی کو ہندوستانی فضائیہ کے آدم پور بیس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)
بحران کا ہر لمحہ شہری اور معاشرے کو اپنے کردار، حتیٰ کہ اپنی شناخت کے جائزے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن سرکاری طور پر ہم بحران کے لمحے سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ اگر ہم اس پر یقین کرتے ہیں تو اب بھی نکلنے والے نہیں۔ آپریشن سیندور جاری ہے، بھلے ہی اس میں اب تھوڑا سا وقفہ آگیا ہو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپریشن سیندور پاکستان کے خلاف تھا یا ہے؟ اس کا استعمال ہندوستان میں کیسے کیا جا رہا ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا ہے کہ بحران کی اس گھڑی میں بھی کانگریس سوال پوچھنے سے باز نہیں آرہی۔ اس سے پہلے جب ایک رپورٹر نے فضائیہ کے افسر سے اس تصادم میں ہندوستان کو ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تصادم کے وقت تفصیلات نہیں بتا سکتے۔ اب جبکہ سرکاری طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہنگامی حالات جاری ہیں، توآپ حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر معاملے پر حکومت کو ماننے یا اس کا ساتھ دینے کومجبور ہیں۔
جوبھی سوال کرنے کی جرٲت کرے گا یا حکومت کے بیانیے سے انحراف کرے گا اس کے خلاف فوراً مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا اسے جیل رسید کیا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے گا۔ اس کے باعث معاشرے نے خود اپنا دماغ بند کر لیا ہے اور اسے وہ قوم کی خدمت مان بیٹھا ہے۔
بیشتر دفاعی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 6-7 مئی کی شب ہندوستانی حکومت کے حکم پر یہاں کی فوج نے پاکستان میں جو کارروائی کی وہ کچھ بھی اہم یا فیصلہ کن طور پرحاصل کرپانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کارروائی دراصل فوجی طاقت کا غلط استعمال اور ضیاع ہے۔ ان کے مطابق، حکومت نے اپنے ملک میں تشدد یا دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کر کے غلطی کی ہے۔
لیکن ان کے برعکس نہ صرف بڑا میڈیا بلکہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں سرکاری کارروائی کی حمایت کر رہی ہیں۔ یہی نہیں، اس حکومت کے بہت سے ناقدین، جو مستقبل میں بھی اس کے ناقد رہیں گے، اس کارروائی کے دوران حکومت کو بار بار یہ یقین دلاتے رہے کہ اگرچہ وہ اس کے ناقد ہیں، لیکن اس وقت ہر قدم پر اس کے ساتھ ہیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ اس بحران کی گھڑی میں ماہرین نے تو اپنا دماغ ٹھنڈا رکھا اور حکومت کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے لیکن باقی سرکاری قوم پرستی کے سیلاب میں بہہ گئے؟
اس کا جواب ایک سوال میں پوشیدہ ہے۔ کچھ دوستوں نے پوچھاکہ آپ ہی بتائیں، بے چاری حکومت کیا کرتی؟ کچھ تو کرنا ہی تھا نا؟
کچھ تو کرنا تھا، اس کے دباؤ میں وہ یہ بھول گئے کہ 22 اپریل کے قتل عام کو ٹالا جا سکتا تھا اگر حکومت وہ کرتی جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ کام لوگوں کی حفاظت کے انتظامات کرنا تھا۔ فوجی اور نیم فوجی دستے کشمیر کے چپے چپے میں گشت کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر بائی سرن جیسی جگہ پر ایک بھی سپاہی کیوں نہیں تھا جہاں ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں؟
جو حکومت اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں نبھانے میں اتنی لاپرواہ یا غیر ذمہ دار ہو وہ بحران کے وقت صحیح فیصلے کیسے کر سکتی ہے؟
ہم اس سادہ سی بات کو بھول گئے۔ پھر 6-7 مئی کو ایک غیر معمولی صورتحال پیدا کر دی گئی اور یہ سوال غائب ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ 26 افراد کو قتل کرنے والے کون تھے؟ کہاں غائب ہو گئے؟ حکومت ان کا سراغ لگانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔
حکومت کے اس اقدام کی حمایت کے لیے ایک عمومی اصول پر زور دیا گیا۔ یعنی پاکستان ہندوستان میں دہشت گرد بھیجتا ہے۔ لیکن یہ قتل بھی ان میں سے کچھ نے کیا تھا، کیا اس کے لیے خاطرخواہ ثبوت ہیں؟
جیسے ہی آپ یہ سوال پوچھیں گے قوم پرست آپ پر حملہ کر دیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں حکومت پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گردوں نے ایسا اس لیے کیا ہو کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ کرے اور وہ کمزور ہو جائے۔ کیا یہ دور کی کوڑی ہے؟ جو بھی ہو، ہم نے اس سوال کو کیوں چھوڑ دیا؟
پاکستان نے پوچھا کہ اگر ہندوستان کے پاس اس حملے سے متعلق کوئی معلومات اور ثبوت ہیں تو وہ اسے ظاہر کرے۔ اس نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنے لوگوں کو بتاتی رہی کہ اس کے پاس پاکستان کے جرم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ لیکن وہ ثبوت دینے کو تیار نہیں۔
اس نے یہ کہہ دیا کہ پاکستان خود دہشت گرد ملک ہے، اس لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے ذہنوں میں پاکستان کا منفی امیج ہے، اس لیے ہم ہر ایسے واقعے کے لیے اس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
یہ ہماری پرانی عادت ہے۔ ہم نے پلوامہ کا حساب حکومت سے سے نہیں مانگاکیونکہ ہندوستان نے پاکستان کے اندر بالاکوٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس طرح پلوامہ کا بدلہ لے لیا گیا۔ عوام کو اس انتقام کا نشہ دینے کے بعد حکومت پلوامہ حملے کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتی اور ہم بھی نہیں پوچھتے کہ ہمارےجوانوں کو مارنے والے کون تھے۔
چھ سات مئی کے بعد ہندوستانی ٹی وی اور میڈیا کے شور شرابےسے دور کچھ لوگ بین الاقوامی ردعمل کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ نوٹ کررہے ہیں کہ 22 اپریل کو پہلگام قتل عام کے بعد ہندوستان کے لیےجو بین الاقوامی ہمدردی کا اظہار ہوا تھا، اس نے 6-7 مئی کو ہندوستانی حملے کے بعد محتاط خاموشی کا راستہ اختیار کیا۔ سب نے دیکھا کہ ہندوستانی جہاز بھلے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہوئے ہوں، پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تو ہوئی ہی تھی۔
پاکستان کا دفاعی اقدام متوقع تھا۔ وہ ہمیں برا لگے، لیکن دنیا نے اسے فطری مانا۔ اس کارروائی میں ہندوستان کے سرحدی علاقوں کو نقصان پہنچا اور کئی ہندوستانی مارے گئے۔ ہندوستانی حکومت نے یہاں بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اگر وہ حملہ کرنے جا رہی تھی تو اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ جوابی حملہ ہو گا اور سرحدی علاقوں میں لوگوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے جانے چاہیے۔ وہ نہیں کیا گیا اور ہندوستانی حکومت نے انہیں پاکستانی حملوں کے سامنے چھوڑ دیا۔
ہندوستان اپنی کارروائی کے لیے نہ صرف اپنے پڑوسیوں، بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کھلی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے وزراء نے تقریباً ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن کسی نے کھل کر پاکستان کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ہندوستان کے اقدام کی حمایت کی۔
ہندوستانی حکومت کے اس جارحانہ اقدام کی حمایت صرف ہندوستانی ٹی وی چینل اور میڈیا کر رہے تھے۔ دراصل وہ ہندوستانی فوج سے کہیں آگے جا کر پاکستان کو تقریباً فتح کر چکا تھا۔
ہندوستان کے ساتھ صرف اسرائیل آیا۔ نہ امریکہ، نہ روس اور نہ ہی کسی یورپی ملک نے ہندوستان کے اس حملے کی حمایت کی۔ بلکہ سب نے مشورہ دیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تنازعات کو جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔ اس طرح ہندوستان اس کارروائی کے بعد دنیا میں اکیلاپڑ گیا۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کی جوابی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔ آخر اسے اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق حاصل تھا۔یہ ہم نہ مانیں، دنیا تویہی مانتی ہے۔
ہندوستان کہتا رہا کہ اس نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیاتھا، فوجی ٹھکانوں پر نہیں، لیکن دنیا پاکستان کے اس دعوے سے غیر متفق نہیں تھی کہ ہندوستان نے اس کی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے، اس کی خودمختاری پر حملہ کیا ہے اور پاکستان کو اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کارروائی کو ایسے پیش کیا جیسے ہندوستان جنگ میں داخل ہو گیا ہو۔ اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ کردینا ہے۔ اس کے برعکس فوج کہتی رہی کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یعنی ہندوستان کی حکمران سیاسی جماعت نے ایک بات کہی تھی اور فوج نے کچھ اور۔
بی جے پی اور میڈیا کے ملک میں جنگی جنون پیدا کرنے کے دو دن بعد جب امریکی صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کو تنازعات سے بچنے کے لیے راضی کر لیا ہے تو سب سکتے میں آ گئے۔ پاکستان نے فوری طور پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا اور جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بھی امریکہ کا نام لیے بغیر اس کی تصدیق کی۔ اس طرح ایک ہی جھٹکے میں ہندوستان کو پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔
ہم خود کو اپنی نگاہ میں اونچا مان لیں، لیکن اب دنیا ہندوستان اور پاکستان ایک ساتھ ہی بول رہی ہے۔ یہ اس تصادم کا ماحصل ہے۔ دنیا میں ہمارا قد بڑھانہیں بلکہ کم ہوگیا ۔ امریکہ بار بار کہہ رہا ہے کہ اس نے دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ وہ ان کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے اس لیے دونوں نے محاذ آرائی ختم کر دی۔ ہندوستان اس کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔
ہندوستانی حکومت اپنے عوام کو بتا رہی ہے کہ ہندوستان کے حملوں سے خوفزدہ پاکستان نے جنگ بندی کی فریاد کی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان بھی روز روز پاکستانی ڈرون حملوں کی لہروں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ شمالی ہندوستان میں لوگوں کا راشٹروادی خون ابل رہا ہو، پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں خوف و ہراس اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ ہندوستان بھی توقف چاہتا تھا۔
لیکن اس وقفے نے قوم پرستوں کو سخت مایوس کیا۔ جنگ کی پیاس نہ بجھ سکی۔ اس مایوسی کا اظہار قوم پرستوں کے ذریعے خارجہ سکریٹری وکرم مصری پر نفرت انگیز آن لائن حملوں سے ہوا۔ گویا انہوں نے خود ہی بریک لینے کا فیصلہ کر لیاہو۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹی کو فحش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی حکومت نے اپنے سکریٹری کے خلاف اس نفرت انگیز مہم پر تنقید نہیں کی۔ آخر وہ اپنے حامیوں کو کچھ کیسے کہہ سکتی تھی؟
پھر وزیراعظم کی انٹری ہوئی۔ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے پاکستانیوں کے خون کے پیاسے اور توقف سے مایوس اپنی عوام کومطمئن کرنے کے لیےوزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ 22 اپریل کے قتل عام کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ جنہوں نے ہماری ماؤں بہنوں کے ماتھے کا سیندور اجاڑا تھا ان سے بدلہ لیا گیا ہے ۔ بار بار سیندور لفظ پر زور دے کر انہوں نے ہندوستان کی اس کارروائی کو ہندو رنگ دیا۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ آپریشن سیندورور جاری ہے۔ ہم نے اسے صرف روکا ہے، لیکن اسے ختم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور اب ‘نیو نارمل’ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہندوستان میں کہیں بھی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو آپریشن سیندور دوبارہ شروع ہوگا۔ یہی بات ایک روز قبل فوجی حکام نے بھی کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اب کسی بھی دہشت گردانہ حملے کو ہندوستان کی خودمختاری پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ بہت خطرناک نظریہ ہے۔ اس کا مطلب اب یہ ہے کہ اگر پولیس اپنا کام نہیں کرتی ہے تو فوج اس کی تلافی کرے گی۔ اس سے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی علاقے ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک مستقل جنگ جیسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے۔ اس کی آڑ میں حکومت اب عوام سے غیر مشروط حمایت کا مطالبہ کرے گی۔ کسی بھی قسم کی تنقید کو ملک دشمن قرار دیا جائے گا۔ اپوزیشن کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حکومت نے خصوصی پارلیامانی اجلاس بلانے کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری عمل ملتوی ہو چکا ہے۔
سوال پوچھنا منع ہے۔ کیونکہ سوالات کے جوابات سے ریاست کی کمزوری آشکار ہوگی اور دشمن اس کا فائدہ اٹھائے گا۔
اپوزیشن بھی قوم پرستی کے طوفان سے ہل گئی اور بار بار حکومت کو 22 اپریل کا بدلہ لینے کے لیے کچھ نہ کرنے کا طعنہ دیا۔ انہوں نے بغیر کوئی ثبوت مانگے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ ہندوستان کے بہت سے ذی فہم لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے پاس حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔
اپوزیشن نے حکومت پر نظر رکھنے کا اپنا فرض چھوڑ دیا، لیکن بی جے پی نے ہندوستانی کارروائی کو ہائی جیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ توقف کے بعد، اس نے قوم پرستوں کے جنون کو برقرار رکھنے کے لیے ترنگا یاترا شروع کر دی ہے۔ اپوزیشن حکومت سے بنیادی اور حقیقی سوالات پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
جنگ کا خوف پیدا کر کے نئی وفاداریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کو ‘نیشن فرسٹ’ مہم چلانے کو کہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کےتئیں وفاداری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی وزیر اعظم سے اپنی وفاداری کا اظہار کر چکے ہیں۔
سرکاری دعوؤں کو پرکھنے کے بجائے میڈیا اس کا پرچارک بن گیا ہے۔ لوگ عوام میں بولنے اور لکھنے سے ڈر رہے ہیں۔ کسی بھی ناقد کو خاموش کرنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ دی وائر، مکتوب میڈیا، آؤٹ لک، چینل 4 پی ایم، ڈاکٹر مادری کاکوٹی، نہا سنگھ راٹھور کو یا تو خاموش کیا گیا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔
حکومت پر تنقید کرنے پر لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ابھی ہریانہ ویمن کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے استاد علی خان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں آزادانہ سوچ کی جگہ مزید محدودہو گئی ہے۔
ہم پاکستان میں تو جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اپنے یہاں اس کی قربانی دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔
پہلگام قتل عام اور ہندوستانی حملے اور اس کے بعد کے درمیان جو کچھ ہو رہا تھا اس سے بھی ہمارے سماجی کردار کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ 22 اپریل کے بعد ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور کشمیر کے لوگوں نے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کا سیلاب آ گیا۔ کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے۔ خاص طور پر بنگالی مسلمانوں پر سرکاری حملے شروع ہو گئے۔ انہیں احمد آباد میں گرفتار کیا گیا اور سڑک پر ان کی پریڈ کروائی گئی۔
اس سب کے بارے میں نہ تو حکومت نے کچھ کہا اور نہ ہی میڈیا نے اس پر تنقید کی۔ سکریٹری خارجہ 22 اپریل کے حملہ آوروں کی ہندوستان میں فرقہ وارانہ تصادم پیدا کرنے کی سازش کو ناکام بنانے پر ہندوستانی عوام کی تعریف کررہے تھے۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا۔
ہندوستان میں بی جے پی کے حامیوں نے مسلم مخالف نفرت پھیلائی اور مسلمانوں پر حملہ کیا۔ کشمیریوں کے خلاف نفرت کی مہم تیز ہو گئی۔ مسلمانوں نے یقیناً اپنا صبر برقرار رکھا اور ہندوتوا کی اس نفرت کو برداشت کیا۔ یونیورسٹیوں نے اپنے اداروں میں ہم آہنگی برقرار رکھنے اور کشمیری طلبہ کو یقین دلانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ قوم پرست پروپیگنڈے میں بھی ضرور شامل ہو گئے۔
بائیس اپریل کے بعد کے 3 ہفتوں نے ثابت کر دیا کہ ہم بحیثیت معاشرہ بالغ اور ہوش مندنہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے ہلا دے سکتا ہے۔ حکومت کسی بھی صورتحال کو غیر معمولی بنا کر ہماری مکمل وفاداری حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی تنقیدی بصیرت یا صوابدید کو معطل کرنے کے لیے بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں دہشت گردی کے نام پر مسلم دشمنی اور پاکستان مخالف جذبات کی نئی لہر نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے تئیں نفرت ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ہندوستان میں سماجی ہوشمندی ناممکن ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)