
بی جے پی رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے کے بعد سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا کہ کچھ لوگوں کے لیے مذہبی پہچان نفرت کی سیاست کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ میں اس ہندوستان میں یقین رکھتا ہوں، جہاں کسی کو اس کی صلاحیت اور خدمات سے پہچانا جاتا ہے، نہ کہ مذہب سے۔’
نئی دہلی: ہندوستان کےسابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا ہے کہ اگرچہ کچھ لوگ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے مذہبی شناخت کا استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ اس ہندوستان میں یقین رکھتے ہیں،’جہاں کسی شخص کی پہچان اس کی صلاحیتوں اورخدمات سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی مذہبی شناخت سے۔’
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو دیے اس بیان سے ایک دن قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے نے قریشی کو ‘مسلم کمشنر’ کہا تھا۔
دراصل، 17 اپریل کو ایس وائی قریشی نے اپنی ایکس پوسٹ میں مرکزی حکومت کے متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ پر تبصرہ کیا تھا، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا ، ‘یہ وقف ایکٹ بلاشبہ مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا حکومت کا انتہائی گھناؤنا اور شاطرانہ منصوبہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ اسے مسترد کر دے گی۔ شرارتی پروپیگنڈہ مشین نے غلط معلومات پھیلا کر اپنا کام بخوبی کرلیا ہے۔
گزشتہ 20 اپریل کو بی جے پی ایم پی نے قریشی کی اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ، ‘آپ الیکشن کمشنر نہیں، مسلم کمشنر تھے۔ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں سب سے زیادہ بنگلہ دیشی دراندازوں کو ووٹر آپ کے دور میں ہی بنایا گیا۔ پیغمبر محمدصاحب کا اسلام 712 میں ہندوستان میں آیا۔ اس سے پہلے یہ سرزمین ہندوؤں یا اس عقیدے سے وابستہ قبائلیوں، جین یا بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی۔ میرے گاؤں وکرم شیلا کو بختیار خلجی نے 1189 میں جلایا، وکرم شیلا یونیورسٹی نے دنیا کو اپنا پہلا وائس چانسلر آتش دیپانکر کی صورت میں دیا۔ اس ملک کو جوڑو، تاریخ پڑھو، توڑنے سے پاکستان بنا، اب بٹوارہ نہیں ہوگا؟’
یہ واضح نہیں ہے کہ دوبے نے اپنے حقائق کے لیے کن تاریخی ذرائع کا حوالہ دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے ان کے بیان پر تنقید کی ہے۔
قریشی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے سے پہلے دوبے نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ‘ملک میں جاری خانہ جنگی’ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ تب بی جے پی کو ان کے بیان سے خود کوالگ کرنا پڑا۔ لیکن بی جے پی نے قریشی پر دیے گئے بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے قریشی نے کیا کہا؟
قریشی، جو 1971 بیچ کے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کے افسر ہیں، وزارت برائے امور نوجوانان اور کھیل میں سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
دوبے کے متنازعہ ریمارکس پر پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے قریشی نے کہا، ‘میں نے ایک آئینی عہدے – الیکشن کمشنر – پوری ایمانداری اور اہلیت کے ساتھ کام کیا ہے اور انتظامی خدمات میں میرا طویل اور اطمینان بخش کیریئر رہا۔ میں اس ہندوستان میں یقین رکھتا ہوں جہاں کسی شخص کو اس کی قابلیت اور خدمات کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر۔’
‘لیکن شاید کچھ لوگوں کے لیے مذہبی شناخت نفرت انگیز سیاست کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ آئینی اداروں اور اصولوں کا تحفظ کیا ہے اور کرتا رہے گا۔’
قریشی،سرکاری پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں اور گورننس پر گہری نظر رکھتے رہے ہیں۔ دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے سخت ریمارک کیا تھا کہ ‘سپریم کورٹ کے وقار کو مجروح کیا گیا ہے۔’
آئی اے ایس افسروں کے فورم نے قریشی کی حمایت کی
دریں اثنا، دہلی ایڈمنسٹریشن آفیسرز اکیڈمک فورم کے اعزازی صدر کے مہیش نے قریشی کی حمایت کی ہے اور انہیں ایک’ممتاز اور بااثر’ شخصیت قرار دیا ہے جنہوں نے الیکشن کمشنر اور چیف الیکشن کمشنر دونوں کے طور پر کام کیا ہے۔
مہیش نے پی ٹی آئی کو بتایا،’انہوں نے ان دونوں اہم ذمہ داریوں کو پوری لگن اور خصوصیت کے ساتھ نبھایا اور کئی اصلاحات کے ذریعے الیکشن کمیشن کے ادارے کو تقویت بخشی۔مثال کے طور پر، انہوں نے ووٹر ایجوکیشن ڈویژن، اخراجات کنٹرول ڈویژن قائم کیا اور انڈیا انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریسی اور الیکشن مینجمنٹ جیسے اداروں کی بھی بنیاد رکھی۔’