
اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔تصویر بہ شکری:پی آئی بی/السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر
مہاتما گاندھی کو رخصت ہوئےعرصہ بیت چکا ہے، لیکن ہندوستان کی سیاست میں ان کی اہمیت روز افزوں ہے۔ ان کی تعلیمات عالمی سیاست کے تناظر میں آج بھی صدگونہ اہمیت کی حامل ہیں۔ راجیہ سبھا ممبر منوج کمار جھا نے مہاتما گاندھی کےنظریے سے یہ خط وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھتے ہوئے پوچھا ہے کہ ‘اجتماعی درد اور اذیت کے سامنے کیا خاموشی کبھی غیر جانبدار ہو سکتی ہے؟’
عزت مآب جناب نریندر مودی جی،
میں آپ کو کسی تاریخی شخصیت کے طور پر نہیں اور نہ ہی مہاتما کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ میرے الفاظ کو اخلاقی ضمیر کی آواز کے طور پر پڑھیں گے، جس نے جدوجہد، قربانی اور خود شناسی کے دور میں طویل عرصے تک ہمارے ملک کی رہنمائی کی۔ سچائی، عدم تشدد، رحمدلی اور انصاف کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ تاریخ کی یادگار محض نہیں ہے۔ یہ اقدار ہماری تہذیب و ثقافت کے لازمی اور زندہ اخلاقی کردار (ایتھوس) ہیں۔ یہ دنیا کے ساتھ ہمارے معاملات میں تہذیبی رہنما ہیں۔
میرا اور آپ کا ملک، جس نے عدم تشدد اور اخلاقی مزاحمت کے دم پر اپنی آزادی حاصل کی تھی، آج مظلوموں کی تکلیف پر تذبذب کا شکار ہے اور خاموش ہے۔ میں انتہائی تشویش کے ساتھ فلسطین کے سوال پر ہندوستان کے موقف میں قابل ذکر تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ سچ کہوں تو بہت پریشان بھی ہوں۔ فلسطینی کاز کے لیے ہندوستان کی تاریخی حمایت کبھی بھی خارجہ پالیسی کی سہولت کا معاملہ نہیں تھا۔
تاریخی طور پر ہندوستان ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ جنگ کا نہیں، بلکہ امن کا حامی رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ، جیسا کہ گزشتہ 12 جون کو اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے تناظر میں دیکھا گیا، ہندوستان کے دیرینہ تہذیبی اخلاق اور تاریخی سفارتی موقف سے کافی الگ تھا۔ یہ ایک ایسے وقت میں اخلاقی خاموشی ہے جب دنیا انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں، آپ کے پیش رو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو عدم تشدد، نوآبادیاتی قوم کے ساتھ یکجہتی اور فلسطین کی جائز خواہشات کی مستحکم حمایت پر استوار کرنے کی کوشش کی۔
بارہ جون 2025 کو جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ نہ صرف ہمیں عدم تشدد اور انصاف کی تہذیبی اقدار سے دور کرتا ہے بلکہ اقوام کے درمیان اخلاقی رہنما کے طور پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے کہ نفع و نقصان کے ترازو کو ایک جانب رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوں جو اب بھی اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تزویراتی اتحاد یا معاشی فوائد کے حصول کے لیے اس روایت سے دور جانا یہ بھول جانا ہے کہ ہم بحیثیت فرد کون ہیں اورایک قوم کے طور پر ہماری تاریخ نے ہمارے کندھوں پر کس طرح کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
حال ہی میں میری زندگی کے آخری سالوں کے تناظر میں مانس فراق بھٹاچارجی (گاندھی:دی اینڈ آف نان وائلنس) کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ہم سچائی، عدم تشدد اور صوابدیدکی بنیاد پر کس طرح بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ سیاسی طاقت پر اخلاقی جرأت غالب آنی چاہیے تاکہ ہماری پالیسیاں خواہ وہ ملکی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی اس ملک کی تہذیب اور آئین کے مطابق طے کی جانی چاہیے۔
برا نہ مانیےگا، لیکن آپ کو خودسے پوچھنا چاہیے؛ کیا اجتماعی درد اور اذیت کےسامنے خاموشی کبھی غیر جانبدار ہوسکتی ہے؟
میں آپ کو عاجزی کے ساتھ لیکن مضبوطی سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی سے بہت پہلے میں نے اس عقیدے کا اظہار کیا تھا کہ ‘فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جس طرح انگلستان انگریزوں کا یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے’۔ میرے الفاظ کسی برادری کے خلاف دشمنی سے نہیں بلکہ انصاف کے لیے غیرمتزلزل وابستگی متاثر تھے۔
آپ اور آپ کے وزیر خارجہ جئے شنکر جی یہ دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں – کیا سچ بدل گیا ہے؟ کیا ہمدردی غیر متعلق ہو گئی ہے؟ کیا ہندوستان کی اخلاقی آواز اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی قوت پر بات چیت کا امکان ختم ہو گیا ہے؟
فلسطینی عوام کی مظلومیت – ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت، اپنے ہی گھر سے بے دخل ہونا، دن رات آسمان و زمین سے برستی آگ ، ان کے گھروں اور خوابوں کی تباہی – غیر جانبداری نہیں بلکہ اخلاقی وضاحت کا تقاضہ کرتی ہے۔
آپ اکثر اپنے غیر ملکی دوروں پر کہتے ہیں کہ میں یدھ (جنگ) سے نہیں بدھ کی سرزمین سے آیا ہوں۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ گزشتہ دنوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا حاصل کیا رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو ‘ وسودھیو کٹمبکم ‘ کے راستے پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہے، جب اس عالمی خاندان کا ایک حصہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اور روزانہ تشدد کا شکار ہو تو وہ کیسے آنکھیں بند کر سکتی ہے؟
جارح اسرائیلی حکومت کے خلاف مضبوط اخلاقی موقف اختیار کرنے میں ناکامی نہ صرف فلسطینی بحران کو مزید گہرا کرے گی بلکہ پورے علاقائی توازن کو بھی بگاڑ دے گی۔ جب ایشیا اور عرب دنیا کے ممالک اپنی تہذیبی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں تو وہ انجانے میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ عالمی جنوب کی آزاد آواز دب جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر انہی سامراجی قوتوں کی مرضی پر ناچنے پر مجبور ہوجاتا،جن سے ہم نے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔
میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے موقف کو ایک بار پھر اس کے تہذیبی کردار سے جوڑیں – ایک ایسا کردار جو طاقتور کے ساتھ نہیں بلکہ لاچاروں کے ساتھ کھڑا ہو۔ قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاریخ نہ صرف یہ یاد رکھے گی کہ ہندوستان دنیا میں کس طرح نمایاں ہوا بلکہ یہ بھی یاد رکھے گی جب انصاف کی پکار ہوئی توہندوستان کیسے کھڑا ہوا۔
میں اس قوم کی ابدی روح میں ہمیشہ امید کے ساتھ رہوں گا۔
آپ کا،
موہن داس کرم چند گاندھی
جون 2025
منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔