سپریم کورٹ نے جی این سائی بابا کو بری کیے جانے  کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کیا

بامبے ہائی کورٹ نے جی این سائی بابا کو ماؤنوازوں کے ساتھ ان کے مبینہ لنک سے متعلق ایک کیس میں بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دینے والا حکم قانون کی نظر میں غلط تھا۔ مہاراشٹر حکومت نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر روک لگانے کی اپیل کی تھی۔

بامبے ہائی کورٹ نے جی این سائی بابا کو ماؤنوازوں کے ساتھ ان کے مبینہ لنک سے متعلق ایک کیس میں بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف  یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دینے والا حکم قانون کی نظر میں غلط تھا۔ مہاراشٹر حکومت نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر روک لگانے کی اپیل کی تھی۔

جی این سائی بابا اپنی اہلیہ  وسنتا کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

جی این سائی بابا اپنی اہلیہ  وسنتا کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو مبینہ ماؤسٹ لنک کے معاملے میں بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے  پر روک لگانے سے جمعہ کوانکار کردیا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد مہاراشٹر حکومت نے فیصلے پر روک کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ تاہم، کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو یہ اجازت دی کہ وہ  فوری طور پر لسٹ کیے جانے  کی درخواست رجسٹری کے سامنے دے سکتی ہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ہیما کوہلی کی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ عدالت بری کرنے کے فیصلے پر روک نہیں لگا سکتی کیونکہ اور دوسرے  فریق اس کے سامنے نہیں ہیں۔

اس سے پہلے مہتہ نے کہا کہ اس معاملے کو فوری طور پر لسٹ کیا جانا چاہیے اور فیصلے پر روک لگا دی جانی چاہیے۔

بنچ نے کہا کہ اس نے کیس کی فائل یا ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی غور نہیں کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، بنچ نے کہا، آپ اس معاملے کو فوری طور پرلسٹ کرنے کے بارے میں چیف جسٹس آف انڈیا کے انتظامی فیصلے کے لیے رجسٹری کے سامنے درخواست دے سکتے ہیں۔

لائیو لاء کے مطابق، مہتہ نے بنچ کو بتایا کہ چونکہ بری کیا جانا ‘ملک کے خلاف ایک بہت سنگین جرم’ سے متعلق ہے، اس لیے سپریم کورٹ کوفیصلے پر روک لگانی چاہیے اور معاملے کو سوموار کے لیے لسٹ کرنا چاہیے۔

اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا، انہیں اپنے حق میں بری ہونے کا حکم ملا ہے۔ بھلے ہی ہم اسےسوموار کو دیکھیں اور اگر فرض کریں کہ ہم نوٹس جاری کریں، تب بھی ہم فیصلے پر روک نہیں لگا سکتے۔

سالیسٹر جنرل نے کہا کہ بری کرنا میرٹ پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر تھا کہ استغاثہ نے ضروری منظوری حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا،ہم میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہارے ہیں ، یہ منظوری کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے… اس کے بارے میں کوئی تعصب نہیں ہوگا کیونکہ وہ پہلےسے  ہی جیل میں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں بری کرنے کا حکم  دیتی ہیں ، اس میں میں کچھ  غیر معمولی نہیں ہے، لیکن عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

اس سے پہلے جمعہ کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے سائی بابا کو ماؤنوازوں کے ساتھ مبینہ تعلق سے متعلق ایک کیس میں بری کر دیا تھا۔

عدالت نے اپنے 101 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری کا حکم ‘قانون کی نظر میں غلط اور باطل’تھا۔

عدالت نے سائی بابا کو جیل سے فورا رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ سائی بابا (52) کے وکیلوں  نے کہا کہ سائی بابا کو سنیچر کو ناگپور سنٹرل جیل سے رہا کیے جانے کا امکان  ہے، جہاں وہ مئی 2014 میں گرفتاری کے بعد سے بند ہیں۔

غور طلب ہے کہ مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع کی ایک سیشن عدالت نے مارچ 2017 میں سائی بابا، ایک صحافی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک طالبعلم سمیت دیگر کو ماؤنوازوں سے مبینہ تعلقات  اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے  عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے سائی بابا اور دیگر کو یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔

بری ہونے کا بھروسہ  تھا، عدلیہ کا شکریہ: سائی بابا کی اہلیہ

سائی بابا کی اہلیہ اے ایس وسنتا کماری نے جمعہ کو اپنے شوہر الزام سے بری  کیے جانے کے بعد اپنے خیرخواہوں  اور عدلیہ کا شکریہ ادا کیا۔

وسنتا کماری نے کہا، ‘گزشتہ آٹھ سال ہم الگ رہے، لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ ایک دن بری ہو جائیں گے….’

وسنتا نے کہا،سائی اور میں بچپن کے دوست ہیں۔ لیکن پچھلے آٹھ سالوں میں ہم الگ رہے ہیں۔ یہ سب سے طویل وقت تھا جب ہم الگ رہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘گزشتہ آٹھ سالوں میں بہت جدوجہد کی اور صبر کیا۔ یہ سائی کے لیے بھی مشکل تھا کیونکہ ان کی صحت خراب ہوگئی اور وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

قابل ذکر ہے کہ 3 اپریل 2021 کو دہلی یونیورسٹی کے رام لال آنند کالج نے سائی بابا کو کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ انہوں نے سال 2003 میں کالج جوائن کیا تھا اور 2014 میں انہیں  مہاراشٹر پولیس کے گرفتار کرنے کے بعد سسپنڈ کردیا گیاتھا۔

انہوں نے کہا، ہمیں یقین تھا کہ وہ بری ہو جائیں گے کیونکہ انہوں  نے کچھ بھی  غلط نہیں کیا۔ کوئی جرم اور ثبوت نہیں تھا۔ میں عدلیہ اور ہر اس شخص کی  شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔

وسنتا کماری نے کہا کہ سائی بابا ایک دانشور اور پروفیسر ہیں جو صرف اپنے خیالات لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں۔ وہ صرف پڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جھوٹا مقدمہ تھا جس میں وہ جیل میں تھے۔

بتادیں کہ ان کی بیٹی فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم فل کر رہی ہے۔

سماجی کارکنوں نے  سائی بابا کی رہائی کا خیر مقدم کیا

کارکنوں، وکلاء اور سیاستدانوں نے مبینہ ماؤسٹ لنک کے معاملے میں دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائبابا کوبری کیے جانے کا خیرمقدم کیا اور اس با ت پر افسوس کا اظہار کیا کہ انسانی حقوق کے پیروکار کو 2014 سے جیل میں رہنے کی اذیت برداشت کرنی پڑی۔

سماجی کارکن کویتا کرشنن نے سائی بابا کی اہلیہ وسنتا اور ان کے وکیلوں  کو’ان کی رہائی حاصل کرنے’ پر مبارکباد دی۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا، ‘ جسمانی طور پر معذور انسانی حقوق کے محافظ – جو اب بے گناہ ثابت ہوئے ہیں – کو جیل میں اتنے عرصے تک اذیتیں  برداشت کرنا پڑای ، جس کی وجہ سےان  صحت کو نقصان پہنچا۔ شرم۔’

سپریم کورٹ کی وکیل اور کارکن اندرا جے سنگھ نے ٹوئٹر پر سائی بابا کی قانونی ٹیم کو مبارکباد دی اورجیل میں گزر گئے ان کے (سائی بابا کے) شریک ملزم پانڈو نروٹے کو خراج عقیدت پیش کیا۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ سائی بابا نے’یو اے پی اے کی وجہ سے برسوں تک جیل میں اذیتیں برداشت کیں  اور انہیں اپنے چاہنے والوں کو بے بس دیکھنا پڑا۔

انہوں نے ٹوئٹ کی ایک سیریز میں کہا، یو اے پی اے ایک راکشش ہے جسے بی جے پی اور کانگریس کی حمایت سے بنایا گیا ہے۔ اس کا شکار زیادہ تر بے قصور مسلمان، دلت، آدی واسی اور اختلاف رائے رکھنے والے ہیں۔ یو اے پی اے کے تحت صرف تین فیصد ملزمین کو سزا سنائی گئی ہے، لیکن اس کے تحت گرفتار کیے گئے بے قصور لوگ برسوں تک جیل میں رہتے ہیں۔

درخواست  ملنے پر کالج کی گورننگ باڈی سائی بابا کی بحالی پر غور کرے گی: پرنسپل

سائی بابا کے بری ہونے  کے بعد دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے رام لال آنند کالج نے کہا کہ اگر جی این سائی بابا کو  فیکلٹی ممبر کے طور پر بحال کرنے کے بارے میں کوئی درخواست موصول ہوتی  ہے تو اس کی گورننگ باڈی اس معاملے پر غور کرے گی۔

کالج نے گزشتہ سال سائی بابا کو برخاست کر دیا تھا۔ ان کی اہلیہ وسنتا کماری نے کالج کی کارروائی کو ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سائی بابا کو عدالت سے بری کر دینے کی صورت میں دوبارہ بحال کیا جائے گا، پرنسپل راکیش کمار گپتا نے کہا کہ کالج اس معاملے کو خود نہیں اٹھا سکتا ہے۔

گپتا نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا،اگر ہمیں کوئی درخواست  ملتی ہے، تو معاملہ گورننگ باڈی کے سامنے رکھا جائے گا۔اس کے علاوہ ان کی برطرفی کا معاملہ پہلے ہی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر سائی بابا کو 2014 میں گرفتاری کے بعد معطل کر دیا  گیاتھا۔ سائی بابا کی گرفتاری کے بعد سے ان کی بیوی اور بیٹی کو ان کی تنخواہ کا آدھا حصہ مل رہا تھا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ۔)