سپریم کورٹ نے رافیل ریویو کی عرضیوں  کو خارج کیا

چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے کہا کہ ریویو کی عرضیوں میں دم نہیں ہے۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے کہا کہ ریویو کی عرضیوں  میں دم نہیں ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے رافیل معاملے میں اپنے 14 دسمبر 2018 کے فیصلے کے خلاف دائر ریویو کی عرضیوں کو خارج کر دیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ ان عرضیوں میں میرٹ کی کمی ہے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف نے پایا کہ ریویو کی ان عرضیوں میں میرٹ یعنی کہ دم نہیں ہے۔

جسٹس کول نے سی جےآئی گگوئی اور خود کے لیے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا عام طور پر سپریم کورٹ کے ذریعے للتاکماری معاملے میں دی گئیں ہدایات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی۔ چونکہ کورٹ نے تفصیل سے اس معاملے پر بحث کی ہے، ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہیں جسٹس جوزف نے اکثریت کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے الگ فیصلے میں کہا کہ ایسے معاملوں میں جوڈیشل تجزیہ بہت محدود ہوتاہے۔ اس طرح سے متفق ہوکر ججوں نے عرضیوں کو خارج کر دیا۔

گزشتہ 10 مئی کو چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس کے کول، جسٹس کے ایم جوزف نے سپریم کورٹ کے 14 دسمبر 2018 کے فیصلے کے خلاف دائر ریویو کی عرضیوں پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔14 دسمبر کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ میں رافیل ڈیل سے متعلق دائر سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ  ٹھکرا دی تھی۔

اس کے بعد نظر ثانی کے لیے عرضیاں دائر کر کے کہا گیا کہ کورٹ کے فیصلے میں کئی سارے حقائق کی غلطیاں ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سرکار کے ذریعے ایک سیل بند لفافے میں دی گئی غلط جانکاری پر مشتمل ہے جس پر کسی کا دستخط بھی نہیں ہے۔

عرضی دائر کر نے والوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فیصلہ آنے کے بعد کئی سارے نئے حقائق سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر معاملے کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ رافیل معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد کانگریس ایک جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جےپی سی) جانچ پر زور دے رہی تھی۔

سال 2015 کے رافیل سودے کی آزادانہ جانچ کی مانگ کرنے والی اپنی عرضی خارج ہونے کے بعد، سابق وزیر ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں ریویو کی عرضی دائر کر فیصلے پر پھر سے غور کرنے کی مانگ کی تھی۔

Next Article

جموں و کشمیر: ایل او سی کے قریب رہنے والوں کے لیے زندگی ڈراؤنا خواب

ہندوستانی فوج کے فوجی آپریشن کے بعد بے گھر ہوئے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کا اپنا گھر ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی میں سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 لوگوں کی  جان چلی گئی،  جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اُڑی میں بے گھر لوگوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ۔ (تمام تصویریں: عبید مختار)

شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اُڑی میں بے گھر لوگوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ۔ (تمام تصویریں: عبید مختار)

سری نگر/اُڑی: شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے نزدیک گنگل گاؤں میں رہنے والی 65سالہ سعیدہ بیگم 9 مئی کی خوفناک رات کو اس وقت اپنی آواز سے محروم ہوگئیں، جب ان کے گھر پر توپ کا گولہ گرا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب سعیدہ بیگم اپنے خاندان کے ساتھ، جس میں ان کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور نو بچے شامل ہیں، رات 9.30 بجے کے قریب محفوظ مقامات پرمنتقل ہو رہے تھے، کیونکہ ان کے سرحدی گاؤں کا پرامن ماحول بیچ- بیچ میں  زور دار دھماکوں کی آوازوں سے خراب ہو رہا تھا۔

جیسے ہی ان کا بیٹا محمود علی اپنی خوفزدہ سات سالہ بیٹی کو بازوؤں میں اٹھائے گھر سے باہر نکلا تو، توایک  کا گولہ چھت پر گرا اور گھر میں آگ لگ گئی۔

علی نے کہا،’وہ صدمے میں ہے، وہ ایک مسجد میں عارضی پناہ لے رہی ہے، جو سرحدی شہر اُڑی اور اس کے آس پاس کے گاؤںکے رہائشیوں کے لیے کھولی گئی ہے جو ‘آپریشن سیندور’ کے بعد ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان کی گولہ باری  سے بے گھر ہوگئے ہیں۔

اڑی میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد عارضی پناہ گاہ کے باہر بیٹھاایک خاندان، جسےگولہ باری  کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اڑی میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد عارضی پناہ گاہ کے باہر بیٹھاایک خاندان، جسےگولہ باری  کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 ایک مقامی ٹھیکیدار کے یہاںاکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کروالے علی بتاتے ہیں کہ زور دار دھماکے اور ان کے جلتے ہوئے گھر کے مناظر نے ان کی بیٹی کو بھی صدمے میں ڈال دیا ہے۔ علی نے اداس لہجے میں کہا کہ جب بھی ہم اپنے گھر کا ذکر کرتے ہیں تو وہ خوف سے کانپ جاتی ہے اور مسلسل روتی رہتی ہے۔ وہ گھر واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔’

پاکستان اور پاکستان مقبوضۃ جموں و کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں کے  ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے بعد بے گھر ہونے والے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کے اپنے گھر  ڈراؤنے خواب بن گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی کے دوران سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

تاہم، ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس گولہ باری میں فوج کے پانچ اہلکار مارے گئے ہیں۔

ان حملوں میں پونچھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے چار بچوں سمیت 14 شہری مارے گئے۔ پونچھ میں ہلاک ہونے والوں میں 13 سالہ جڑواں بچے – زین علی اور ان کی بہن فاطمہ شامل ہیں، جنہیں ان کے خاندان والے آیان اور زویا بلاتے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سکھ برادری کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔

اڑی میں اپنے گھر کی دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہوا متاثرہ شخص۔

اڑی میں اپنے گھر کی دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہوا متاثرہ شخص۔

وہیں، راجوری میں جموں و کشمیر حکومت کے ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر اور ایک دو سالہ بچی سمیت تین شہری مارے گئے، جبکہ دو شہری شمالی کشمیر کے سرحدی شہر اُڑی اور جموں میں بین الاقوامی سرحد پر آر ایس پورہ میں مارے گئے۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے تین دن بعد، جموں و کشمیر انتظامیہ نقصان کا اندازہ لگانے میں مصروف ہے،جبکہ  دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کے خوف سے بہت سے سرحدی باشندے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز بے گھر ہونے والے مکینوں کو ان کے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے سے پہلےمتاثرہ علاقوں کی صفائی کر رہی ہیں۔

وادی کشمیر کے ڈویژنل کمشنر وی کے بیدھوڑی اور جموں کے ان کے ہم منصب رمیش کمار سے پاکستان کی جانب سے کی گئی گولہ باری اور مشتبہ ڈرون حملوں کی وجہ سے یونین ٹیریٹری میں ہونے والے مادی نقصان کے سرکاری تخمینہ پر تبصرہ کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔

دی وائر نے اڑی اور پونچھ اضلاع کے درجنوں رہائشیوں سے بات کی، جن میں سے کچھ اب بھی اسکولوں، مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر رہ رہے ہیں، جنہیں بے گھر خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

زیادہ تر متاثرہ رہائشیوں نے زیر زمین بنکروں کی کمی یا مکمل غیر موجودگی کی شکایت کی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس سے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کم ہو سکتی تھی۔

اڑی گاؤں کے رہائشی آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی طرف سے کی گئی گولہ باری کے بعد اپنے گھروں پر لگے گولوں کی باقیات دکھا رہے ہیں۔

اڑی گاؤں کے رہائشی آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی طرف سے کی گئی گولہ باری کے بعد اپنے گھروں پر لگے گولوں کی باقیات دکھا رہے ہیں۔

پونچھ کے ڈنگلا کے رہائشی وقار عزیز، جو سرحدی ضلع میں توپ کی گولہ باری  کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے سرکاری اسکول میں چلے گئے تھے، نے بتایا کہ وہ منگل کو گھر لوٹ آئے۔

عزیز نے بتایا،’بہت سے رہائشی واپس آ چکے ہیں، حالانکہ دوبارہ تشدد پھوٹنے کا خدشہ باقی ہے۔ اندیشہ تھا کہ ڈی جی ایم او کی بات چیت ناکام ہو جائے گی، لیکن انہیں پرسکون کر دیا گیا ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ  جموں اور دیگر اضلاع میں بھاگ گئے تھے، وہ بھی  واپس آ رہے ہیں۔’

معلوم ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار (13 مئی) کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلح افواج نے ‘دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے، بہت سے دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے اور پاکستان میں ان کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے’۔

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے سوموار کی شام 5 بجے 30 منٹ کی بات چیت کے دوران جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

عزیز کہتے ہیں،’ہم نے کیا حاصل کیا؟ کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی گھر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ کیا پونچھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں اور تباہی پاکستان کو ہمارا جواب ہے؟ کون گارنٹی دے گا کہ پاکستان ہمارے گھر پر دوبارہ گولہ باری نہیں کرے گا؟’

نوے(90) سالہ سعید حسین نے بتایاکہ 1947-48 کی ہند-پاک جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پونچھ کا تاریخی شہر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہوا تھا اور سرحدی ضلع میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد چار دن کی جھڑپوں کے دوران شہری علاقوں پر توپ سے گولہ باری کا مشاہدہ کیا گیا۔

پونچھ کے ننگلی گاؤں کے رہنے والے حسین نے فون پر کہا، ‘1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں اور 7 مئی کے بعد بھی دہشت گردوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن دہشت گردی کا مسئلہ بدستور برقرار ہے۔ جان و مال کے نقصان کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا؟’

اڑی  کا مرکزی بازار، جو کبھی خریداروں سے گلزار رہتا تھا،سوموار کو ویران نظر آیا کیونکہ زیادہ تر رہائشی گھر کے اندر ہی رہے،انہیں نہیں معلوم کہ  مستقبل  میں کیاہوگا۔

علی، جن کے گنگل میں گھر کو گولہ باری سے جزوی نقصان پہنچا، کہتے ہیں کہ ان  کی بیمار ماں کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ ان کی آنکھیں غباروں کی طرح سوجی ہوئی ہیں۔ انہوں نے  مزید کہا،’میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتا ہوں، لیکن ہم ایک مسجد میں رہ رہے ہیں اور حالات اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔’

علی کی اہلیہ اور گھریلو خاتون مصرہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے دور گرنے والے گولوں کی آواز سننے کے عادی تھی، لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ نشانہ بنیں گے۔

انہوں نے کہا،’میں سو نہیں پاتی۔ اس نے کہا۔ اس رات کی دہشت آج بھی مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی سو نہیں پاتے۔’

سعیدہ بیگم (دائیں) اور ان کی بہو اڑی کے گنگل گاؤں میں اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان میں۔

سعیدہ بیگم (دائیں) اور ان کی بہو اڑی کے گنگل گاؤں میں اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان میں۔

حکمراں نیشنل کانفرنس کے رہنما اور اڑی سے جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن سجاد شفیع نے سوموار کو متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے سرحدی باشندے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘اڑی کی آدھی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ دہلی اور اسلام آباد میں سب آرام سے بیٹھے ہیں جبکہ ہم سرحدی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے مشکلات کا سامنا کیا اور اب ہم، ہمارے بچے ان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اس تنازعہ کا جلد از جلد اورمستقل خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم جنگ بندی نہیں چاہتے۔ ہم مستقل حل چاہتے ہیں۔’

اڑی کے کمال کوٹ کے رہائشی منیر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام رہائشی علاقوں میں زیر زمین بنکر بنائے جو گولہ باری سے متاثر ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،’ہم نے زیر زمین بنکر بنانے کی سرکاری تجاویز کے بارے میں سنا ہے، لیکن یہ وعدے صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ ہم اس بار قسمت سے بچ گئے، لیکن کون جانتا ہے کہ اگر یہ دوبارہ شروع ہوا تو کیا ہوگا۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

آپریشن سیندور: بحران کے دوران قوم پرستی اور اجتماعی شعور کا امتحان

بائیس  اپریل کے بعد کے ہفتوں میں ثابت ہوا کہ ہم ایک سماج کے طور پر ہوش مند اور ذی شعور نہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے ہلا دے سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں غصے کی جو نئی لہر دہشت گردی اور پاکستان مخالف جذبات کے نام پر دیکھی گئی اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں سے نفرت ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی 13 مئی کو ہندوستانی فضائیہ کے آدم پور بیس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی 13 مئی کو ہندوستانی فضائیہ کے آدم پور بیس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

بحران کا ہر لمحہ شہری اور معاشرے کو اپنے کردار، حتیٰ کہ اپنی شناخت کے جائزے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن سرکاری طور پر ہم بحران کے لمحے سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ اگر ہم اس پر یقین کرتے ہیں تو اب بھی نکلنے والے نہیں۔ آپریشن سیندور جاری ہے، بھلے ہی اس میں اب تھوڑا سا وقفہ آگیا ہو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپریشن سیندور پاکستان کے خلاف تھا یا ہے؟ اس کا استعمال  ہندوستان میں کیسے کیا جا رہا ہے؟

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا ہے کہ بحران کی اس گھڑی میں بھی کانگریس سوال پوچھنے سے باز نہیں آرہی۔ اس سے پہلے جب ایک رپورٹر نے فضائیہ کے افسر سے اس تصادم میں ہندوستان کو ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تصادم کے وقت تفصیلات نہیں بتا سکتے۔ اب جبکہ سرکاری طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہنگامی حالات  جاری ہیں، توآپ حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر معاملے پر حکومت کو ماننے یا اس کا ساتھ دینے کومجبور ہیں۔

جوبھی سوال کرنے کی جرٲت کرے گا یا حکومت کے بیانیے سے انحراف کرے گا اس کے خلاف فوراً مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا اسے جیل رسید کیا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے گا۔ اس کے باعث معاشرے نے خود اپنا دماغ بند کر لیا ہے اور اسے  وہ قوم کی خدمت مان بیٹھا ہے۔

بیشتر دفاعی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 6-7 مئی کی شب ہندوستانی حکومت کے حکم پر یہاں کی فوج نے پاکستان میں جو کارروائی کی وہ کچھ بھی اہم یا فیصلہ کن طور پرحاصل کرپانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کارروائی دراصل فوجی طاقت کا غلط استعمال اور ضیاع ہے۔ ان کے مطابق، حکومت نے اپنے ملک میں تشدد یا دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کر کے غلطی کی ہے۔

لیکن ان کے برعکس نہ صرف بڑا میڈیا بلکہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں سرکاری کارروائی کی حمایت کر رہی ہیں۔ یہی نہیں، اس حکومت کے بہت سے ناقدین، جو مستقبل میں بھی اس کے ناقد رہیں گے، اس کارروائی کے دوران حکومت کو بار بار یہ یقین دلاتے رہے کہ اگرچہ وہ اس کے ناقد ہیں، لیکن اس وقت ہر قدم پر اس کے ساتھ ہیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ اس بحران کی گھڑی میں ماہرین نے تو اپنا دماغ ٹھنڈا رکھا اور حکومت کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے لیکن باقی سرکاری قوم پرستی کے سیلاب میں بہہ گئے؟

اس کا جواب ایک سوال میں پوشیدہ ہے۔ کچھ دوستوں نے پوچھاکہ آپ ہی بتائیں، بے چاری  حکومت کیا کرتی؟ کچھ تو کرنا ہی  تھا نا؟

کچھ تو کرنا تھا، اس کے دباؤ میں وہ یہ بھول گئے کہ 22 اپریل کے قتل عام کو ٹالا جا سکتا تھا اگر حکومت وہ کرتی جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ کام لوگوں کی حفاظت کے انتظامات کرنا تھا۔ فوجی اور نیم فوجی دستے کشمیر کے چپے چپے میں گشت کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر بائی سرن جیسی جگہ پر ایک بھی سپاہی کیوں نہیں تھا جہاں ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں؟

جو حکومت اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں نبھانے میں اتنی لاپرواہ یا غیر ذمہ دار ہو وہ بحران کے وقت صحیح فیصلے کیسے کر سکتی ہے؟

ہم اس سادہ سی بات کو بھول گئے۔ پھر 6-7 مئی کو ایک غیر معمولی صورتحال پیدا کر دی گئی  اور یہ سوال غائب ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ 26 افراد کو قتل کرنے والے کون تھے؟ کہاں غائب ہو گئے؟ حکومت ان کا سراغ لگانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔

حکومت کے اس اقدام کی حمایت کے لیے ایک عمومی اصول پر زور دیا گیا۔ یعنی پاکستان  ہندوستان میں دہشت گرد بھیجتا ہے۔ لیکن یہ قتل بھی ان میں سے کچھ  نے کیا تھا، کیا اس کے لیے خاطرخواہ ثبوت ہیں؟

جیسے ہی آپ یہ سوال پوچھیں گے قوم پرست آپ پر حملہ کر دیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں حکومت پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گردوں نے ایسا اس لیے کیا ہو کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ کرے اور وہ کمزور ہو جائے۔ کیا یہ دور کی کوڑی ہے؟ جو بھی ہو، ہم نے اس سوال کو کیوں چھوڑ دیا؟

پاکستان نے پوچھا کہ اگر ہندوستان کے پاس اس حملے سے متعلق کوئی معلومات اور ثبوت ہیں تو وہ اسے ظاہر کرے۔ اس نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے اس کو نظر انداز کیا اور اپنے لوگوں کو بتاتی رہی کہ اس کے پاس پاکستان کے جرم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ لیکن وہ ثبوت دینے کو تیار نہیں۔

اس نے یہ کہہ دیا کہ پاکستان خود  دہشت گرد ملک ہے، اس لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے ذہنوں میں پاکستان کا منفی امیج ہے، اس لیے ہم  ہر ایسے واقعے کے لیے اس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

یہ ہماری پرانی عادت ہے۔ ہم نے پلوامہ کا حساب حکومت سے سے نہیں مانگاکیونکہ ہندوستان نے پاکستان کے اندر بالاکوٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس طرح پلوامہ کا بدلہ لے لیا گیا۔ عوام کو اس انتقام کا نشہ دینے کے بعد حکومت پلوامہ حملے کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتی اور ہم  بھی نہیں پوچھتے کہ ہمارےجوانوں کو مارنے والے کون تھے۔

چھ سات مئی کے بعد ہندوستانی ٹی وی اور میڈیا کے شور شرابےسے دور کچھ لوگ بین الاقوامی ردعمل کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ نوٹ کررہے ہیں کہ 22 اپریل کو پہلگام قتل عام کے بعد ہندوستان کے لیےجو بین الاقوامی ہمدردی کا اظہار ہوا تھا، اس نے 6-7 مئی کو ہندوستانی حملے کے بعد محتاط خاموشی کا راستہ اختیار کیا۔ سب نے دیکھا کہ ہندوستانی جہاز بھلے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہوئے ہوں، پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تو ہوئی  ہی تھی۔

پاکستان کا دفاعی اقدام متوقع تھا۔ وہ ہمیں برا لگے، لیکن دنیا نے اسے فطری مانا۔ اس کارروائی میں ہندوستان کے سرحدی علاقوں کو نقصان پہنچا اور کئی ہندوستانی مارے گئے۔ ہندوستانی حکومت نے یہاں بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اگر وہ حملہ کرنے جا رہی تھی تو اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ جوابی حملہ ہو گا اور سرحدی علاقوں میں لوگوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے جانے چاہیے۔ وہ نہیں کیا گیا اور ہندوستانی حکومت نے انہیں پاکستانی حملوں کے سامنے چھوڑ دیا۔

ہندوستان اپنی کارروائی کے لیے نہ صرف اپنے پڑوسیوں، بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کھلی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے وزراء نے تقریباً ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن کسی نے کھل کر پاکستان کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ہندوستان کے اقدام کی حمایت کی۔

ہندوستانی حکومت کے اس جارحانہ اقدام کی حمایت صرف ہندوستانی ٹی وی چینل اور میڈیا کر رہے تھے۔ دراصل وہ ہندوستانی فوج سے کہیں آگے جا کر پاکستان کو تقریباً فتح کر چکا تھا۔

ہندوستان کے ساتھ صرف اسرائیل آیا۔ نہ امریکہ، نہ روس اور نہ ہی کسی یورپی ملک نے ہندوستان کے اس حملے کی حمایت کی۔ بلکہ سب نے مشورہ دیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تنازعات کو جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔ اس طرح ہندوستان اس کارروائی کے بعد دنیا میں اکیلاپڑ گیا۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کی جوابی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔ آخر اسے اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق حاصل تھا۔یہ ہم نہ مانیں، دنیا تویہی  مانتی ہے۔

ہندوستان کہتا رہا کہ اس نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیاتھا،  فوجی ٹھکانوں پر نہیں، لیکن دنیا پاکستان کے اس دعوے سے غیر متفق نہیں تھی کہ ہندوستان نے اس کی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے، اس کی خودمختاری پر حملہ کیا ہے اور پاکستان کو اپنی خودمختاری کی حفاظت کا حق ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کارروائی کو ایسے پیش کیا جیسے ہندوستان جنگ میں داخل ہو گیا ہو۔ اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ کردینا ہے۔ اس کے برعکس فوج کہتی رہی کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یعنی ہندوستان کی حکمران سیاسی جماعت نے ایک بات کہی  تھی اور فوج نے کچھ اور۔

بی جے پی اور میڈیا کے ملک میں جنگی جنون پیدا کرنے کے دو دن بعد جب امریکی صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کو تنازعات سے بچنے کے لیے راضی کر لیا ہے تو سب سکتے میں آ گئے۔ پاکستان نے فوری طور پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا اور جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بھی امریکہ کا نام لیے بغیر اس کی تصدیق کی۔ اس طرح ایک ہی جھٹکے میں ہندوستان کو پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔

ہم خود کو اپنی نگاہ میں اونچا مان لیں، لیکن اب دنیا ہندوستان اور پاکستان ایک ساتھ ہی بول رہی ہے۔ یہ اس تصادم کا ماحصل ہے۔ دنیا میں ہمارا قد بڑھانہیں بلکہ کم ہوگیا ۔ امریکہ بار بار کہہ رہا ہے کہ اس نے دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ وہ ان کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے اس لیے دونوں نے محاذ آرائی ختم کر دی۔ ہندوستان  اس کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

ہندوستانی حکومت اپنے عوام کو بتا رہی ہے کہ ہندوستان کے حملوں سے خوفزدہ پاکستان نے جنگ بندی کی فریاد کی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان بھی روز روز پاکستانی ڈرون حملوں کی لہروں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ شمالی ہندوستان میں لوگوں کا راشٹروادی خون ابل رہا ہو، پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں خوف و ہراس اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ ہندوستان بھی توقف چاہتا تھا۔

لیکن اس وقفے نے قوم پرستوں کو سخت مایوس کیا۔ جنگ کی پیاس نہ بجھ سکی۔ اس مایوسی کا اظہار قوم پرستوں کے ذریعے خارجہ سکریٹری وکرم مصری پر نفرت انگیز آن لائن حملوں سے ہوا۔ گویا انہوں نے خود ہی بریک لینے کا فیصلہ کر لیاہو۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹی کو فحش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی حکومت نے اپنے سکریٹری کے خلاف اس نفرت انگیز مہم پر تنقید نہیں کی۔ آخر وہ اپنے حامیوں کو کچھ کیسے کہہ سکتی تھی؟

پھر وزیراعظم کی انٹری ہوئی۔ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے پاکستانیوں کے خون کے پیاسے اور توقف سے مایوس اپنی عوام کومطمئن کرنے کے لیےوزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ 22 اپریل کے قتل عام کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ جنہوں نے ہماری ماؤں بہنوں کے ماتھے کا سیندور اجاڑا تھا ان سے بدلہ لیا گیا ہے ۔ بار بار سیندور لفظ  پر زور دے کر انہوں نے ہندوستان کی اس کارروائی کو ہندو رنگ  دیا۔

انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ آپریشن سیندورور جاری ہے۔ ہم نے اسے صرف روکا ہے، لیکن اسے ختم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور اب ‘نیو نارمل’ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہندوستان میں کہیں بھی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو آپریشن سیندور دوبارہ شروع ہوگا۔ یہی بات ایک روز قبل فوجی حکام نے بھی کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اب کسی بھی دہشت گردانہ حملے کو ہندوستان کی خودمختاری پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

یہ بہت خطرناک نظریہ ہے۔ اس کا مطلب اب یہ ہے کہ اگر پولیس اپنا کام نہیں کرتی ہے تو فوج اس کی تلافی کرے گی۔ اس سے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی علاقے ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک مستقل جنگ جیسی صورتحال پیدا کر دی  گئی ہے۔ اس کی آڑ میں حکومت اب عوام سے غیر مشروط حمایت کا مطالبہ کرے گی۔ کسی بھی قسم کی تنقید کو ملک دشمن قرار دیا جائے گا۔ اپوزیشن کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حکومت نے خصوصی پارلیامانی اجلاس بلانے کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری عمل ملتوی ہو چکا ہے۔

سوال پوچھنا منع ہے۔ کیونکہ سوالات کے جوابات سے ریاست کی کمزوری آشکار ہوگی اور دشمن اس کا فائدہ اٹھائے گا۔

اپوزیشن بھی قوم پرستی کے طوفان سے ہل گئی اور بار بار حکومت کو 22 اپریل کا بدلہ لینے کے لیے کچھ نہ کرنے کا طعنہ دیا۔ انہوں نے بغیر کوئی  ثبوت مانگے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ ہندوستان کے بہت سے ذی فہم  لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے پاس حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔

اپوزیشن نے حکومت پر نظر رکھنے کا اپنا فرض چھوڑ دیا، لیکن بی جے پی نے ہندوستانی کارروائی کو ہائی جیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ توقف کے بعد، اس نے قوم پرستوں کے جنون کو برقرار رکھنے کے لیے ترنگا یاترا شروع کر دی  ہے۔ اپوزیشن حکومت سے بنیادی اور حقیقی سوالات پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔

جنگ کا خوف پیدا کر کے نئی وفاداریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کو ‘نیشن فرسٹ’ مہم چلانے کو کہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کےتئیں وفاداری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی وزیر اعظم سے اپنی وفاداری کا اظہار کر چکے ہیں۔

سرکاری  دعوؤں کو پرکھنے کے بجائے میڈیا اس کا پرچارک  بن گیا ہے۔ لوگ عوام میں بولنے اور لکھنے سے ڈر رہے ہیں۔ کسی بھی ناقد کو خاموش کرنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ دی وائر، مکتوب میڈیا، آؤٹ لک، چینل 4 پی ایم، ڈاکٹر مادری کاکوٹی، نہا سنگھ راٹھور کو یا تو خاموش کیا گیا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔

حکومت پر تنقید کرنے پر لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ابھی ہریانہ ویمن کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے استاد علی خان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں آزادانہ سوچ کی جگہ مزید محدودہو گئی ہے۔

ہم پاکستان میں تو جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اپنے یہاں اس کی قربانی دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

پہلگام قتل عام اور ہندوستانی حملے اور اس کے بعد کے درمیان جو کچھ ہو رہا تھا اس سے بھی ہمارے سماجی کردار کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ 22 اپریل کے بعد ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور کشمیر کے لوگوں نے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کا سیلاب آ گیا۔ کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے۔ خاص طور پر بنگالی مسلمانوں پر سرکاری حملے شروع ہو گئے۔ انہیں احمد آباد میں گرفتار کیا گیا اور سڑک پر ان کی پریڈ کروائی گئی۔

اس سب کے بارے میں نہ تو حکومت نے کچھ کہا اور نہ ہی میڈیا نے اس پر تنقید کی۔ سکریٹری خارجہ 22 اپریل کے حملہ آوروں کی ہندوستان میں فرقہ وارانہ تصادم پیدا کرنے کی سازش کو ناکام بنانے پر ہندوستانی عوام کی تعریف کررہے تھے۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

ہندوستان  میں بی جے پی کے حامیوں نے مسلم مخالف نفرت پھیلائی اور مسلمانوں پر حملہ کیا۔ کشمیریوں کے خلاف نفرت کی مہم تیز ہو گئی۔ مسلمانوں نے یقیناً اپنا صبر برقرار رکھا اور ہندوتوا کی اس نفرت کو برداشت کیا۔ یونیورسٹیوں نے اپنے اداروں میں ہم آہنگی برقرار رکھنے اور کشمیری طلبہ کو یقین دلانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ قوم پرست پروپیگنڈے میں بھی ضرور شامل ہو گئے۔

بائیس  اپریل کے بعد کے 3 ہفتوں نے ثابت کر دیا کہ ہم بحیثیت معاشرہ بالغ اور ہوش مندنہیں ہیں۔ کوئی بھی غیر معمولی واقعہ ہمیں جڑ سے  ہلا دے  سکتا ہے۔ حکومت کسی بھی صورتحال کو غیر معمولی بنا کر ہماری مکمل وفاداری حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی تنقیدی بصیرت یا صوابدید کو معطل کرنے کے لیے بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں دہشت گردی کے نام پر مسلم دشمنی اور پاکستان مخالف جذبات کی نئی لہر نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے تئیں نفرت ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ہندوستان میں سماجی ہوشمندی  ناممکن ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

ایم پی: کرنل صوفیہ قریشی پر تبصرہ کرنے والے وزیر کے خلاف ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کو کہا

مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت میں وزیر کنور وجئے شاہ نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہندوستان نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے لیے ذمہ دار لوگوں کو ان کی اپنی بہن کا استعمال کرکے سبق سکھایا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔

کنور وجئے شاہ اور کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

کنور وجئے شاہ اور کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجئے شاہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر آپریشن سیندور کے چہروں میں سے ایک  کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

وہیں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہاہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی میں آدی واسی کمیونٹی  کے ایک اہم رہنما اور اکثر تنازعات میں رہنے والے شاہ نے سوموار (12 مئی) کو مہو کے پاس ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہندوستان نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار لوگوں کو ان کی اپنی بہن کو استعمال کرکے سبق سکھایا ہے۔’

وجئے شاہ  ایک وائرل ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں،’جنہوں نے ہماری بیٹیوں کے سیندور اجاڑے،انہی کٹے –پٹے لوگوں کو انہی کی بہن بھیج کر ان کی ایسی تیسی کروائی۔ انہوں نے کپڑے اتار-اتار کر ہندوؤں کو مارا اور مودی جی نے ان کی اپنی بہن کو ایسی-تیسی کرنے کے لیے ہمارے جہاز سے ان کے گھر بھیجا۔’

حالاں کہ، اس پورے ویڈیو میں وزیر شاہ نے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ انہوں  نے یہ باتیں کرنل قریشی کے بارے میں کہی ہیں۔ وزیر نے تقریر کے دوران اپنے ریمارکس کو تین بار دہرایا۔

معاملہ طول پکڑنے کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ ان کی تقریر کو ‘الگ سیاق و سباق ‘ میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ ہماری بہنیں ہیں، اور انہوں نے مسلح افواج کے ساتھ مل کر بڑی طاقت سے انتقام لیا ہے۔’

اپوزیشن نے برخاستگی کا مطالبہ کیا

معلوم ہوکہ کنور وجئے شاہ کے پورے معاملے کو لے کر کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے وزیر کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے والے وجئے شاہ کو فوراًبرخاست کیا جانا چاہیے۔

وہیں، مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر جیتو پٹواری نے بھی اس بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، ‘ہندوستانی فوج نے صرف 25 منٹ میں پاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانے تباہ کر دیے۔ فوج نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی فوج کے 40-45 سے زیادہ لوگ مارے گئے، اور کئی دہشت گرد بھی مارے گئے، لیکن آج وزیر وجئے شاہ نے ان بیٹیوں کے خلاف توہین آمیز باتیں کہیں، جن سے پاکستانی فوج کانپتی تھی۔ اب وزیر اعلیٰ موہن یادو کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ کیا ریاستی حکومت یا پوری کابینہ اس بیان سے متفق ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وجئے شاہ کو ابھی برخاست کر دینا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کے لیے مخصوص ہرسود سیٹ سے لگاتار آٹھ انتخابات جیتنے والے شاہ  فی الحال قبائلی امور، عوامی اثاثہ جات کے انتظام اور بھوپال گیس سانحہ ریلیف اور بحالی کے وزیر ہیں۔

تنازعات میں گھرے رہنے کی ان کی فطرت نے اکثر ان کے سیاسی سفر میں مشکلات پیدا کی ہیں۔

شاہ کی متنازعہ تاریخ

واضح ہو کہ 2013 میں شاہ کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی اہلیہ کے خلاف صنفی امتیازی ریمارکس کی وجہ سے ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ بعد ازاں انہیں پھر سے بحال کر دیا گیا۔

بی جے پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ ہرسود اور آس پاس کے قبائلی علاقوں میں شاہ کی مضبوط گرفت نے انہیں 12 سال قبل تنازعہ پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنے کے باوجود’بچنے’ میں مدد کی۔ بی جے پی لیڈر نے کہا،’انہیں درکنار نہیں کیا جا سکتا اور چوہان دور کے کئی وزراء کو ہٹائے جانے کے باوجود موہن یادو کابینہ میں اہم قلمدان ان کے پاس ہیں۔’

بی جے پی میں شاہ کی اہمیت قبائلی ووٹروں پر پارٹی کی نئے سرے سے توجہ مرکوز کرنے سے پیدا ہوتی ہے، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 21 فیصد ہیں اوراندازہ ہے کہ  ریاست کی 230 اسمبلی سیٹوں میں سے 47 پر انتخابی نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔

سال 2018 میں، بی جے پی نے کانگریس کی 30 کے مقابلے ان میں سے صرف 16 سیٹیں جیتیں، جس کی وجہ سے پارٹی ریاست میں اقتدار سے محروم ہوگئی۔ پانچ سال بعد، بی جے پی کی تعداد بڑھ کر 24 ہو گئی، کیونکہ اس نے اقتدار برقرار رکھا، جس نے  2020 میں کمل ناتھ انتظامیہ کے زوال کے بعد حکومت بنائی۔

معلوم ہو کہ 2018 میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی  پر شاہ کے تبصروں نے انہیں مشکل میں ڈال دیا تھا۔ یہی نہیں، چار سال بعد انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پیش رو پر اپنے ‘تضحیک آمیز تبصروں’ سے بی جے پی کو پھرسے  مشکل میں ڈال دیا تھا۔

بی جے پی لیڈر نے تب کہا تھا، ‘ملک کو آزاد ہوئے 75 سال گزر چکے ہیں، لیکن مودی پہلے لیڈر ہیں جو غریبوں کی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ ان سے پہلے تمام وزرائے اعظم کے پاس گھوڑا، گھڑااور ہاتھی چھاپ تھے۔ ان میں سے کسی نے غریبوں کی پرواہ نہیں کی۔’

بعد میں 2022 میں شاہ نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ان کی عمر 55-56 سال ہے اور وہ شادی شدہ نہیں ہیں۔ میرا بیٹا 28 سال کا ہے اور شادی شدہ ہے۔ ایک خاندان میں، اگر آپ کا بچہ 25 سال کی عمر میں غیر شادی شدہ ہے، تو پڑوسی سوال اٹھاتے ہیں۔’

ہرسود ایم ایل اے نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنے دور میں تنازعہ کھڑا کیا تھا،  جب انہوں نے طلبہ سے ‘جئے ہند’ کہہ کر  حاضری لگانے کو کہا تھا۔ گزشتہ سال جولائی میں شاہ نے قومی ترانہ نہ بجانے والے اسکولوں اور مدارس کی سرکاری امداد میں کٹوتی کرنے کا انتباہ دیا تھا۔

شاہ کو دسمبر 2024 میں وائلڈ لائف  کارکنوں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے خلاف جانچ شروع کی گئی تھی، جب کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئے تھے، جس میں انہیں ستپورہ ٹائیگر ریزرو کے کور زون میں ‘پکنک کا مزہ لیتے ہوئے’ دیکھا گیا تھا۔

اس وقت سامنے آنے والے ویڈیو میں شاہ کو جنگل کے ایک واچ ٹاور کے اوپر کھڑے دو لوگوں کے ساتھ کھانا پکاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ وزیر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا، ‘آج صحیح پکنک ہے۔ شاندار پکنک ہے۔’

Next Article

صحافیوں کے لیے عدالتی عمل ہی سزا، چھوٹے شہروں سے کام کرنے والے زیادہ نشانے پر: رپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں عدالتی عمل ہی سزا بن گیا ہے۔ اکثر معاملات میں تفتیش یا مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے شہروں میں، مالی مشکلات، ذہنی دباؤ اور کیریئر پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان بھر میں صحافیوں کے لیے ‘عدالتی عمل بذات خود ایک سزا بنتا جا رہا ہے’ – یہ بات منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے ٹرائل واچ انیشیٹو، نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی اور کولمبیا لاء اسکول میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں پھنسانے کے عمل میں  ہر مرحلے کو طول دیا جاتا ہے، جس سے انہیں مالی مشکلات، ذہنی پریشانی، خوف اور تشویش سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں شدید خلل پڑتا ہے۔

‘ پریسنگ چارجز: اے اسٹڈی آف کریمینل کیسیزاگینسٹ جرنلسٹس اکراس اسٹیٹ ان نڈیا’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘244 مقدمات میں سے 65 فیصد سے زیادہ 30 اکتوبر 2023 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔’

اس کے علاوہ، 40 فیصد مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل نہیں کی۔ اور صرف 16 مقدمات (6فیصد) میں ہی  کیس کا حتمی تصفیہ ہوا – جس میں سزا یا بری ہونا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کام کرنے والے یا مقامی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بڑے شہروں میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں گرفتار کیے جانے کا امکان زیادہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق، انصاف کے نظام کے بارے میں صحافیوں کا تجربہ بھی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔

‘جہاں بڑے شہروں  میں صحافیوں کی گرفتاریاں کل مقدمات کا 24 فیصد تھیں، وہیں چھوٹے شہروں/قصبوں میں یہ تعداد بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ صحافیوں کو انصاف تک کتنی رسائی حاصل ہے۔’

اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے صحافیوں کو 65 فیصد مقدمات میں گرفتاری سے عبوری راحت ملی، جبکہ چھوٹے شہروں میں صرف 3 فیصد صحافیوں کو یہ راحت مل سکی۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ راحت اکثر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی، جس کی واحد بنچ دہلی میں ہے۔ ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو انگریزی میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘ہمارا ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ اگر ‘عمل ہی سزا ہے’، تو یہ سزا دہلی سے دوری کے تناسب میں بڑھ جاتی ہے۔’

یہ مطالعہ ایک نئے ڈیٹا سیٹ کے تجزیے پر مبنی ہے، جس میں ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 427 صحافیوں کے خلاف 423 مجرمانہ معاملوں کی جانکاری شامل ہے۔ اس میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے 624 مجرمانہ واقعات شامل ہیں۔

رپورٹ کے لیے 48 صحافیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے خلاف مقدمات ان کی صحافت کو شدید طور پرمتاثر کرتے ہیں؛

قابل ذکر ہے کہ 58فیصد صحافیوں نے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بات کہی،56فیصد نے خوف یا تشویش کا اظہار کیا،73فیصد نے کہا کہ اس نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا،اور 56فیصد نے کہا کہ اس سے ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔

اس کے علاوہ صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘میری گرفتاری کے بعد میرا خاندان بہت پریشان ہوا، خاص طور پر میرے چھوٹے بچے، جو بہت فکرمند تھے۔ ایسے معاملات صرف ایک فرد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بالآخر وہ آپ کو گھٹنوں کے بل لے آتے ہیں۔’ ایک صحافی نے محققین کو بتایا۔

ٹرائل واچ کے قانونی ڈائریکٹر اسٹیفن ٹاؤنلی نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک اور حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہی ہیں۔یہ رپورٹ عالمی بحث میں ایک نئے تناظر کا اضافہ کرتی ہے اور ہندوستانی تناظر میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔’

نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر انوپ سریندر ناتھ، جنہوں نے اس مطالعہ کی قیادت کی، انہوں نے کہا،’اس رپورٹ کی آئینی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئین کے ذریعے تحفظ یافتہ پریس کی آزادی کو عام فوجداری قانون اور طریقہ کار کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات عام طور پر مبہم ہوتے ہیں اور آزادی اظہار کے ہندوستان کے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نیا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) جو 2024 میں نافذ ہوا تھا نے بھی ان مبہم قوانین میں کوئی خاص اصلاحات نہیں کی ہیں۔

‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کا امکان اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ،بی این ایس میں ایک نئی غیر واضح شق شامل کی گئی ہے – دفعہ 195(1)(ڈی) – جو ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد، سالمیت یا سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی جھوٹی یا گمراہ کن معلومات’ کو جرم بناتی ہے۔

رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت ایک خطرناک کام ہے۔

‘صرف پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ وہسل بلورز، ‘سٹیزن جرنلسٹ’ اور دیگر بھی ان دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے  کے دائرے میں آتے ہیں۔’

Next Article

ہندوستان-پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔

اسکرین شاٹ

اسکرین شاٹ

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کا پہلا شہید’سچ’ ہوتا ہے، کیونکہ گولہ بارود، ہتھیاروں اور انٹلی جنس کے علاوہ اطلاعاتی نظام بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی میڈیا نے اس ہتھیار کو جس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔

 اطلاعاتی جنگ کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جن سے دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پروفیشنلز ان سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ میں پچھے تیس سالوں سے ہندوستان کے قومی میڈیا کا حصہ رہاہوں۔ چند سال قبل تک اہم نیوز رومز کے انتظام و انصرام کے علاوہ بطور چیف آف بیورو سینکڑوں رپورٹروں کی نگرانی و رہنمائی کا کام کیا ہے۔

 مگر ٹی وی اسکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہاکر جنگی جنون برپا کرایا، سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔

کیا ان اینکروں اور مدیران کو معلوم نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں، جب اطلاعاتی ماحول جغرافیائی سرحدوں اور روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزاد ہوچکا ہے، کیسے ایک سفید جھوٹ کو پروسا جاسکتا ہے۔

ایک صحافی کی سب سے زیادہ اہم متاع اس کی ساکھ ہوتی ہے۔ اگر یہ متاع کھو جائے، تو صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے، گو کہ جسمانی طور پر وہ زندہ ہو۔رپورٹنگ میں غلطیاں تو ہو جاتی ہیں، مگر ان کو تسلیم کرکے ان پر شرمندہ ہونا اور اپنے قارئین یا سامعین سے معافی کا خواستگار ہونا، ایک عظیم صحافی کی نشانیاں ہیں۔

جب ٹی وی اینکر چیخ چیخ کربتا رہے تھے، کہ کراچی کو تباہ کردیا گیاہے، بلکہ نقشہ سے ہی غائب ہو گیا ہے، تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس تو نہیں لیا، مگر جب ایک صحافی برکھا دت، جس کو چند احباب معتبر صحافی سمجھتے ہیں، نے ٹوئٹ کرکے یہی خبر دی، میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں کو فون کیا۔ جب وہ فون اٹھا نہیں رہے تھے، تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے۔

 مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کہ کہ وہ اس وقت نہاری لینے کے لیے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ ہندوستانی بحریہ نے کراچی پورٹ تباہ کر دیا! آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیاہے۔ ہندوستانی فوج نے اسلام آباد پر حملہ کر دیا اور شہباز شریف کو کسی’سیف ہاؤس’میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

زی نیوز نے سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا؛’اسلام آباد پر قبضہ کر لیا گیا!’ جس وقت یہ خبر چلائی گئی، تو پینل پر موجود ماہرین خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ آج تک ٹی وی نے تو حد ہی کر دی۔کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی ویڈیو اسٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔اس کے انگریزی چینل انڈیا ٹوڈے نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔

اے بی پی نیوز  نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر گرفتار ہو چکے ہیں۔ ٹی وی نو  نے بتایا کہ پاکستان کے 25شہر تباہ کر دئے گئے ہیں۔ا یک اور چینل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں فوج گھس گئی ہے اور پینل میں موجود ایک ریٹائرڈ میجر تو خوشی سے چلانے لگا۔

 ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے اس کو معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں اسٹرائیک کور کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ 2001میں آپریشن پراکرم کے  وقت تو دو ہفتے کا وقت لگا تھا۔سبھی اسٹرائیک کورز اور دفاعی کورز کو تو دوماہ کا وقت لگا تھا۔

انڈیا نیوز نے تو نیا آرمی چیف بھی خود ہی تعینات کر دیا۔زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ’پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور ہندوستانی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی پروگرام میں اسکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور ہندوستانی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا۔

 اس غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک اینکر نے تو دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا االفا ظ ادا کیے اور ان کو سور کی اولاد تک کہا۔ جس پر ایرانی سفارت خانہ نے احتجاج بھی درج کر دیا۔

 اس طرح ریپبلک ٹی وی پراینکر ایک پاکستانی مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے،’جنجوعہ، تمہاری فوج پٹ گئی۔ تم بھگوڑے ہو۔’یہی حال دیگر چینلوں پر پاکستانی پینلسٹوں کا ہو رہا تھا۔

یہ پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلارہے تھے۔ اس قدر پاگل پن، جب بریکنگ خبر دی گئی کہ پاکستان کا جہاز راجستھان میں مار گرایا گیا ہے اور پائلٹ زیر حراست ہے۔ کسی نے بطور مذاق ایک وہاٹس اپ گروپ میں لکھا کہ پائلٹ کا نام جہاز الدین ہے۔

 اگلے چند منٹ میں نیوز ٹکر ز پر جہازالدین کا نام آنے لگا۔  جو ٹوئٹر اکاونٹ یا میڈیا کے ادارے صحیح خبریں نشر کر رہے تھے، ان کو بلاک کردیا گیا۔

دی وائر کی ویب سائٹ بلاک کر دی گئی۔اس سلسلے میں آٹھ ہزارسے زائد اکاونٹس تک رسائی بند کر دی گئی۔ سچ بولنے والوں کو صرف اس لیے چپ کرایا جا رہا تھا،تاکہ جھوٹ پھیلانے والی فیکٹریوں کو کہیں سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میڈیا کو قوت ضرب یا فورس ملٹیپلیرکے بطور استعمال کرنے کا پہلا تجربہ ہندوستان میں اکتوبر 1993میں اس وقت کیا گیا، جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ عسکریوں کو حضر ت بل کی درگاہ سے باہر نکالنے کے لیے فوج نے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 32دن جاری رہا۔ اس دوران سرینگر میں 15ویں کور میں اس و قت کے بریگیڈیر جنرل اسٹاف ارجن رے نے میڈیا کو آپریشن ایریا تک رسائی دی۔یہ آپریشن تو دو تین دن میں ختم ہو سکتا تھا۔ مگر اس کو طول دےکر میڈیا کو قوت ضرب کا حصہ بنانے کی ریہر سہل کی گئی۔

 دہلی سے قومی اوربین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو لالاکر درگاہ کے اندر موجود عسکریوں کے انٹرویوز تک کرنے دیے گئے۔ اندر عسکری کمانڈروں کو کھانے بہم کروانے کو بھی میڈیا وار کا حصہ بنایا گیا۔ انہی دنوں فوج نے روزانہ بریفنگ کی روایت بھی شروع کی۔

 یہ تجربہ بعد میں 1999کی کرگل جنگ میں خاصا کام آیا۔ اس وقت ارجن رے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک انفارمیشن کا محکمہ قائم کرکے ان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ وہ انتہائی زیرک، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، میڈیا فرینڈلی جنرل تھے۔

گو کہ کرگل جنگ کے دوران روزانہ بریفنگ کرنل بکرم سنگھ (جو بعد میں آرمی چیف بن گئے) کرتے تھے، مگر ان کی بریفنگ کا انتظام، کرگل محاذ پر صحافیوں کو دورے کروانا،  بیک گراؤنڈ بریفنگ کروانا ا رجن رے اور ان کے دست راست کرنل منوندر سنگھ کے سپرد تھا۔

منوندر انڈین ایکسپریس میں دفاع کے بیٹ کے رپورٹر تھے اور انہی دنوں انہوں نے استعفیٰ دیکر ٹیریٹوریل آرمی جوائن کی تھی۔ ایک روز وہ بطور صحافی ہمارے ساتھ جنگ کور کر رہے تھے، اگلے روز وردی میں بریفنگ کا انتظام کر رہے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لیفٹنٹ جنرل عزیز کی ریکارڈ کردہ بات چیت کو عام کروانے کا مشورہ جنرل رے نے ہی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو دیا تھا۔ جسونت سنگھ منوندر کے والد تھے۔

مگر اس پوری سعی کے باوجود کرگل جنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا مطمئن نہیں تھے۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

 پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ایر ہو چکے تھے۔ اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنی الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔

 ان دنوں ہندوستان سے اپ لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لےکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔

حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہیے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات، خاص طور پر جب کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہوں یا ملک حالت جنگ میں ہو، اس وقت حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔

اس لیے جب بھی کشمیر میں عوام سڑکوں پر ہوتے تھے یا پتھر بازی ہوتی تھی، برکھا دت فوراً پہنچ کر اس کا بیانہ وضع کروانے کا کام کرتی تھی۔ لہذا جو افراد برکھا دت کو قابل اعتماد اور لبرل صحافی کی حیثیت سے جانتے  ہیں ان کو اپنی معلومات درست کرنی چاہیے۔

این ڈی ٹی وی اور اس کے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنوائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیشتر اوقات کیا گیا۔ یعنی یہ چینل برجیش مشرا کی توقعات پر بالکل پورا اترا۔

بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح معتبریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔  2015کے بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے کہنے پر این ڈی ٹی وی کے فنڈز بند کر دیے گئے، کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ فنڈز جو انگریزی چینل کے لیےمخصوص تھے ان کو دیگر شعبوں اور نان نیوز اداروں میں استعمال کیا جارہا تھا۔

 چونکہ موجودہ حکومت کو ادراک ہوا کہ ہندوستان اب ایک ہارڈ اور معاشی پاور بن چکا ہے اس لیے بین الاقوامی بیانیہ کے لیے اس کو کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی اب ضرورت نہیں رہی۔طے ہوا کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی کی جائےگی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔

اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب  غلط معلومات اور گمراہ کن دعوے کے ساتھ کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔جس طرح کی کارکرگی اس وقت ہندوستانی چینلوں نے دکھائی اب کون ان کے بیانہ پر اعتبار کرےگا۔حکومت کی طرف سے بھی کرگل جنگ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔

یہ حال 1999میں پاکستان کا تھا۔لگ رہا تھا کہ اس بار رول تبدیل ہو چکے ہیں۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے تیسرے سینئر ترین افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سیندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الکٹرانک طریقے سے ہندوستانی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمتِ عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ ایک ‘کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ (ملٹی ڈومین آپیزیشنز) پر مبنی ہے۔

جن صحافیوں نے کرگل جنگ اور اس کے بعد آپریشن پراکرم کور کیا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ جب اتنی تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔دونوں مواقع پر مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی میں نہ صرف روزانہ آن ریکارڈ بلکہ اعلیٰ افسران متواتر ایک موقع پر تو خود آرمی چیف کی طرف سے بیک گراؤنڈ بریفنگ دی گئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے جنگ اور نیوز کے دہلی کے بیورو چیف عبدالوحید حسینی بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور تیکھے سوالات بھی پوچھتے تھے۔  ایڈیٹروں اور دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کے سربراہوں کو خود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ بھی بسا اوقات بیک گراؤنڈ بریفنگ کے لیے بلاتے تھے۔

پاکستان نے چونکہ سینئر افسران کو میدان میں اتارا، اس لیے  اگلے روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر پاکستانی موقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی طرف سے کسی سینئر فضائی افسر نے  میڈیا سے بات نہیں کی۔جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟

پاکستانی موقف کو اعتبار حاصل ہوا۔ اب یہ درست ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر جب ہندوستان کی جانب سے کوئی متبادل بیانیہ ہی موجود نہ تھا، تو پھر یکطرفہ کہانی ہی سچ مان لی جاتی ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار اور فورس میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کے مطابق پاکستان کی’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ مودی حکومت کے کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کیے گئے اقدمات کا شاخسانہ ہے۔ ان کے مطابق اس سیاسی قدم نے چین اور پاکستان کی افواج کو ایک تزویراتی اتحاد میں باندھ دیا۔ پہلے بھی تعاون موجود تھا، مگر اس کے بعد یہ رشتہ کہیں زیادہ گہرا اور ادارہ جاتی ہو گیا۔

 صدر شی جن پنگ سمیت تمام اعلیٰ چینی قیادت نے کھلے عام پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حق میں بیانات دیے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی، تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) براہ راست نہ سہی، پس منظر میں ضرور پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اور اس کا اشارہ ہمیں آپریشن سیندور میں ملا۔ا

س وقت بھی پاکستان کے بجائے دراصل چھوٹا چین ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اب اگر آئندہ کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے، تو وہ صرف یک محاذی جنگ نہیں ہوگی۔

ساہنی کا کہنا ہے کہ 2019 سے وہ خبر دار کرتے آئے ہیں کہ ہندوستان کو اب خطرہ اب صرف پاکستان سے نہیں، بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ فوجی اتحاد سے ہے۔جس میں چینی فوج میدانِ جنگ میں تو نظر نہیں آئے گی، مگر اس کی موجودگی ہر مرحلے پر محسوس کی جائے گی۔

ان کے مطابق،’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’کے چھ بنیادی پہلو ہیں؛


لڑاکا طیارے – پاکستان کے موجودہ فرنٹ لائن طیارے، جے-10 اور جے ایف -17، دونوں چینی ساختہ ہیں،

بی وی آر میزائل – پی ایل -15، جو بہت دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے،

 چین سے حاصل کیا گیا ہے، سیٹلائٹ نظام – چین کے بیئی ڈوؤ نیٹ ورک سے استفادہ، جس میں 44 سیٹلائٹس موجود ہیں، پاکستان کو 24 گھنٹے میدانِ جنگ کی نگرانی اور میزائل ہدف بندی کی سہولت دیتا ہے،

  ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (اے ای ڈبلیو اینڈ سی)،پاکستان کے پاس نو نظام موجود ہیں جو دشمن کے اہداف کی شناخت اور نگرانی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں,

الکٹرانک وار فیئر – 2019 کے بالا کوٹ حملے میں پاکستان نے نہ صرف ہندوستانی کمیونی کیشن جام کیا  تھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔اس بار بھی اورنگزیب نے ہندوستانی پائلٹوں کی پرواز کے دوران گفتگو کی ایک ویڈیو میڈیا کو سنائی، جس نے اُن کے دعوے کو مزید مستند بنایا اور

  ڈیٹا لنکنگ – تمام یونٹس، چاہے وہ سیٹلائٹ ہوں، زمینی افواج یا فضائی یونٹس، سب ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی وقت میں جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پاس لنک -17 نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا، جسے اب مزید اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

ان میں سب سے اہم دو صلاحیتیں ڈیٹا لنکنگ اور الکٹرانک وار فیئر ہیں، جو پائلٹ کو میدانِ جنگ کا مکمل 360 ڈگری منظر فراہم کراتی ہیں۔ اس نظام کو ’کل چین‘ کہا جاتا ہے—یعنی خبردار ہونا، ہدف تلاش کرنا، اس پر نظر رکھنا، اور پھر اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا۔


اگر یہ تمام عناصر مربوط انداز میں کام کریں تو دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔2020 کے بعد سے پاکستانی فضائیہ اور چینی فضائیہ نے اس حکمت عملی پر مشترکہ مشقیں شروع کی ہیں، جنہیں’شاہین ایکسرسائز’ کہا جاتا ہے۔ یہ مشقیں 2012 سے جاری تھیں، لیکن پہلے ان کا محور صرف ڈاگ فائٹ اور الکٹرانک وار فیئر ہوتا تھا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ میدانِ جنگ میں کون پہلے کل- چین مکمل کرتا ہے۔

اور یہ ہم آہنگی 2019 کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔اسی طرح یہ آنے والے خصوصاً کروز میزائل کے سسٹم میں داخل ہوکر اس میں غلط معلومات درج کرواکر اس کو بھٹکاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کا ایک برہموس کروز میزائل اپنے ہدف کے بجائے پاکستان کی سرحد کو کراس کرکے افغانستان کے کسی علاقے میں گرا۔

ساہنی کے مطابق، آپریشن سیندور مکمل جنگ کے بجائے ایک بحران تھا۔ لیکن بحران اور جنگ کے درمیان قبل از جنگ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ  اپنے جغرافیائی خدوخال  ہولڈنگ کی وجہ سے اسٹرائیک فورسز کو 48 سے 72 گھنٹوں میں متحرک کر سکتا ہے۔

جبکہ ہندوستانی فوج چونکہ بہت بڑی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اس میں وقت لگتا ہے۔ جیسے 2001–2002 میں آپریشن پراکرم کے دوران اسٹرائیک کور کو متھرا، بھوپال اور آگرہ سے سرحد تک پہنچانے میں دو ہفتے لگے تھے۔ اگرچہ اب بہتری آئی ہے، مگر پاکستان کے مقابلے میں اب بھی سست ہے۔

 مودی حکومت کے 11 سالوں میں تین تھرش ہولڈ قائم ہوئے ہیں۔ پہلا قدم تھا 2019 کا بالا کوٹ حملہ—جب پہلی بار ہندوستانی فضائیہ نے کسی بحران میں کارروائی کی، یہ ایک نئی نظیر تھی، دوسرا قدم تھا آپریشن سیندور—اس بار پاکستان مکمل طور پر تیار تھا، فضائی حملے کا انتظار کر رہا تھا،  تیسرا قدم  اسی آپریشن کے دوران ڈرون اور میزائلوں کا استعمال، جو اب نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ بین الاقوامی سرحد پر بھی داغے جاسکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ، ہندوستانی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والی سکیورٹی میٹنگ کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آئندہ کسی بھی دہشت گرد حملے کو ‘جنگ کا اعلان’ تصور کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر یا کسی اور علاقے میں کوئی حملہ ہوتا ہے، تو براہِ راست جنگ ہوسکتی ہے یعنی جنگ کرنے کا تھرش ہولڈ مزید گر گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورتحال  پیدا ہو گئی ہے جہاں جنگ بندی اور جنگ کرنے میں میں فرق مٹ چکا ہے۔

ہندوستانی فوج کو ہر وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔یعنی مودی حکومت کے دور میں ہندوستان کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اب دشمن صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور پاکستان کی متحدہ فوجی قوت ہے۔جنگ کا دہانہ یعنی تھرش ہولڈ نیچے آ چکا ہے۔یعنی دو بلکہ چین سمیت تین جوہری طاقتوں کی حامل قوتوں کے درمیان جنگ آسانی سے چھڑ سکتی ہے۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا واقعی مودی کے اس قدم سے ہندوستان زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اور مسلسل تیاری کی حالت میں رہنے سے فوج کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ سیاسی مسائل کو باہمی طور پر حل کیاجاتا، تاکہ پوری توجہ معاشی ترقی اور عوام کی بہبودی کی طرف دی جاتی۔