
دی وائر ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کو صحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

(تصویر: دی وائر)
دی وائر کے مدیران کا بیان
جمعہ کی رات، جب ہندوستان میں سرکار کےحکم پر دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ کو بلاک کیےہوئے 12-15 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا- اور جب ہم نے وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کو اس کی وجوہات کے بارے میں جاننے کے لیے باضابطہ طور پر خط لکھا تو – ہمیں وزارت سے ایک تحریری ‘وضاحت’ موصول ہوئی۔
ہمیں یہ ای میل 9 مئی کو رات 9:41 پر موصول ہوا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دی وائر ڈاٹ اِن کو اس یو آر ایل سےمتعلق موصولہ بلاکنگ ریکویسٹ کی بنیاد پر بلاک کیا گیا، جو اس سے شائع کی گئی تھی؛
https://m.thewire.in/article/security/सीएनएन-french-official-iaf-rafale-downed-by-pakistan
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایچ ٹی ٹی پی ایس ویب سائٹس کے معاملے میں صرف پورے ڈومین کو ہی تکنیکی طور پر بلاک کیا جا سکتا ہے، کسی ایک ذیلی صفحہ کو نہیں۔ اس لیے دی وائر سے درخواست کی گئی کہ وہ اس خبر کے حوالے سے مناسب قدم اٹھائے اور وزارت کو مطلع کرے تاکہ ویب سائٹ کو اَن بلاک کیا جا سکے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دی وائر کو اپنا’تبصرہ/ وضاحت’ پیش کرنے کا موقع اس انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کے سامنے دیا جائے گا، جو ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی درخواست پر غور کرنے کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز، 2021 کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔
دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے 9 مئی کو رات 10:40 بجے وزارت اطلاعات و نشریات کو مطلع کیا کہ ویب سائٹ کو پھر سے چالو کرنے کی ترجیحات کے تحت انہوں نے اس خبر/ویب پیج کو پبلک ڈومین سے ہٹا دیا ہے۔
انہوں نے وزارت کو ایک ای میل بھیجا ہے، جو اس طرح ہے؛
جناب،
ہم نے اپنی ویب سائٹ بلاک کیے جانے کے بارے میں جانکاری مانگی تھیں، ہمیں آپ کا جواب مل گیاہے۔
مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آئی ٹی قانون کے تحت، آپ کی وزارت کو پہلے اس خبرکے حوالے سے نوٹس بھیجنا چاہیے تھا، پھر دی وائر کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دینا چاہیے تھا، اور اگر انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی اس خبر کو ہٹانے کی سفارش کرتی- تو آپ ویب سائٹ بلاک کرنے کا حتمی قدم اٹھا سکتے تھے، وہ بھی اس وقت، جب ہم تعاون نہ کرتے۔
حتیٰ کہ ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھی پہلا قدم متعلقہ فریق کو ہدایات دینا ہوتا ہے۔ وزارت نے سات گھنٹے تک ہمارے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جس خبر کو لے کر تنازعہ ہے وہ 8 مئی کو صبح 3:47 پر شائع ہوئی تھی، اور اس میں دی گئی جانکاری کم از کم 12 گھنٹے پہلے سی این این نے شائع کی تھی۔ سی این این کی خبر اب بھی ہندوستان میں دستیاب ہیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حکومت کیوں ہماری خبر کو ہٹانا چاہتی ہے اور اس کو شائع ہونے کے 24 گھنٹے بعداس قدر ہنگامی صورتحال کے طور پر کیوں لیا گیا، ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور ہماری پوری ویب سائٹ کو بلاک کر دیا گیا۔
چونکہ ہماری ترجیح دی وائر کو اَن بلاک کرانا ہے، اس لیے ہمارے پاس اس غیر معقول مطالبے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا – حالانکہ ہم ہندوستانی آئین کے تحت اپنے حقوق محفوظ رکھتے ہیں اور مناسب قانونی راستہ اختیار کریں گے۔
آپ اس ای میل کو اس خبر کو ہٹائے جانے کے حوالے سے ایک باضابطہ اطلاع مان سکتے ہیں۔
آج سپریم کورٹ نے بھی پریس اور عوامی بحث کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ اور میڈیا جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔
میں کل انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کے سامنے دی وائر کا موقف پیش کرنے کی امید کرتا ہوں ۔
ہمارے جواب کے کچھ ہی دیر بعد وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام نے ہمیں بتایا کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ویب سائٹ کو ان بلاک کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ لیکن حکم نامہ جاری ہونے کے 12 گھنٹے سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی دی وائر کی ویب سائٹ ملک کے کئی حصوں میں مختلف نیٹ ورک پر نہیں کھل رہی تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت نے کسی خبر پرخصوصی طور پرہم سے کارروائی کرنے کے لیے کہنے سے پہلے ہی دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کو فوری حل مانتے ہوئےاسے بلاک کرنے کا فیصلہ لے لیا۔
ہم اس خبر کو ہٹانے کے حکم اور پوری ویب سائٹ کو ایک دن تک بلاک کرنے کے فیصلے کے حوالے سے انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی کی بیٹھک میں اپنی بات رکھیں گے۔ یہ خبر سی این این کی ایک رپورٹ پر مبنی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل طیارے کو مار گرایا ہے۔
غورطلب ہے کہ سی این این کی اصل رپورٹ اور دیگر بین الاقوامی میڈیا کی وہی خبریں اب بھی ہندوستان میں پوری طرح دستیاب ہیں، اور ان کی ویب سائٹس کو دی وائر کی طرح بلاک نہیں کیا گیا ہے۔
دی وائر ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کوصحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔