کووڈ-19معاملوں میں معمولی اضافہ، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں: ماہرین

ہانگ کانگ اور سنگاپور میں کووڈ-19 کے معاملات میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے،لیکن جے این.1ویرینٹ کی وجہ سے شدید بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت نے بھی کہا ہے کہ ملک میں حالات معمول پر ہیں، زیادہ تر معاملے ہلکے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑ رہی  ہے۔

ہانگ کانگ اور سنگاپور میں کووڈ-19 کے معاملات میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے،لیکن جے این.1ویرینٹ کی وجہ سے شدید بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت نے بھی کہا ہے کہ ملک میں حالات معمول پر ہیں، زیادہ تر معاملے ہلکے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑ رہی  ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہانگ کانگ اور سنگاپور میں حالیہ دنوں میں کووڈ 19 کے معاملوں میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، لیکن ہندوستانی حکومت نے واضح کیا ہے کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہانگ کانگ حکومت کی آفیشیل اپڈیٹ کے مطابق، سال کے 19ویں ہفتے (4-10 مئی) میں کووڈ-19 کے 1042 جبکہ چھلے ہفتے یہ معاملے972 تھے۔

معاملوں کی تعداد کے علاوہ، کووڈ-19 کی صورتحال کو سمجھنے کا ایک اور طریقہ ہے ‘سیویج سرولانس’۔ یہ فی کس وائرل لوڈ کی عکاسی کرتا ہے، اور اس لیے اسے درج کیے گئے معاملوں کے مقابلےزیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ کئی ایسے معاملے ہیں جو سامنے نہیں آ پاتے۔

ہانگ کانگ کی حکومت کے مطابق، 19ویں ہفتے میں’سیویج سرولانس’ کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، سارس سی او وی-2 (جو وائرس کووڈ-19 کا سبب بنتا ہے) کی سات دن کی اوسط مقدارتقریباً 710000 فی لیٹر تھی۔ پچھلے ہفتے یہ 690000 روپے فی لیٹر تھی۔

سنگاپور میں کووڈ 19 کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن اس اضافے کو تشویشناک نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ سنگاپور حکومت کے بیان کے مطابق، 27 اپریل سے 3 مئی 2025 کے درمیان کووڈ 19 کے معاملے کی تعداد بڑھ کر 14200 ہوگئی جبکہ پچھلے ہفتے یہ تعداد 11100 تھی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اسپتال میں داخل مریضوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے – 102 سے 133 تک – لیکن آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد کم ہوئی۔ پہلے روزانہ اوسطاً تین مریض آئی سی یو میں داخل ہوتے تھے، اب دو ہو ر ہے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسز کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے، لیکن بیماری کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔

نہ ہی سنگاپور اور نہ ہی ہانگ کانگ نے یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے اسپتال بھرے ہوئے ہیں، جیسا کہ 2021 میں ڈیلٹا لہر کے دوران ہوا تھا۔

اہم ویرینٹ اور معاملوں  میں اضافے کی وجوہات

اس وقت دونوں ممالک (سنگاپور اور ہانگ کانگ) میں پایا جانے والااہم کووڈ-19 ویرینٹ جے این.1 ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، فی الحال تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے، ‘دستیاب معلومات کی بنیاد پر جے این.1سے صحت کا خطرہ اس وقت عالمی سطح پر کم سمجھا جاتا ہے۔’

یہ ویرینٹ عالمی ادارہ صحت کے تمام خطوں میں پایا گیا ہے—جیسے مغربی پیسفک علاقہ، جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ، یورپی علاقہ اور امریکہ۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس ویرینٹ کو پہلے کے ویرینٹ کے مقابلے برتری حاصل ہے، یعنی یہ اپنی دوسری شکلوں کے مقابلے میں قدرے تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم، اس کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

تاہم، وائرس کو ختم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت (نیوٹرلائزیشن کی صلاحیت) کے لحاظ سے جے این.1 اور اس سے پہلے کے ویرینٹ میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ یعنی، مدافعتی نظام جے این.1کے ساتھ اسی طرح نمٹ سکتا ہے جیسا کہ اس نے پہلے کے ویرینٹ کے ساتھ کیا تھا۔

کسی بھی ویرینٹ سے ہونے والی بیماری کی شدت سب سے اہم اشارہ  ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، جے این.1 کی وجہ سے ہونے والی سنگین بیماری کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ اگر بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے، تو یہ ہسپتال میں داخل ہونے، آئی سی یو میں داخلے اور بعض صورتوں میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ بوجھ کا باعث بن سکتی ہے۔

معاملوں میں شدت  اب کوئی حیران کن بات نہیں ہے

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کووڈ-19 کے معاملات میں چھوٹے اضافے اب حیران کن نہیں ہیں۔ کووڈ-19 وائرس اب اینڈمک ہو چکا ہے، یعنی اب یہ صحت عامہ کی ایمرجنسی نہیں ہے۔

ایک خاص مدت کے بعد، تمام وائرس اینڈمک بن جاتے ہیں اور آبادی میں کسی نہ کسی شکل میں بیماری پھیلاتے رہتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وائرس کی وجہ سے بیماری کی شدت بڑھ جائے یا کیسز کی تعداد اچانک اور بغیر کسی واضح وجہ کے بڑھ جائے یعنی عام توقعات کے برعکس۔

کووڈ-19 بھی وائرس کے حوالے سے اس سائنسی سمجھ سے مختلف نہیں ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کووڈ-19 وائرس کی نوعیت مسلسل بدلتی رہتی ہے، جو شروع سے دیکھی جا رہی ہے۔ لہٰذا، کسی بھی وقت اس طرح کی ایک قسم ابھر سکتی ہے جو معاملات میں معمولی اضافے (پیک) کا سبب بن سکتی ہے۔

ہندوستانی حکومت کیا کہتی ہے؟

مرکزی وزارت صحت نے 19 مئی کو کہا، ’19 مئی 2025 تک، ہندوستان میں فعال کووڈ-19 کیسوں کی تعداد 257 ہے، جو کہ ملک کی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے بہت کم ہے۔’

‘تقریباً یہ تمام معاملات بغیر جوکھم والے ہیں، اس لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔’ وزارت نے کہا۔

ہندوستان میں کووڈ 19 کے مقامی اینڈمک ہونے کے بعد، جانچ میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ٹیسٹنگ میں کمی آئی ہے – یہ بات  عالمی ادارہ صحت ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہے۔ لہذا، سرکاری اعداد و شمار معاملوں کی تعداد کے لحاظ سے حقیقی تصویر نہیں دکھا سکتے ہیں۔

سرولانس، جووائرس کے پھیلاؤ کی موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتی  ہے، ہندوستان میں صرف چند اداروں کے ذریعے ہی کچھ جگہوں پر کی جا رہی ہے۔ سرکاری  بیان میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہندوستان میں فی الحال کون سا ویرینٹ سب سے زیادہ پایا جا رہا ہے۔

تاہم، حکومت کا موقف واضح کرتا ہے کہ چونکہ زیادہ تر رپورٹ شدہ کیسز میں ہلکی علامات ہوتی ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)