کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کے ڈائریکٹر وینکٹیش نایک کو آر ٹی آئی سے موصولہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل ای وی ایم کی بیلٹ یونٹ، کنٹرول یونٹ اور وی وی پی اے ٹی میں خرابی کی رپورٹ کئی ریاستیں کر رہی تھیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ای وی ایم بنانے والوں سے خرابی کی بلند شرح کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے رابطہ کیا تھا۔
نئی دہلی: ایک آر ٹی آئی کارکن کو موصولہ دستاویزوں سےپتہ چلا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل فرسٹ لیول کی جانچ کے دوران الکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے حصوں کے کام نہ کرنے کی نسبتاً زیادہ شرح پر الیکشن کمیشن کے اندر خدشات تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس سلسلے میں فرسٹ لیول چیکنگ (ایف ایل سی)ای وی ایم کی بیلٹ یونٹ (بی یو) اور کنٹرول یونٹ (سی یو) کے ساتھ ساتھ وی وی پی اے ٹی کی ابتدائی تکنیکی جانچ شامل ہے۔ یہ عمل لوک سبھا انتخابات سے چھ ماہ قبل ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر (ڈی ای او) کی نگرانی میں انجینئروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
اگر ایف ایل سی کے دوران ای وی ایم کا کوئی حصہ خراب ہو جاتا ہے تو اسے مینوفیکچررز، بھارت الکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) یا الکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کو مرمت کے لیے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
گزشتہ پارلیامانی انتخابات کے دوران ووٹنگ کے عمل کے دوران ای وی ایم میں خرابی کے واقعات نے سیاسی ہلچل مچا دی تھی۔
اب، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کے ڈائریکٹر وینکٹیش نایک کو آر ٹی آئی کے تحت موصولہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایف ایل سی کے عمل کے دوران ریاستوں سے وی وی پی اے ٹی اور کنٹرول یونٹ کی خرابی کی نسبتاً زیادہ شرح کی رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں۔حتیٰ کہ امیدواروں کے نام اور پولنگ کی تاریخوں کے قریب ان کے انتخابی نشانات کو مشینوں میں ڈالے جانے تک مسئلہ برقرار رہا۔
ناگالینڈ، اروناچل پردیش، آندھرا پردیش، بہار، کرناٹک اور کیرالہ سمیت کئی ریاستوں کے چیف الیکٹورل آفیسرز (سی ای او) کے دفاتر کے عہدیداروں نے زیادہ ناکامی کی شرح کی وجہ سے مزید مشینوں کا مطالبہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔
اگرچہ الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر کسی طے شدہ ری جیکشن ریٹ کو ‘بلند یا قابل قبول’ قرار دیتے ہوئے کسی کٹ آف کی حد کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق بیلٹ یونٹ، کنٹرول یونٹ اور وی وی پی اے ٹی کے لیے 5 فیصد تک مسترد ہونے کی شرح (خرابی) تسلیم کی جاتی ہے۔ تاہم، کچھ ریاستیں ایف ایل سی کے دوران 30 فیصد تک کی شرحیں بتا رہی تھیں۔
مثال کے طور پر، اتراکھنڈ کے اسسٹنٹ سی ای او سے 1 نومبر 2018 کو موصول ہونے والی فرسٹ لیول (ایف ایل سی) چیکنگ کی اسٹیٹس رپورٹ میں کنٹرول یونٹ کے مسترد ہونے کی شرح (خرابی) 38 فیصد دکھائی گئی تھی۔
غورطلب ہے کہ 21 دسمبر 2018 کو دہلی کے سی ای او کے دفتر نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا، جس میں جنوبی، شمال مغربی اور مشرقی اضلاع میں منعقدہ ایف ایل سی کے دوران وی وی پی اے ٹی میں خرابی کی بلند شرح کو نشان زد کیا گیا تھا اور ان کی جگہ اضافی مشینوں کی مانگ کی تھی۔
اسی طرح، انڈمان کے سی ای او کے دفتر نے وی وی پی اے ٹی کے لیے اسی طرح کی درخواست کے ساتھ مارچ 2019 کے پہلے ہفتے میں الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ تربیت اور بیداری کے لیے استعمال کیے جانے والے آدھے سے زیادہ وی وی پی اے ٹی میں خرابی آ گئی تھی۔
کرناٹک کے سی ای او نے 11 اپریل 2019 کو لوک سبھا انتخابات کے کافی نزدیک الیکشن کمیشن سے رابطہ کیااور بتایا کہ پہلے درجے کی تکنیکی جانچ میں کامیاب ہونے کے بعد بھی 12 فیصد وی وی پی اے ٹی ناکام ہو گئے تھے۔
کیرالہ کے سی ای او کے دفتر نے بھی کنور ضلع کے لیے مزید کنٹرول یونٹ کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ 14 فیصد کنٹرول یونٹ خراب ہو چکے تھے۔
درحقیقت، فائل نوٹنگ میں کئی عہدیداروں نے ناکامی کی بلند شرح پر تشویش ظاہر کی تھی، جس کے باعث وجوہات کی نشاندہی کے لیے دو ای وی ایم مینوفیکچررز سے رپورٹ طلب کی گئی تھی۔
لوک سبھا انتخابات کے تقریباً دو سال بعد تک یہ ایشو بنا رہا، جس کے باعث 2020 میں بہار میں اور 2021 میں پنجاب، اتراکھنڈ اور اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کے دوران افسران نے فرسٹ لیول چیکنگ کے دوران اسی طرح کے مسائل کی شکایت کی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ نایک کے ذریعے جانچے گئے ایک خط کے مطابق، 13 اکتوبر 2021 کو الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے یوپی، اتراکھنڈ اور پنجاب میں اسمبلی انتخابات سے قبل منعقد ہونے والے ایف ایل سی کے دوران وی وی پی اے ٹی اور کنٹرول یونٹ کے مسترد ہونے کی بلند شرح کو نشان زد کیا تھا۔
اخبار نے بتایا ہے کہ بھارت الکٹرانکس لمیٹڈ یا الکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ نے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اخبار کے سوالات کا براہ راست جواب نہیں دیا ہے، بلکہ ایف ایلسی کے عمل پر کچھ نئے سوالات کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر ای وی ایم سے متعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات کی فہرست کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نےاے اے کیو والے حصے میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مسترد ہونے کی بلند شرح کے ‘دعوؤں’ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہےکہ ہر الیکشن کے بعد غیر فعال ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کا تجزیہ کیا جاتا ہے، تاکہ ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے اور حقیقی انتخابات کے دوران تبدیلی کی شرح کو کم کیا جا سکے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد تکنیکی ماہرین کی کمیٹی (ٹی ای سی) نے بھارت الکٹرانکس لمیٹڈ یا الکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا کے ساتھ ایک تفصیلی تجزیہ کیا۔کووڈ 19 کی وجہ سے تجزیے میں تاخیر ہوئی تھی۔
تجزیے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وی وی پی اے ٹی کی تبدیلی کی شرح کو کم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ووٹروں کو تکلیف نہ ہو، کچھ اصلاحی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔