لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ایک سال سے تشدد سے دوچار منی پور کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا کہ اس بات پر کون دھیان دے گا کہ صوبہ آج بھی جل رہا ہے۔
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے لوک سبھا کے نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انتخابات، سیاست اور سیاسی جماعتوں کے رویے پر بات کی۔ انہوں نے ملک کے بھائی چارے اور ذات پات کے نظام سمیت منی پور کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، موہن بھاگوت نے سوموار (10 جون) کو آر ایس ایس کے کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ‘سچے سیوک’ میں کوئی گھمنڈ نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر کام کرتا ہے۔ جو عزت نفس کی پیروی کرتے ہوئے گھمنڈ کے بغیر کام کرتا ہے، وہی حقیقی معنوں میں سیوک کہلانے کا حق رکھتا ہے۔
حال ہی میں ختم ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران انتخابی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ اس انتخابی مہم کے دوران ‘اخلاقی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔’
انتہائی سخت تبصرہ کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ یہ الیکشن ایسے لڑا گیا جیسے کوئی جنگ ہو۔ جس طرح سے معاملات ہوئے ہیں، جس طرح سے دونوں فریقوں نے کمر کس کر حملہ کیا ہے، اس سے تفرقہ پیدا ہوگا، معاشرتی اور ذہنی دراڑیں بڑھیں گی۔ اس انتخابی مہم میں سنگھ کو بغیر کسی وجہ کے گھسیٹا گیا اور جھوٹ پھیلایا گیا۔
चुनाव लोकतंत्र में प्रति पांच वर्ष होने वाली घटना है।
हम अपना कर्तव्य करते रहते हैं लोकमत परिष्कार का। प्रतिवर्ष करते हैं, प्रति चुनाव में करते हैं, इस बार भी किया है। – सरसंघचालक #RSSVarg_2 pic.twitter.com/kQOov3UdWX— RSS (@RSSorg) June 10, 2024
اختلاف رائے کو مخالفت کہنا بند کیجیے
بھاگوت نے کہا، ‘جب انتخابات ہوتے ہیں تو مقابلہ ضروری ہوتا ہے، اس دوران دوسروں کو پیچھے دھکیلنا پڑتا ہے، لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ کیوں چنے کیے جاتے ہیں؟ پارلیامنٹ میں جانے کے لیے، مختلف معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے۔ ہماری روایت اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘پارلیامنٹ میں دو پارٹیاں کیوں ہوتی ہیں؟ تاکہ کسی بھی مسئلے کے دونوں پہلو کو سامنے رکھاجا سکے۔ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اسی طرح ہر مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اگر ایک پارٹی ایک پہلو پر توجہ دیتی ہے تو اپوزیشن پارٹی کو دوسرے پہلو پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ ہم صحیح فیصلے تک پہنچ سکیں۔’
اختلاف کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ اگر کوئی آپ سے متفق نہیں ہے تو اسے اپنا مخالف کہنا بند کر دیجیے۔ مخالف کے بجائے حزب اختلاف کہیے۔ ایک پہلو ہو گا اور اس پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیےحزب اختلاف ہوگا۔ اس طرح کے انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ پارلیامنٹ میں کسی بھی سوال پر دونوں پہلو سامنے آئیں۔
بابا صاحب کا ذکر کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے مزید کہا، ‘ڈاکٹر۔ امبیڈکر نے کہا تھا کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے روحانی طور پر کایا کلپ ہونا ضروری ہے۔ ہزاروں سالوں کے امتیازی سلوک کے نتیجے میں تقسیم ہوا، یہاں تک کہ کسی طرح کا غصہ بھی۔ ہم نے معیشت، دفاع، کھیل، ثقافت، ٹکنالوجی جیسے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے تمام مسائل پر قابو پا لیا ہے۔ پوری دنیا کسی نہ کسی طریقے سےمسائل سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے اور صرف ہندوستان ہی اس کا حل فراہم کر سکتا ہے۔’
’سماجی تبدیلی سے ہی نظام بدلتا ہے‘
انتخابی نتائج کے بارے میں سنگھ سربراہ نے کہا، ‘لوگوں نے اپنا مینڈیٹ دیا ہے۔ سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیسا ہو گا؟ کب ہو گا؟ سنگھ ان سب میں نہیں جاتا۔ کیونکہ نظام سماجی تبدیلی سے ہی بدلتا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘بھگوان نے سب کو بنایا ہے… بھگوان کی بنائی ہوئی کائنات کے تئیں ہمارے جذبات کیا ہونے چاہیے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ وقت کے بہاؤ میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے ان کو سوچ سمجھ کر دور کر کے یہ جانتے ہوئے کہ رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ سب کچھ مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہمیں اس ملک کو اپنا سمجھ کر اس کے ساتھ عقیدت کا رشتہ قائم کرنا چاہیے۔ اس ملک کے لوگ بھائی بھائی ہیں۔ ہمیں اس چیز کو اپنی سوچ میں اور عمل میں لانا ہوگا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کے تئیں ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ جب ہر کام معاشرے کے لیے ہے تو کوئی اونچا، کوئی نیچا یا کوئی مختلف کیسے ہو گیا؟ بھگوان نے ہمیشہ کہا ہے کہ میرے لیے سب ایک ہیں، ان میں کوئی ذات پات نہیں ہے، لیکن پنڈتوں نے یہ نظام بنایا، جو غلط تھا۔
एक साल से मणिपुर शांति की राह देख रहा है। इससे पहले 10 साल शांत रहा। पुराना गन कल्चर समाप्त हो गया, ऐसा लगा। और अचानक जो कलह वहां पर उपजा या उपजाया गया, उसकी आग में अभी तक जल रहा है, त्राहि-त्राहि कर रहा है। इस पर कौन ध्यान देगा? प्राथमिकता देकर उसका विचार करना यह कर्तव्य है। -… pic.twitter.com/9VHzw8h5jE
— RSS (@RSSorg) June 10, 2024
منی پور اب بھی جل رہا ہے،اس پر کون دھیان دے گا؟
منی پور تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سنگھ کے سربراہ نے کہا، ‘منی پور پچھلے ایک سال سے امن کی راہ دیکھ رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے ریاست میں امن و امان تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پرانا گن کلچر ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ دوبارہ شروع ہوگیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ منی پور ابھی تک جل رہا ہے۔ اس پر کون دھیان دے گا؟ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہمارا فرض ہے۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل 28 اپریل کو موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔ ایک پروگرام کے دوران انہوں نے ریزرویشن سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اپنے ایک مبینہ ویڈیو کوفرضی قرار دیا تھا۔
بھاگوت نے کہا تھا کہ اس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس ریزرویشن کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو میں انہیں میٹنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔
آر ایس ایس سربراہ نے مزید کہا کہ جب سے ریزرویشن وجود میں آیا ہے، سنگھ نے آئین کے مطابق ریزرویشن کی مکمل حمایت کی ہے۔ تاہم، بھاگوت سمیت سنگھ کے کئی عہدیدار ریزرویشن سسٹم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔