مدھیہ پردیش کے ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ نے تمام سرکاری اور نجی کالج کے پرنسپل کو لکھے ایک خط میں اداروں کو 88 کتابوں کا سیٹ خریدنے کی ہدایت دی ہے۔ اس فہرست میں سریش سونی، دیناناتھ بترا، اتل کوٹھاری، دیویندر راؤ دیشمکھ اور سندیپ واسلیکر جیسے آر ایس ایس کے بڑے لیڈروں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل ہیں۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش حکومت نے ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے ریاست بھر کے کالج کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنماؤں کی لکھی ہوئی کتابوں کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کو لازمی قرار دیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ کی جانب سے جاری اس حکم نامے نے سیاسی تنازع کو جنم دے دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس قدم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے تفرقہ انگیز نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش قرار دیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ کے سینئر افسر ڈاکٹر دھیریندر شکلا نے تمام سرکاری اور نجی کالج کے پرنسپل کو لکھے گئے خط میں اداروں کو 88 کتابوں کا سیٹ خریدنے کی ہدایت کی ہے۔ اس فہرست میں سریش سونی، دینا ناتھ بترا، ڈی اتل کوٹھاری، دیویندر راؤ دیشمکھ اور سندیپ واسلیکر جیسے آر ایس ایس کے اہم لیڈروں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل ہیں، یہ سبھی آر ایس ایس کے تعلیمی ونگ ودیا بھارتی سے وابستہ ہیں۔
ہائر ایجوکیشن ڈیارٹمنٹ نے کالجوں سے کہا ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے یہ کتابیں خریدیں۔
یہ ہدایت قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی ) 2020 کے مطابق ہے، جو تعلیمی نصاب میں ہندوستانی علمی روایات کو شامل کرنے کی وکالت کرتی ہے۔ محکمہ کے خط میں ان کتابوں کو مختلف گریجویشن کورسز میں شامل کرنے کے لیے ہر کالج میں ‘انڈین نالج ٹریڈیشن سیل’ کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 88 کتابوں کی فہرست میں خاص طور پر ودیا بھارتی کے سابق جنرل سکریٹری اور آر ایس ایس کے تعلیمی اقدامات میں اہم شخصیت دینا ناتھ بترا کی لکھی ہوئی 14 کتابوں کو شامل کرنے پر بحث چھڑ گئی ہے۔ بترا اس سے قبل انقلابی پنجابی شاعر اوتار پاش کی نظم ‘سب سے خطرناک’ کو 11ویں جماعت کی ہندی کی نصابی کتاب سے ہٹانے کی وکالت کے لیے خبروں میں رہے ہیں۔
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس نے اس ہدایت کی مذمت کی ہے۔ پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت ‘تقسیم اور نفرت انگیز نظریہ’ کے ساتھ طلبہ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کانگریس لیڈر کے کے مشرا نے منتخب مصنفین کے جواز پر سوال اٹھایا اور دلیل دی ہے کہ ان کی تخلیقات علمی قابلیت کے بجائے ایک خاص نظریے پر مبنی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایسے مصنفین کی کتابیں تعلیمی اداروں میں حب الوطنی اور قربانی کے جذبے کو ابھاریں گی؟‘
انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو اس آرڈر کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
بی جے پی کے ریاستی صدر وی ڈی شرما نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کتابوں سے طلبہ کے علم اور ان کی مجموعی شخصیت پر مثبت اثر پڑے گا۔ شرما نے کہا، ‘تعلیم کے بھگواکرن میں کیا غلط ہے؟ کم از کم ہم اس ملک دشمن نظریے کو فروغ نہیں دے رہے ہیں جسے بائیں بازو کے مفکرین نے کبھی ہمارے اسکول اور کالج کے نصاب پر مسلط کیا تھا۔‘
یہ ہدایت مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو کے جون میں دیے گئے ایک بیان کے بعد سامنے آئی ہے،جنہوں نے بھگوان رام اور بھگوان کرشن کی تعلیمات کو ریاست کے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔ یادو، جو گزشتہ بی جے پی حکومت میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، ہندوستانی ثقافتی اور مذہبی روایات کو تعلیمی نظام میں ضم کرنے کے زبردست حامی رہے ہیں۔