ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے یوم پیدائش پر کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے ایک مضمون میں کہا ہے کہ حکمراں جماعت آئینی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے، انہیں تباہ کر رہی ہے اور ان کی آزادی، مساوات، بھائی چارے اور انصاف کی بنیاد کو کمزور کر رہی ہے۔
نئی دہلی: 14 اپریل کو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے یوم پیدائش پر کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے حکومت پر سخت حملہ کیا اور الزام لگایا کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ آئینی اداروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور انہیں ختم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اس ‘منظم حملے’ سے آئین کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے۔
دی ہندو کے مطابق، ہندوستانی آئین کے معمار امبیڈکر کے 132ویں یوم پیدائش پر دی ٹیلی گراف میں لکھے ایک مضمون میں سونیا گاندھی نے کہا کہ آج اصلی ‘اینٹی نیشنل’ وہ ہیں جو مذہب، زبان ذات اور جنس کی بنیاد پر ہندوستانیوں کوایک دوسرے کے خلاف تقسیم کرنے کے لیے اقتدار کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘جیسا کہ ہم آج بابا صاحب کی وراثت کا احترام کرتے ہیں، ہمیں ان کی دور رس بصیرت انگیز انتباہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کی کامیابی ان لوگوں کے طرز عمل پر منحصر کرتی ہے جنہیں حکومت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔’
انہوں نے الزام لگایا کہ آج حکمران جماعت آئینی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے اور انہیں تباہ کر رہی ہے اور ان کی آزادی، مساوات، بھائی چارے اور انصاف کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا غلط استعمال کرکے آزادی کو خطرہ پیدا کیا جا رہا ہے اور ہر میدان میں ‘چنند دوستوں کی حمایت’ کر کے برابری پر حملہ کیا جا رہا ہے، جبکہ زیادہ تر ہندوستانی معاشی طور پر جدوجہد کر رہے ہیں۔
گاندھی نے کہا، ‘جان بوجھ کر نفرت کا ماحول بنانے اور ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف پولرائز کرنے سے بھائی چارے کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک مسلسل مہم کے ذریعے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر ناانصافی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی تاریخ کے اس موڑ پر لوگوں کو اس ‘منصوبہ بند حملے’ سے آئین کی حفاظت کے لیے کام کرنا چاہیے۔
کانگریس کی سابق صدر نے کہا، تمام ہندوستانیوں کو، جہاں بھی وہ کھڑے ہیں – سیاسی پارٹیاں، انجمنیں اور تنظیمیں، گروپوں میں بطور شہری اور فرد کی حیثیت سے- اس نازک وقت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی اور جدوجہد اہم سبق سکھاتی ہے جو ایک رہنما کے طور پر کام کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا سبق زوردار طریقے سے بحث کرنا اور اختلاف کرنا ہے، لیکن بالآخر قومی مفاد کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، امبیڈکر، سردار پٹیل اور بہت سے دوسرے لوگوں کے درمیان شدید اختلافات سے بھری پڑی ہے۔
گاندھی نے کہا، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آخر کار ہماری آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام معزز مرد اور خواتین نے ہماری آزادی کے لیےاور ہمارے ملک کی تعمیر کے لیے مل کر کام کیا۔ مختلف اوقات میں ان کے اتار چڑھاؤ صرف یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک سفر کے ساتھی مسافر تھے اور اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ آئین ساز اسمبلی کی مسودہ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ڈاکٹر امبیڈکر کا طرز عمل اس اصول کی مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا سبق بھائی چارے کے جذبے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو کہ قوم کی بنیاد ہے۔
سونیا گاندھی نے بتایا کہ اپنی آخری تقریر میں بابا صاحب نے اس بات پر بحث کی کہ کس طرح ذات پات کا نظام بھائی چارے کی جڑوں پر حملہ کرتا ہے – اور اسے ‘ملک کے خلاف’ بتایا۔
انہوں نے کہا، ‘ان لفظوں کاآج اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذریعے غلط استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر امبیڈکر نے ان کا صحیح مطلب سمجھایاتھا – ذات پات کا نظام ملک کے خلاف ہے کیونکہ یہ علیحدگی، حسد، نفرت پیدا کرتا ہے – مختصر یہ کہ یہ ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف تقسیم کرتا ہے۔
گاندھی نے زور دے کر کہا، ‘آج اصلی ‘اینٹی نیشنل’ وہ ہیں جو ہندوستانیوں کو مذہب، زبان، ذات اور جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف تقسیم کرنے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ شکر ہے کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود ہندوستانیوں میں بھائی چارے کا جذبہ بہت گہرا ہے۔
انہوں نے مذہبی تقسیم کے خلاف احتجاج کرنے والے، کسانوں کی روزی روٹی کے لیے آواز اٹھانے والے اورکووڈ کی وبا کے دوران اپنی صلاحیت کے مطابق ایک دوسرے کی مدد کرنےوالے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں ہندوستانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ ہندوستانیوں میں بھائی چارے کا جذبہ بہت گہرا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمیں ہمیشہ بھائی چارے کے اس جذبے کو پروان چڑھانا چاہیے اور اسے حملوں سے بچانا چاہیے۔’
گاندھی نے کہا کہ امبیڈکر کا تیسرا سبق ‘ہمیشہ سماجی اور معاشی انصاف کے لیے لڑنا’ ہے۔
گاندھی نے کہا، ‘آج سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے چیلنجز نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ 1991 میں کانگریس حکومت کی طرف سے شروع کی گئی اقتصادی اصلاحات سے خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب ہم بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے دلیل دی کہ پبلک سیکٹر کی اکائیوں کی ‘اندھا دھند نجکاری’ ریزرویشن کے نظام کو تنگ کر رہی ہے، جس نے دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی کو تحفظ اور سماجی نقل و حرکت فراہم کرتی ہے۔