پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ملک کے رہنماؤں، صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کے الزامات پر سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ تکنیکی کمیٹی نے کہا ہے کہ وہ حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈیوائس میں پایا جانے والا میلویئر پیگاسس ہے یا نہیں۔ تاہم جاسوسی کے الزامات پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری رہے گی۔
نئی دہلی: پیگاسس جاسوسی کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دیے گئے پینل نے تین حصوں میں اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو سونپی ہے، جس کے بعد عدالت نے جمعرات کو کہا کہ کمیٹی نے 29 ڈیوائس میں سے پانچ میں ‘میلویئر’ پایا۔
سی جے آئی این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت نے تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔
قابل ذکر ہےکہ ہندوستانی قانون نافذ کرنے والےحکام نے ملٹری گریڈ کے اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کی خریداری کی یا نہیں اور اسے عام شہریوں پر استعمال کیایا نہیں ،اس کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی میں یہ کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
تاہم بنچ نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کو اس بات کا کوئی فیصلہ کن ثبوت نہیں ملا ہے کہ جانچ کیے گئے فون میں استعمال کیا گیا میلویئر پیگاسس تھا یا نہیں۔
#BREAKING CJI : One thing committee has said, Government of India has not cooperated. The same stand you took here, you have taken there..#CJINVRamana #Pegasus #SupremeCourt
— Live Law (@LiveLawIndia) August 25, 2022
بنچ نے کہا کہ جسٹس رویندرن نے عدالت کو مطلع کیا ہے کہ حکومت نے اس میں تعاون نہیں کیا ہے۔
سی جے آئی رمنا نے مرکزی حکومت کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہتہ سے کہا، وہی رویہ آپ نے یہاں اختیار کیا ہے، وہی آپ نے وہاں اختیار کیا۔
لائیو لاء کے لائیو ٹوئٹ کے مطابق ایس جی مہتہ نے اس پر کہا، مجھے اس بارے میں جانکاری نہیں ہے۔
گزشتہ سال اگست میں اس کیس کی سماعت کے دوران ایس جی مہتہ نے کہا تھا کہ حکومت سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ اس نے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا ہے یا نہیں کیونکہ اس سے دہشت گردالرٹ ہو جائیں گے اور یہ قومی سلامتی سےسمجھوتہ ہوگا۔
تب عدالت نے کہا تھا کہ ایسے حالات میں جب حکومت واضح طور پر پیگاسس کے استعمال سے انکار نہیں کر رہی ہے تو اس کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد انکوائری کمیٹی بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اکتوبر 2021 میں کمیٹی کی تشکیل کرتے ہوئے سی جے آئی رمنا نے کہا تھا کہ حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں احتساب سے نہیں بچ سکتی۔ عدالت نے ‘قومی سلامتی’ کے خدشات کی وجہ سے تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے سے مرکزی حکومت کے انکار پر بھی تنقید کی تھی۔
کمیٹی میں سائبر سکیورٹی اور ڈیجیٹل فارنسکس کے پروفیسر اور گجرات کے گاندھی نگر میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف فارنسک سائنسز کے ڈین ڈاکٹرنوین کمار چودھری، کیرل کے امرتا وشو ودیاپیٹھم میں انجینئرنگ شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر پربھارن پی اور ممبئی کےآئی آئی ٹی میں کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے صدر شعبہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹڑ اشون انل گمستے شامل ہیں۔
جمعرات کی سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ ‘جامع’ ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کمیٹی کو فون جمع کرنے والے کچھ لوگوں نے درخواست کی تھی کہ وہ رپورٹ جاری نہ کریں کیونکہ ان کے فون میں ذاتی اور خفیہ مواد موجود تھے، بنچ نے بھی مکمل رپورٹ جاری کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔
عدالت نے کہا کہ کمیٹی نے عدالت کو بتایا ہے کہ رپورٹ عوامی تقسیم کے لیے نہیں ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے گی۔لائیو لاءکے مطابق، اس رپورٹ میں شہریوں کے تحفظ، آگے کی کارروائی، احتساب،پرائیویسی کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے قانون میں ترمیم، شکایات کے ازالے کے طریقہ کار وغیرہ پر مشورےشامل ہیں۔
سپریم کورٹ نےبتایا کہ جسٹس رویندرن کے نوٹ کے علاوہ کمیٹی کی رپورٹ میں دو اور حصے ہیں۔لائیو لاء کے مطابق، دو دیگر حصے عدالت کے ابتدائی فیصلے کے آرٹیکل 61اےاور 61بی کے معاملات سے متعلق ہیں۔
رپورٹ میں جانچ کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنے فون جمع کرنے والے29 لوگوں کے ذاتی موبائل فون سے لیے گئے مواد کے علاوہ میلویئر اور عوامی تحقیقی مواد کی جانکاری بھی شامل ہے۔
کمیٹی نے 31 مارچ 2022 تک اس مسئلے سے متعلق 11 سوالات پر عوام سے تبصرے طلب کیے تھے۔ ان جوابات کو بھی رپورٹ میں جگہ دی گئی ہے۔
عدالت اب اس معاملے کی چار ہفتے بعد سماعت کرے گی۔
قابل ذکر ہے کہ 2021 میں ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم، جس میں دی وائر بھی شامل تھا، نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے دنیا بھر میں رہنماؤں، صحافیوں، کارکنوں، سپریم کورٹ کے اہلکاروں کے فون مبینہ پر ہیک کرکے ان نگرانی کی گئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں 18 جولائی 2021 سے دی وائر سمیت دنیا بھر کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئےایسے موبائل نمبروں کے ڈیٹا بیس کی جانکاریاں شائع کرنا شروع کی تھیں، جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ نگرانی کے دائرے میں تھے۔
اس تفتیش کے مطابق، اسرائیل کی ایک سرولانس تکنیکی کمپنی این ایس او گروپ کے متعدد حکومتوں کے گراہکوں کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی فہرست میں 300 تصدیق شدہ ہندوستانی نمبر پائے گئے تھے، جنہیں وزیروں، اپوزیشن لیڈروں، صحافیوں، عدلیہ سے وابستہ افراد، تاجروں، سرکاری افسران، کارکنان وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ہندوستان میں اس کے ممکنہ اہداف میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی، سیاسی حکمت عملی ساز پرشانت کشور، اس وقت کے الیکشن کمشنر اشوک لواسا، اب انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو (وہ اس وقت وزیر نہیں تھے) کے ساتھ کئی اہم رہنما شامل تھے۔
تکنیکی تحقیقات میں دی وائر کے دو بانی مدیران سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے ساتھ دیگر صحافیوں جیسے سشانت سنگھ، پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی، ڈی یو کے مرحوم پروفیسر ایس اے آر گیلانی، کشمیری علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور وکیل الجو پی جوزف کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ہونے کی بھی تصدیق کی گئی تھی۔
پیگاسس پروجیکٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک اور دنیا بھر میں اس پر بڑا سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ہندوستان میں بھی مودی حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کے الزامات پر درجن بھر عرضیاں دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو ریٹائرڈ جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی میں ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
بتادیں کہ این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اس ملٹری گریڈ کے اسپائی ویئر کو صرف حکومتوں کو ہی فروخت کرتا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے پیگاسس کی خریداری کی نہ تو تردید کی ہے اور نہ ہی تصدیق کی ہے۔
جنوری 2022 میں نیویارک ٹائمز نے سال بھر کی تحقیقات کے بعد ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستانی حکومت نے 2017 میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہوئے 2 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کے تحت پیگاسس کو خریدا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ اسرائیلی وزارت دفاع نے نئے سودوں کے تحت پولینڈ، ہنگری، ہندوستان سمیت کئی ممالک کو پیگاسس فروخت کیا تھا۔