پتنجلی کی ’کورونل‘ نہ سائنسی طور پر تصدیق شدہ ہے، نہ ہی اس کو متعلقہ محکموں سے اجازت ملی ہے

پتنجلی آیوروید کی کورونا کٹ کی صداقت پرسنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔کمپنی نے کورونا کےصد فیصد علاج کادعویٰ کرنے والی اس دوا سے متعلق کچھ دستاویزوزارت آیوش کو سونپے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اس سے کووڈ 19 ٹھیک ہو جائےگا۔

پتنجلی آیوروید کی کورونا  کٹ کی صداقت پرسنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔کمپنی نے کورونا کےصد فیصد علاج کادعویٰ کرنے والی اس دوا سے متعلق  کچھ دستاویزوزارت آیوش کو سونپے ہیں، لیکن ماہرین  کا کہنا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اس سے کووڈ 19 ٹھیک ہو جائےگا۔

ہری دوار میں کورونل دوا لانچ کرتے یوگ گرو رام دیو اور آچاریہ بال کرشنن(فوٹو:ٹوئٹر/پتنجلی آیوروید)

ہری دوار میں کورونل دوا لانچ کرتے یوگ گرو رام دیو اور آچاریہ بال کرشنن(فوٹو:ٹوئٹر/پتنجلی آیوروید)

نئی دہلی: کورونا کے علاج کے نام پر پتنجلی آیوروید نے منگل کو ‘کورونل’نام کی ایک دوا بازار میں اتاری اور دعویٰ کیا کہ آیورویدک طرز سے جڑی بوٹیوں کی گہری تفتیش اورتحقیق کے بعد بنی یہ دوا مریضوں کو صدفیصد فائدہ پہنچا رہی ہے۔کمپنی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس کے لیے تمام ضابطوں کی پیروی  کی ہے اورکلینیکل ٹرائل کرکے اس کو بازار میں اتاراہے۔

اس بیچ نیوز چینلوں نے کورونا کے علاج کی سمت میں اس کو‘بہت بڑا’ قدم بتاتے ہوئے پیش کیا اور یوگ گرو رام دیو اور پتنجلی کے منیجنگ ڈائریکٹر آچاریہ بال کرشنن کے انٹرویو کو گھنٹوں تک چلایا۔حالانکہ اس دوا کے اعلان ہوتے ہی اس کی صداقت  پر سنگین سوال کھڑے ہو گئے، جس کے بعد مرکزی حکومت  نے اس کے اشتہار پر روک لگاتے ہوئے پتنجلی کو نوٹس جاری کر دیا۔

پتنجلی کی جانب سے اس دوا کو لانچ کیے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں میں وزارت آیوش نے اس پر نوٹس لیا اور کمپنی سے کہا کہ وہ اس بارے میں تمام دستاویز اورشواہد مہیا کرائیں۔وزارت نے معاملے کی جانچ ہونے تک کمپنی کو اس دوا کا اشتہاربھی بند کرنے کا آرڈر دیا۔ اب دوسرے محکموں نے بھی یہ دوا بنانے کے لیے اجازت دینے کی بات سے انکار کیا ہے۔

اتراکھنڈ سرکار کے آیورویدمحکمہ نے بدھ کو کہا کہ اس نے بابا رام دیو کو ‘امیونٹی بوسٹر’کے لیے لائسنس دیا تھا اور اس بارے میں مرکزی حکومت کے ذریعے مانگی گئی جانکاریاں دستیاب کرا دی گئی ہیں۔اتراکھنڈ آیوروید اور یونانی سروسز کے ڈائریکٹر آنند سوروپ نے بتایا کہ ان کے محکمہ نے بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی کو ‘امیونٹی بوسٹر،’بخار اور کھانسی کے لیے دوا بنانے کا لائسنس جاری کیا تھا۔

انہوں نے زور دےکر کہا کہ ان کے محکمہ نے کو رونا کی دوا کے لیے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کے لیے مجاز ہیں۔

آیورویدمحکمہ کے لائسنس افسر وائی ایس راوت نے کہا کہ ہمیں 10 جون کو پتنجلی سے ایک درخواست موصول ہوئی اور 12 جون کو ایک پینل کے ذریعے جانچ کے بعددرخواست کو منظوری دے دی گئی تھی، لیکن فرم کو صرف دو یا تین دواؤں کےبنانےکی اجازت تھی، جو کھانسی اور بخار کے خلاف قوت مدافعت کوبڑھانے والی دوا کے لیے تھی نہ کہ کو رونا وائرس کی دوائی کے لیے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی کو ڈرگ ایکٹ، 1940 کےضابطہ 170 کے تحت نوٹس بھیجا جائےگا، جس کے تحت پرنٹ یا الکٹرانک میڈیا میں کسی پروڈکٹ کی تشہیر سے پہلےلائسنس لینالازمی ہے۔

اس بیچ بہار کے مظفر پور میں ایک شکایت گزار نے عدالت میں رام دیو اورکمپنی کے سربراہ آچاریہ بال کرشنن کے خلاف ایف آئی آرکی مانگ کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے کووڈ 19کاعلاج کرنے کا دعویٰ کرکے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ مکیش کمار نے معاملے کو 30 جون کو شنوائی کے لیے فہرست میں درج کرلیا ہے۔ حالانکہ، پتنجلی واحد ہربل کمپنی نہیں ہے جس نے اس بیماری کی دوا کا دعویٰ کیا ہے۔

ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈس کاؤنسل آف انڈیا(اےایس سی آئی)نے کہا ہے کہ اسےآیوروید اور ہومیوپیتھک دواسازوں کے ذریعے صرف اپریل میں کووڈ 19 کے علاج کے سلسلےمیں 50 معاملے ملے ہیں اور انہیں کارروائی کے لیے مرکزی حکومت کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ ان اشتہارات میں وزارت آیوش کے ایک اپریل کے آرڈرکی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

پتنجلی کی کورونا دوائی کٹ۔ (فوٹو: ٹوئٹر/پتنجلی آیوروید)

پتنجلی کی کورونا دوائی کٹ۔ (فوٹو: ٹوئٹر/پتنجلی آیوروید)

یونٹ نے ان 50 کمپنیوں کی فہرست بھی عام  کی ہے جنہوں نے کو رونا وائرس کےعلاج یا اس کو روکنے کے لیےپروڈکٹ کا اشتہاردیا تھا۔ اس فہرست میں کوئی بڑا برانڈ نہیں ہے۔

‘کورونل’کے بارے میں پتنجلی کا دعویٰ ہے کہ ان ادویات کی کلینیکل کیس اسٹڈیز دہلی، احمدآباد اور میرٹھ وغیرہ سے لےکرملک کے مختلف شہروں میں کی گئی اور رینڈمائزڈ کنٹرولڈ کلینیکل ٹرائل (آرسی ٹی)کو راجستھان کے جئے پورواقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ میں کرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کو رونا کے علاج کے لیے دنیا میں آیورویدک ادویات کا پہلا کامیاب کلینیکل ٹرائل ہے۔رام دیو نے کہا کہ 100 مریضوں پر کنٹرولڈ کلینیکل ٹرائل کیا گیا جس میں تین دن کے اندر 69 فیصد اور چار دن کے اندرصدفیصد مریض ٹھیک ہو گئے اور ان کی جانچ رپورٹ پازیٹو سے نگیٹو ہو گئی۔

حالانکہ راجستھان کے وزیر صحت نے اس دعوے کو مستردکریا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ کلینیکل ٹرائل کے لیے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

آج تک کو دیے ایک انٹرویو میں وزیرصحت رگھو شرما نے کہا، ‘نہ تو ہمارے پاس کسی نے درخواست دی اور نہ ہم نے کسی کو منظوری دی ہے۔ یہ تماشہ ہے کیا؟ ڈبلیوایچ او کیا کہہ رہا ہے، آئی سی ایم آر کیا کہہ رہا ہے؟ اس طرح کا کلینیکل ٹرائل بنا سرکار کی اجازت کے کیسے کر سکتے ہیں آپ۔ یہ تو مجرمانہ فعل ہے۔ اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔’

اب اس کو لےکر پنتجلی آیوروید ہری دوار اور نمس یونیورسٹی کے صدرکے خلاف جئے پور کے ایک تھانے میں شکایت درج کروائی گئی ہے۔ شکایت گزارنے کورونا وائرس کے علاج کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

گاندھی نگر تھانے کے تھانہ انچارج انل جسوریا نے بدھ کو بتایا کہ شکایت گزارسنجیو گپتا نے یوگ گرو بابا رام دیو کی کمپنی پنتجلی آیوروید کے ذریعے کورونا وائرس کے علاج کی دوا پیش کرنے کے دعوے کو عوام کو گمراہ کرنے والا اور ان کے ساتھ دھوکہ کرنے والا بتاتے ہوئے شکایت درج کروائی ہے۔

جسوریا نے بتایا کہ گپتا نے اپنی شکایت میں کہا کہ پنتجلی کی دوا میں جو ‘کلینیکل ٹرائل’ بتایا گیا ہے وہ مصدقہ  نہیں ہے۔پتنجلی کی جانب سے اپنی دوا کے دفاع میں وزارت آیوش کو سونپے گئے دستاویزوں پر بھی ماہرین  نے سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ یہ کسی بھی طرح سائنسی شواہد نہیں دیتا ہے کہ اس سے کورونا ٹھیک ہو جائےگا۔

نیوروسائنٹسٹ ڈاکٹر سمیا شیخ نے آلٹ نیوز میں لکھے ایک مضمون میں پتنجلی کے دستاویزوں کا تفصیلی جائزہ لے کر بتایا ہے کہ یہ سب کو رونا کی دوا ہونے کا ثبوت نہیں دیتے ہیں۔پتنجلی کی ‘کو رونا کٹ’ میں کل تین طرح کی دوا ہے:

شواسر وٹی

گلوئے گھنوٹی، اشوگندھا کیپسول یا اشوگندھا گھنوٹی، تلسی گھنوٹی

انو تیل

حالانکہ پتنجلی کی جانب سے مہیا کرائے گئے دستاویزوں میں ان تین میں سے صرف ایک ڈرگ کے لیے ریسرچ اسٹڈی شائع کی گئی ہے۔گلوئے گھنوٹی کے سلسلے میں ایک دوسری ا سٹڈی شائع کی گئی ہے، جس کے سائنسی جواز کا پتہ لگانے کے لیے دوسرے سائنسدانوں کے ذریعے اس کا تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔

وہیں شواسر وٹی کے لیے جو اسٹڈی شائع کی گئی ہے اس کا مطالعہ انسانوں پر نہیں بلکہ چوہوں پر کیا گیا تھا۔ اسی طرح گلوئے سے متعلق  کمپیوٹرکے ذریعےبناوٹ (کمپیوٹر سیمولیشن)ہے اور اس کا بھی مطالعہ کسی انسان  پر نہیں کیا گیا ہے۔اسی طرح کلینیکل ٹرائل رجسٹری ڈاکیومنٹ(سی ٹی آئی)صرف رجسٹریشن کاثبوت ہے اور یہ جانچ کے اندرپائے گئے نتائج  کا ثبوت نہیں ہے۔

ڈاکٹر شیخ کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں زہریلے مادہ پر ایک مطالعہ ہونا چاہیے تھا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکتا کہ جن چیزوں کو ملاکر دوا بنائی گئی ہو وہ محفوظ ہے یا کووڈ 19مریضوں پرمؤثر ہے۔

دریں اثنا پتنجلی گروپ کی دوا کو لےکروزارت آیوش کا یہ رخ نریندر مودی حکومت میں ہی مرکزی وزیر رہ چکے اور موجودہ بی جے پی ایم پی  ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ کو پسند نہیں آیا ہے۔ انھوں نے اشاروں اشاروں میں اس کو لےکر وزارت پر ‘حملہ’بولا ہے۔

یوپی کے باغ پت سے بی جے پی ایم پی  ستیہ پال سنگھ سیاست کے میدان میں اترنے سے پہلے ممبئی کے پولیس کمشننر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس مدعے پر ایک ٹوئٹ میں لکھا یہ صحیح وقت ہے جب آیوروید کے آچاریہ، آیوروید پریمی،اور بھارت سرکار مل کر آیوروید کو یوگ کی طرز پردنیا میں قائم کر سکتے ہیں۔وقت بڑے مفادات کو سمجھنے کا ہے،تنازعہ کا نہیں، مکالمہ کا ہے۔

ٹوئٹ میں انہوں نے آیوش، پی ایم او، پی ایم نریندر مودی، آچاریہ بال کرشنن، بابا رام دیو اور پتنجلی گروپ کو بھی ٹیگ کیا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)