وقف بل: پارلیامانی کمیٹی نے ترمیمی بل کو منظوری دی، اپوزیشن نے غیر آئینی قرار دیا

اپوزیشن کے تمام 11 ارکان نے وقف (ترمیمی) بل پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا اور اسے غیر آئینی قرار دیا۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ اس سے نئے تنازعات کھلیں گے اور وقف کی جائیدادیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اپوزیشن ارکان نے جے پی سی کے کام کاج کے طریقے میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔

اپوزیشن کے تمام 11 ارکان نے وقف (ترمیمی) بل پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا اور اسے غیر آئینی قرار دیا۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ اس سے نئے تنازعات کھلیں گے اور وقف کی جائیدادیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اپوزیشن ارکان نے جے پی سی کے کام کاج کے طریقے میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔

وقف بل پر تشکیل دی گئی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی(تصویر بہ شکریہ: X/@jagdambikapalmp)

وقف بل پر تشکیل دی گئی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی(تصویر بہ شکریہ: X/@jagdambikapalmp)

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل پر جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) نے بدھ (29 جنوری) کو اپنی رپورٹ کو اکثریت کے ساتھ قبول کر لیا، جس کے بعد حکومت کے لیے پارلیامنٹ کے آئندہ بجٹ اجلاس کے دوران اس بل کو آگے لے جانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

تاہم، اپوزیشن کے تمام 11 ارکان نے اس بل سے اختلاف کا اظہار کیا اور اسے غیر آئینی قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق ، اپوزیشن نے الزام لگایا کہ اس سے نئے تنازعات کھلیں گے اور وقف کی جائیدادیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اپوزیشن ارکان نے کمیٹی کے کام کاج کے طریقےمیں  خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔

ڈی ایم کے ایم پی اے راجہ اور ایم ایم عبداللہ نے اسے ‘وقف ڈسٹرکشن بل’ قرار دیا اور وقف (ترمیمی) بل میں ‘ صارف کے ذریعے وقف’ کی شق کو ہٹانے کی تجویز پر اعتراض کیا۔ ارکان پارلیامنٹ نے دلیل دی کہ یہ شق کافی عرصے سے موجود ہے۔

اےراجہ نے کہا کہ ‘وقف ازصارف’ کا تصور پیغمبر اسلام کے زمانے سے موجود ہے اور اسے ہٹانے کا کوئی بھی قدم مسلم کمیونٹی کے بنیادی حقوق کے خلاف ہوگا۔

اس سلسلے میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے 231 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ داخل کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 1995 کے ایکٹ نے صارف کی طرف سے وقف نہیں بنائے تھے بلکہ اسے صرف تسلیم کیا تھا۔

اویسی نے کہا کہ ‘صارف کے ذریعے وقف’ کو ہٹانے کی شق میں آخری لمحے میں اس اہتمام  کو شامل کرنا غیر ضروری تھا کیونکہ اس کاامتحان ان معاملات میں ہوگا جہاں جائیداد کا تنازعہ ہے، جبکہ ایسی صورت حال میں یہ لاگو نہیں ہوگا۔

وقف کی جائیدادں کی جانچ اور سرکاری دعوے

اویسی نے مزید کہا کہ ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش میں کہ ترمیم شدہ وقف قانون کے نفاذ کے بعد موجودہ وقف جائیدادوں کی جانچ کی جائے گی، پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایسی جائیدادوں کے خلاف کوئی بھی مقدمہ نظیر کی بنیاد پر دوبارہ نہیں کھولا جائے گا، بشرطیکہ جائیداد تنازعہ میں نہ ہو یا حکومت کی ملکیت نہ ہو۔

اس معاملے پر لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گگوئی نے کہا، ‘کوئی بھی بری نیت رکھنے والا شخص ‘وفف ازصارف’ سے متعلق  جائیدادوں کے کسی بھی حصے پر مقدمہ دائر کر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائیداد کو ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت کسی بھی تحفظ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔’

گگوئی نے مزید کہا کہ یہ بل ملک میں وقف اور وقف پراپرٹیز کے کام کاج، کنٹرول اور انتظام میں ضرورت سے زیادہ سرکاری مداخلت کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا کمیونٹی کے ساتھ ساتھ خود مختار ادارے پر بھی نقصاندہ اثر پڑتا ہے، حالانکہ یہ ادارے کے کام کرنے کے لیے ضروری ہے۔

گگوئی کے مطابق، ‘حکومت کے اپنے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کل 8.72 لاکھ رجسٹرڈ وقف پراپرٹیز میں سے 4.02 لاکھ ‘وقف از صارف’ کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس تصور کو ختم کرکےبل ہندوستان میں ایسے کسی بھی وقف کے وجود کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے۔’

اویسی نے خبردار کیا کہ اس اہتمام کو ہٹانا، وہ بھی ایسے وقت میں جب تفرقہ پیدا کرنے والی طاقتوں کے ذریعے مسلم مذہبی مقامات کے طور پر قدیم مساجد اور درگاہوں کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگانے والے شرارتی دعوے کیے  گئے ہیں، ان تنازعات میں مسلم فریق کے تحفظ کو کمزور کرنا ہے۔

سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلموں کی شمولیت

اپوزیشن کی طرف سے داخل کیے گئے تقریباً تمام اختلافی نوٹوں میں اس شق کی تنقید کی گئی ہے۔ اویسی نے کہا کہ اس سے وقف پراپرٹیز کے انتظام پر مسلمانوں کا خصوصی کنٹرول کمزور ہو جائے گا۔ ہندو، سکھ اور دیگر مذہبی اوقاف کے انتظام کے لیے یکساں قوانین کے ساتھ موازنہ اس ترمیم کی امتیازی نوعیت کو نمایاں کرتا ہے۔

اپنی دلیل کی تائید کے لیے انہوں نے تمل ناڈو ہندو مذہبی اور خیراتی بندوبستی  ایکٹ، 1959 اور سکھ گرودوارہ ایکٹ، 1925 کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ صرف متعلقہ مذہبی برادریوں کے افراد ہی گورننگ باڈیز کی رکنیت کے اہل ہیں۔

کانگریس کے تین ارکان پارلیامنٹ سید نصیر حسین، عمران مسعود اور محمد جاوید نے ایک مشترکہ اختلافی نوٹ میں کہا کہ یہ شق اس بارے میں سوال اٹھاتی ہے کہ کیا دیگر مذاہب بندوبستی کاموں میں بھی دیگر مذہب کے پیروکاروں  کوشامل کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کی نظیر ایک پنڈورا باکس کھول دے گی، جس کے لیے تمام مذہبی قوانین میں یکساں تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جو کہ عملی یا مطلوبہ نہیں ہے۔

شیو سینا (یو بی ٹی) کے رکن اروند ساونت نے کہا کہ اس طرح کے بندوبست سے انتشار پیدا ہوگا۔

کم از کم پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے والا ہی  وقف کو جائیداد عطیہ کر سکتا ہے

ترنمول کانگریس کے کلیان بنرجی اور ندیم الحق نے اپنے مشترکہ اختلافی نوٹ میں کہا کہ یہ دفعات مکمل طور پر غیر منصفانہ، غیر معقول اور واضح طور پر من مانی ہے۔

ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ممبران پارلیامنٹ نے پرنسپل ایکٹ میں ترمیم پر اعتراض کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر اس قانون کے نافذ ہونے سے پہلے یا بعد میں کسی بھی سرکاری جائیداد کی شناخت یا وقف پراپرٹی کے طور پر کی جاتی ہے، تو وہ وقف کی جائیداد نہیں ہوگی۔

ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر جائیداد کے سرکاری ملکیت ہونے کے بارے میں کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس معاملے کو ریاستی حکومت کی طرف سے مطلع کلکٹر کے رینک سے اوپر کے افسر کو فیصلہ کے لیے بھیجا جائے گا۔

ٹی ایم سی لیڈروں نے کہا، ‘حکومت کا کام غیر مجاز طریقوں کا سہارا لے کر اپنی دولت بنانا نہیں ہے۔ جب حکومت تجاوزات کے طور پر کام کرتی ہے، تو مجوزہ ترمیم کے ذریعے ایسے غیر مجاز کاموں کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔’

اویسی نے کہا کہ قانون میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے جہاں ایک بالغ کے حق پر پابندیاں لگائی گئی ہوں کہ وہ اپنی جائیداد کے ساتھ جس طرح بھی مناسب سمجھیں اس کا سودا کریں۔

یہ بل ضلع کلکٹر کو کسی بھی سرکاری املاک کو وقف قرار دینے پر کسی تنازعہ کی صورت میں ثالثی کا اختیار دیتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے ممبران پارلیامنٹ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اس معاملے کو عدالتوں میں حل کرنے کے لیے سول تنازعہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل   مشترکہ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی تجویز کردہ 44 ترامیم کو مسترد کر دیا تھا اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) خیمہ سے 14 کو منظور کر لیا تھا۔

کمیٹی کے چیئرپرسن اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جگدمبیکا پال نے گزشتہ ہفتے اپوزیشن کے 10 ایم پی کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد وقف کمیٹی کو ‘آمرانہ انداز میں’ چلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ یہ قدم اس کے بعدسامنے آیا۔

معلوم ہو کہ اس جے پی سی میں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے 31 ارکان ہیں۔ ان میں سے 16 این ڈی اے سے ہیں، جس میں 12 بی جے پی سےہیں، 13 اپوزیشن پارٹیوں سے، ایک وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور ایک نامزد رکن ہیں۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت نے 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا تھا۔ پیش کیا تھا ۔ تاہم، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی مخالفت کے باعث اس بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا۔ اس کمیٹی کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخر تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی، جس میں اپوزیشن ارکان نے توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم اپوزیشن وقف (ترمیمی) بل کو لے کر حکومت کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس سے قبل اس معاملے پر تشکیل دی گئی پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے کچھ اپوزیشن اراکین نے کمیٹی کے چیئرمین اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جگدمبیکا پال پر ‘من مانے طریقے سے کارروائی میں خلل ڈالنے’ کا الزام لگایا تھا۔ اس سلسلے میں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا۔

حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ نے اپنے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر کمیٹی میں ان کے خیالات کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں اپنے خیالات پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا تو وہ کمیٹی سے اپنے نام واپس لینے پر مجبور ہو ں گے۔

اس کمیٹی کے کئی اجلاس تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ اس سے قبل پچھلے مہینے 15 اکتوبر کواپوزیشن اراکین نے  اوم برلا کو ایک خط لکھا تھا  جس میں الزام لگایا تھا کہ کمیٹی کی کارروائی کو چیئرپرسن جگدمبیکا پال کی طرف سے جانبدارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی کے صدر پال نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کو بولنے کے کافی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

ایک اور میٹنگ میں کرناٹک ریاستی اقلیتی کمیشن کے ایک سابق اہلکار اور بی جے پی لیڈر کی جانب سے وقف اراضی کی الاٹمنٹ کے سلسلے میں کانگریس کے صدر ملیکارجن کھرگے پر تبصرہ کرنے کے بعد کئی اپوزیشن اراکین پارلیامان نے پینل میٹنگ سے  واک آؤٹ کر دیا  تھا ۔

وہیں، 22 اکتوبر 2024 کو جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے اجلاس میں ٹی ایم سی کے رکن پارلیامنٹ کلیان بنرجی نے غصے میں کانچ کی بوتل توڑ دی تھی، جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا تھا ۔