کانفرنس کے دوران سب سے زیادہ جذباتی لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا جو غزہ پر اسرائیلی بمباری کو کور کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں 220 سے زائد میڈیا کے پیشہ ور افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
غزہ کی محصور فلسطینی سرزمین میں گرچہ وقتی طور پر فی الحال بندوقوں کی گھن گرج بند ہوگئی ہے، مگر ایک اور طاقتور میدان یعنی میڈیا میں فلسطینی بیانیے کو زندہ رکھنے اور اس کو ازسرِنو تشکیل دینے کے لیے حال ہی میں ترک شہر استنبول میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
فلسطینی بین الاقوامی میڈیا اور مواصلاتی فورم یعنی تواصل کا یہ چوتھا اجلاس تھا۔ پچھلا اجلاس 2018 میں منعقد ہو ا تھا۔ اس بار چیلنج یہ تھا کہ جنگ کے بعد کس طرح اسرائیل کے غزہ پر کیے گئے مظالم کو عالمی گفتگو کا ایک لازمی حصہ بنایا جا ئے۔
اس دو روزہ فورم میں 50 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے 750 سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی، جن میں صحافی، مصنفین، مدیران، براڈکاسٹرز، فوٹوگرافرز، فنکار اور میڈیا سے متعلق دیگر ماہرین شامل تھے۔ کانفرنس کا مقصد فلسطینی سچائی کے تحفظ کے لیے یکجہتی اور استقامت کے ماڈل اور راہیں تشکیل دینا تھا۔
کانفرنس کے دوران سب سے زیادہ جذباتی لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا جو غزہ پر اسرائیلی بمباری کو کور کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں 220 سے زائد میڈیا کے پیشہ ور افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
کانفرنس میں موجودفلسطینی صحافیوں نے اپنے ساتھیوں کی قربانیوں کی دل دہلا دینے والی داستانیں پیش کیں۔ بے پناہ خطرات کے باوجود ان کا عزم متزلزل نہ ہوا۔
ایسے بے خوف صحافیوں کی کہانیاں سامنے آئیں، جنہوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اسرائیلی مظالم کو ریکارڈ کرنا جاری رکھا۔ ایک صحافی نے کہا،’ہم صرف کہانیاں نہیں لکھ رتھے، بلکہ ایک ایسی تاریخ محفوظ کر رہے تھے جو کبھی فراموش نہ کی جاسکے گی۔ اسرائیلی فوج نے جب یہ یقینی بنایا کہ بین الاقوامی صحافی، سوائے ان کے جو اسرائیلی فوج کے ساتھ منسلک تھے، غزہ چھوڑ دیں، تو غزہ میں فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے کی ایک منظم حکمت عملی کا آغاز ہوا۔
کانفرنس میں ایک مندوب یاسر ابو ہن نے کہا کہ جب یورپی اور امریکی صحافیوں کو غزہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا تو زیادہ تر نے اس حکم کی تعمیل کی۔ اس خلا کو بھرنے کے لیے مقامی افراد جن میں بعض طلباء اور ماہرین تعلیم تھے، نے اپنے مائیکروفون اور لیپ ٹاپ اٹھائے اور غزہ کے حالات کی کہانی کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔
ابوہن کا کہنا تھا کہ جب پوری دنیا نے غزہ کو نظر انداز کر دیا تھا، غزہ کے لوگوں نے خود اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری اٹھائی کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ غیر دستاویزی نہ رہے۔ مغربی میڈیا کے اانخلاء کے فوراً بعد ہی اسرائیل نے فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانا اور قتل کرنا شروع کردیا۔ یہ لوگ نسل کشی کے پہلے گواہ تھے، اور اسے دستاویز کرنے کی قیمت انہوں نے اپنی جانوں سے ادا کی۔
اس موقع پر ان شہید صحافیوں کی بولتی تصاویر کی دلوں کو جھنجوڑ دینے والی ایک نمائش بھی منعقد کی گئی تھی۔ ایک دیوار پر میڈیا منٹس کے نام سے اس نمائش میں کئی صحافیوں کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے متحرک کرکے ان کی آوازوں اور کہانیوں کو دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔
لبنان سے تعلق رکھنے والی گرافک ڈیزائنر ہنا المیر، جس نے اس نمائش کو ترتیب دیا تھا کا کہنا تھا ان کی اس کاوش کا مقصد غزہ کے شہید صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔ بہت سے لوگ ملبے کے نیچے دب گئے، کچھ نیند میں شہید ہوئے، کچھ میدان میں رپورٹنگ کرتے ہوئے مارے گئے، اور کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ بمباری کا شکار ہوئے۔’لہذا، ہماری نمائش کے پس منظر میں سو صحافیوں کے نام اور چہرے شامل کرنے کے علاوہ، ہم نے پانچ مردوں اور پانچ عورتوں کی کہانیوں پر توجہ مرکوز کی، جن کے بارے میں ہمارے پاس سب سے زیادہ معلومات تھیں۔’ان کو مصنوعی ذہانت اور تخلیقی اسکرپٹنگ کے ذریعے زندہ کیا گیا تھا تاکہ ان کی زندگی کے آخری لمحات کو اجاگر کیا جا سکے۔
الجزیرہ کی رپورٹر شریں ابو عاقلہ کو بھی اس کہانی میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ فلسطینی صحافیوں کے لیے وہ ایک علامت بن چکی ہیں۔
جن دس افراد کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے زندہ کیا گیا تھا، ان میں اسمٰعیل الغول، امینہ حامد، ایمان الشنطی، ایمن الیدی، دعاء شرف، رفعت العریر، سامر ابو دقہ، شریں ابو عاقلہ، مصطفیٰ السواف اور ہبہ عبادلہ شامل تھے۔
عربی، انگریزی، فرانسیسی اور ترکی زبانوں میں اس لاسٹ منٹ نمائش نے کانفرنس کے شرکا پر ان منٹ نقوش چھوڑے۔ یہ شہید جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اپنی کہانی بیان کر رہے تھے۔
مثال کے طور پر، ایمان الشنطی جب سوال کررہی تھی کہ ”کیا آپ واقعی ہمیں سن رہے ہیں؟“، تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ آواز آسمان میں ان کے نئے مسکن سے آ رہی ہے۔
ان کا گھر غزہ شہر میں بمباری کا نشانہ بنا، جس میں وہ، ان کے شوہر اور تین بچے شہید ہو گئے۔
ایمن الیدی ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اس وقت شہید ہوئے جب وہ اس اسپتال کے باہر موجود تھے جہاں ان کا نومولود بیٹا اسی دن پیدا ہوا۔ اس لمحے کے ناقابلِ بیان غم کو جب پیش کیا جا رہا تھا تو شقی القلب انسان ہی اپنے جذبات پر قابو رکھ پاتا تھا۔
مصطفیٰ السواف، جو چالیس سال کے تجربے کے حامل صحافی اور تجزیہ نگار تھے، اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ گھر میں شہید ہوئے۔ وہ کہتے ہیں،’ہم اب بھی یہاں ہیں۔’
سامر ابو دقہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے، اور ہبہ عبادلہ اپنی کم عمر بیٹی کے ساتھ اسرائیلی حملے میں شہید ہوئیں۔
ہر کہانی بہادری کی ایک مثال ہے اور سوال اٹھاتی ہے کہ ایسا کیسے ہونے دیا گیا؟ ہنا المیر نے بتایا کہ اس نمائش کو ڈیزائن کرتے ہوئے ان کو رفعت العریر کی لکھی گئی نظم سے تحریک ملی، جو انگریزی ادب کے پروفیسر تھے اور 2023 میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس نظم کا عنوان ہے ”اگر مجھے مرنا پڑے“، اور اس کے ابتدائی اشعار ہیں؛
اگر مجھے مرنا پڑے،
تو تمہیں زندہ رہنا ہوگا،
تاکہ میری کہانی بیان کرسکو
یعنی کہانی کو مرنے نہ دو۔ظالم کی موت کہانی کے زندہ رہنے میں ہے، چاہے کئی صدیاں بیت جائیں۔ کہانی کو اگلی نسلوں تک پہنچاتے رہو اور ان کو تاکید کرتے رہے کہ کہانی کو مرنے نہیں دینا، جب تک ظالم کیفر کردار تک نہیں پہنچتا اور مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
یہی مقصد ‘دی لاسٹ منٹ’ نمائش حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
تواصل کے ڈائریکٹر بلال خلیل کا کہنا تھا کہ غزہ نے عرب خطے کے نوجوانوں کو اکٹھا کیا۔ ڈیزائنرز، فوٹوگرافرز، صحافی، کمپیوٹر انجینئرز—سب نے اپنی صلاحیتوں کو یکجا کیا تاکہ دنیا کے سامنے کہانی پیش کی جا سکے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانیت پر دھبہ بنی رہے گی۔ دنیا نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کیں جب فلسطین میں 200 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا، اور بین الاقوامی انسانی قوانین کا مذاق اڑایا گیا، جو خاص طور پر ان صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حق دیتے ہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔ فلسطین کی داستان محض ظلم کی کہانی نہیں بلکہ استقامت کی بھی کہانی ہے۔
اس تقریب کے دوران 12 خصوصی ورکشاپ منعقد کی گئیں، جن میں فلسطینی بیانیے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ شرکاء کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کی حکمت عملیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ موضوعات میں نوجوان نسل تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال، غلط معلومات کے خلاف لڑائی، اور مؤثر بصری مواد کی تخلیق شامل تھے۔ ماہرین نے کہانی سنانے کی تکنیکوں کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملیوں کا تبادلہ کیا تاکہ فلسطینی نقطہ نظر عالمی گفتگو میں مرکزی حیثیت برقرار رکھ سکے۔
امریکی صحافی ایبی مارٹن، جو ایمپائر فائلز سے وابستہ ہیں، نے امریکہ میں عوامی رائے میں تبدیلی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا،’اب، ایک تہائی سے زیادہ امریکی یہودی حماس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ 42 فیصد نوجوان امریکی یہودی اس بات سے متفق ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اور لاکھوں افراد صیہونیت مخالف ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا، ”فلسطینی امنگوں کو اجاگر کرنے والے متبادل اور آزاد میڈیا تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، جو تبدیلی کی ایک نئی لہر کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔“
مصر کے معروف مصنف فہمی ہویدی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا بھر کے عوام اب فلسطین کی حقیقتوں سے زیادہ واقف ہو رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ ہے۔ انہوں نے کہا، ”سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار بن گیا ہے۔ یہ جہاں سچائی کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے، وہیں یہ غلط معلومات کے فروغ کا بھی سبب بنتا ہے۔“
اس فورم میں میڈیا کی نمائندگی کے ارتقاء پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ الجزیرہ کے سینئر ایڈیٹر، علاء الدین حماد، نے چینل کے آغاز سے اب تک اس کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”ابتداء میں بیانیہ فلسطینیوں کے خلاف شدید طور پر متعصب تھا، اور ان کی آواز کو بہت کم نمائندگی ملتی تھی۔ الجزیرہ نے زیادہ متوازن نمائندگی کے لیے راہ ہموار کی، اور مغربی میڈیا کی اجارہ داری کو چیلنج کیا۔“حماد نے غلط بیانیوں کو چیلنج کرنے میں جنریشن زیڈ کے کردار کو بھی سراہا، اور مثال دی کہ کیسے نوجوان نسل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کے جھوٹے دعووں، جیسے بچوں کے سر قلم کرنے کے دعوے، کو سوالیہ نشان بنایا۔ انہوں نے کہا، ”یہ نسل معتبر میڈیا کے مستقبل کی تشکیل کر رہی ہے۔“
دوحہ میں قائم الجزیرہ، جو 1996 میں شروع ہوا، آج 150 ممالک میں 430 ملین سے زیادہ گھروں تک نشریات پہنچاتا ہے اور 70 سے زیادہ ممالک میں اس کے دفاتر موجود ہیں۔حماد نے کہا، ”پہلے صرف بی بی سی، سی این این، اور چند دیگر مغربی میڈیا چینل کا اس خطے سے رپورٹنگ پر اجارہ داری تھی۔ ان کے پاس ایک بہت محدود ایجنڈا اور صرف ایک بیانیہ تھا، جو بنیادی طور پر اسرائیل پر مرکوز تھا۔
خبروں میں واضح طور پر فلسطینیوں کے خلاف تعصب نظر آتا تھا، ان کے خدشات کو کم یا بالکل نظر انداز کیا جاتا تھا، اور فلسطینی آوازیں غیر موجود تھیں۔ عرب چینلوں کی بات کی جائے تو ان کا مواد زیادہ تر ان کے رہنماؤں پر مرکوز تھا اور کچھ بھی نہیں۔“الجزیرہ کے ابتدائی ایجنڈوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو، نہ کہ صرف رہنماؤں کے ساتھ۔ ابتدا میں اس کی مقبولیت خبروں کے بلیٹن کے بجائے پروگرامز کی بنیاد پر تھی، اور اکثر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔
لیکن جب اس نے خبروں پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس کا فوری اثر ہوا۔ پہلی بار عرب عوام ایک ہی بیانیے کے بجائے دو بیانیے سننے لگے۔سن 2000 کی دوسری انتفاضہ کے بعد، الجزیرہ نے فلسطین کو سنجیدگی سے کور کرنا شروع کیا۔”اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ یہ یقینی بنایا کہ اسرائیلی آوازیں بھی اسکرین پر موجود ہوں۔ اس کے ساتھ ہی، چینل کا بین الاقوامی اثر بڑھنے لگا۔“حالات نے الجزیرہ کو فلسطین پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا، اور فلسطینی مسئلے کو چینل نے خصوصی اہمیت دی، جس سے یہ فلسطین کے حوالے سے کوریج کا اہم پلیٹ فارم بن گیا۔
”ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کوریج نے خطے میں عوامی رائے کو تبدیل کیا ہے۔ لوگ اب اپنے رہنماؤں سے سوال کر رہے ہیں۔ جب مصر میں فوجی بغاوت ہو رہی تھی، ہم نے تمام مصریوں کی توجہ حاصل کی۔ یہ گویا ایک ساکت جھیل میں پتھر پھینکنے کے مترادف تھا۔ اب خطے کے ہر چینل پر بحث و مباحثے کے پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی کوریج میں زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔“
حماد کا کہنا تھا کہ7 اکتوبر 2023 کو جو ہوا، اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ انفرادی مزاحمت کے حملے ہو سکتے ہیں، لیکن ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ ایک منظم عسکری کارروائی ہوگی۔ ظاہر ہے، زمین پر موجود ہونے کی وجہ سے، الجزیرہ اس حملے کے تمام پہلوؤں کو نشر کر سکا۔ لیکن اس کی ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ہمارے چار صحافی براہ راست حملوں میں مارے گئے؛ اور پانچ دیگر بالواسطہ طور پر شہید ہوئے۔
آج الجزیرہ کے ناظرین کی تعداد خطے کے دیگر چینلز، جیسے اسکائی عربیہ اور سعودی ملکیت والے العربیہ، کے ناظرین سے کہیں زیادہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل آنکھ بند کر کے کچھ قبول نہیں کرتی، وہ حقائق کو جانچنے کی عادی ہو گئی ہے۔ جب 7 اکتوبر کے حملوں کے فوری بعد اسرائیل نے بچوں کے سر قلم کرنے کے جھوٹے بیانیے کو پھیلایا، تو کئی نوجوانوں نے اسے جعلی سمجھا۔ میرا ماننا ہے کہ کملا ہیرس امریکی انتخابات اس نسل کی وجہ سے ہاری۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل ان میڈیا اداروں کے ساتھ ہے جو اپنی حد تک معتبر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹِک ٹاک جیسے اوزاروں کی وجہ سے، اب جھوٹ بولنا آسان نہیں رہا۔
کانفرنس کے اختتام پر شرکاء نے یکجہتی کی اہمیت اور انسانی روح کی پائیداری پر زور دیا۔ یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے اسرائیلی پروفیسر ایلان پاپے نے مغرب کی فلسطینی عوام پر جاری ظلم میں شمولیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا، ‘فلسطینی بیانیے کے تحفظ اور اس کے فروغ کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جا سکتا۔’ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بیانیے کی حفاظت اور اسے پھیلانا اب ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے فلسطین کے مظالم پر مغربی دنیا کی مجرمانہ خاموشی اور ناقابل قبول بے حسی کی شدید مذمت کی۔
تواصل 4 میں شریک ہونے والوں کے لیے یہ کانفرنس محض ایک تقریب نہیں تھی بلکہ اتحاد کی طاقت اور تاریخ کے تحفظ میں میڈیا کے اہم کردار کی گواہی تھی۔یہ فورم یاد دہانی تھی کہ انصاف اور سچائی کے لیے جدوجہد میں مستقل عزم اور یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک مقرر نے خوبصورتی سے کہا،’فلسطینی بیانیہ صرف ان کی کہانی نہیں ہے؛ یہ انصاف اور انسانیت کے لیے عالمی پکار ہے۔’