ماہرین تعلیم، کارکن اور فلمسازوں نے عمر خالد اور دیگر سی اے اے مخالف کارکنوں کی رہائی کی اپیل کی

ماہرین تعلیم، فلمساز، اداکار اور کارکنوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے عمر خالد اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی میں حد سے زیادہ تاخیر نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے، جہاں لوگ بغیر شنوائی اور جرم ثابت ہوئے بغیر طویل حراستی سزاؤں کا سامنا کر رہے ہیں۔

ماہرین تعلیم، فلمساز، اداکار اور کارکنوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے عمر خالد اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی میں حد سے زیادہ تاخیر نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے، جہاں لوگ بغیر شنوائی اور جرم ثابت ہوئے بغیر طویل حراستی سزاؤں کا سامنا کر رہے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: امیتاو گھوش، نصیر الدین شاہ، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش، ہرش مندر اور کرسٹوف جیفرلو سمیت 160 ماہرین تعلیم، فلمساز، اداکار، کارکن اور دیگر لوگوں نے عمر خالد اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے  کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بیان پر دستخط کیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ خالد 30 جنوری 2025 کو جیل میں 1600 دن مکمل کرلیں گے، جو  مہاتما گاندھی کی 77 ویں برسی بھی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘ہم سب اس اتفاق سے بے خبر نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی کی نظر  میں آئے۔’

غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت خالد کی لمبی قید کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا،’ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں کہ کس طرح عمر جیسے باصلاحیت شخص کو بار بارایک  حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور  بدنام کیاگیا۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘خالد، جو تکثیریت، سیکولرازم اور آئینی اقدار کی وکالت کرنے والی اپنی باتوں کے لیے جانے جاتے ہیں، ان  پر تشدد بھڑکانے کی سازش کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔’

اس میں دیگر کارکنوں – گلفشاں فاطمہ، شرجیل امام، خالد سیفی، میران حیدر، اطہر خان اور شفا الرحمان کا نام بھی لیا گیا ہے، جنہیں سی اے اے مخالف مظاہروں کے بعد نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘…بار بار ضمانت نہ ملنا اور مقدمے کے بغیر طویل مدت تک جیل میں رکھنا خالد اور دیگر لوگوں کے معاملےکا سب سے المناک پہلو ہے۔’

دستخط کرنے والوں نے دہلی ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جہاں بنچ نے کہا تھا، ‘… حکومت کے ذہن میں احتجاج کرنے کے آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے درمیان کی لکیر دھندلی  ہوتی نظر آرہی ہے۔’

انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے، ‘اس طرح کے قوانین اور حد سے زیادہ عدالتی تاخیر نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے، جہاں افراد کو طویل عرصے تک، بغیر کسی مقدمے کے اور جرم ثابت کیے بغیرطویل مدت تک  حراست میں رکھ کر  مؤثر ڈھنگ سے سزا دی  جاتی ہے۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ’عمر اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگ سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت جیل میں بند  ہیں، بغیر ضمانت کے، بغیر کسی مقدمے کے، سالوں سے۔ اس لیے نہیں کہ اس نے کسی کو تشدد کی ترغیب دی یا اکسایا، بلکہ اس لیے کہ وہ امن اور انصاف کے دفاع میں کھڑے تھے  اور غیر منصفانہ قوانین کے خلاف عدم تشدد کے احتجاج کی وکالت کی۔’

اس میں کہا گیا ہے،’ہم ایمانداری سے عمر اور دیگر شہریت کے کارکنوں کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مساوی اور منصفانہ مستقبل کے لیے اپنی خدمات دے سکیں۔’

(مکمل  خط پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)