
پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پانی کی سپلائی روکنے کی کسی بھی کوشش کو ‘جنگی اقدام’ تصور کرے گا اور پوری طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ یہ بیان پہلگام حملے کے بعد ہندوستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کے ردعمل میں آیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔
نئی دہلی: پاکستان کی حکومت نے جمعرات (24 اپریل) کو کہا کہ اگر سندھ آبی معاہدے کے تحت انہیں ملنے والے پانی کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی کوشش کی گئی تو اسے’ایکٹ آف وار’ یعنی جنگی اقدام تصور کیاجائے گا اور ‘پوری طاقت’ کے ساتھ اس کا جواب دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے پاکستان کا اشارہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کی جانب بھی تھا۔
یہ انتباہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد سامنے آیا، جو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب کی تیاری کے لیے بلائی گئی تھی ۔
منگل (22 اپریل) کو 26 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، پہلگام کے ایک بھیڑ بھاڑ والے گھاس کے میدان میں چار دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ میں مارے گئے۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔
ایک دن بعد ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدہ معطل کر رہا ہے، ہندوستان میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر رہا ہے، پاکستانی فوجی حکام کو ملک سے نکال رہا ہے اور سفارتی مشنوں کی تعداد کم کر رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان پریشان!
پاکستان نےکئی منفی اقدامات کیے، لیکن اس کی بنیادی پریشانی واضح طور پر پانی تھی۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں پاکستان کی قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے نے کہا کہ وہ’انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کے ہندوستان کے اعلان کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتا ہے۔’
اس معاہدے کو ایک’بائنڈنگ بین الاقوامی معاہدہ’ قرار دیتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ اس میں یکطرفہ طور پر معطلی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
بیان میں پانی کو ‘پاکستان کے اہم قومی مفاد اور 24 کروڑ لوگوں کے لیے لائف لائن’ قرار دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اس کی دستیابی کو ‘ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔’
مزید یہ کہ، ‘سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنےیا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اس کا جواب ‘قوم کی پوری طاقت’ کے ساتھ دیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے دراصل پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔
کیا پاکستان ایٹمی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے؟
سال 2002 میں پاکستانی فوج کے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی تھی، جو ہندوستان کے خلاف ایٹمی ردعمل کو ٹریگرکر سکتی تھیں۔ ان کے بیان کاحوالہ پگواش کانفرنس کی ایک رپورٹ میں دیا گیا تھا ، جس میں پاکستان کے سینئر حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے وفد گیا تھا۔
قدوائی کی طرف سے جن چار ریڈ لائن کی نشاندہی کی گئی تھی، اس میں سے تیسری ریڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے تو یہ جوہری ردعمل کو متحرک کر سکتا ہے۔
اس ریڈ لائن سے منسلک ایک فوٹ نوٹ میں لکھا تھا، ‘پاکستان کو معاشی طور پرجکڑنے کی مثالوں میں سمندری ناکہ بندی اور دریائے سندھ کے پانی کو روکنا شامل تھا۔’
ہندوستانی حکومت نے جمعرات کو پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کو ‘فوری اثر سے معطل’ کرنے کے اپنے فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا ۔
آبی وسائل کی سکریٹری دیباشری مکھرجی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو لکھے ایک خط میں کہا کہ،’سرحد پار دہشت گردی’ نے’سیکورٹی کی غیریقینی صورتحال’ کو جنم دیا ہے جس نے ‘معاہدے کے تحت ہندوستان کے حقوق کے مکمل استعمال میں براہ راست رکاوٹ ڈالی ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘دیگر خلاف ورزیوں کے علاوہ پاکستان نے معاہدے کے تحت مذاکرات شروع کرنے کی ہندوستان کی درخواست کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس طرح یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔’
پاکستان نے تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کیا
پاکستان نے جمعرات (24 اپریل) کو تمام دو طرفہ معاہدوں، جن میں 1972 کا شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، کو معطل کر دیا۔ اس معاہدے پر ہندوستان اور پاکستان نے 1971 کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کے نتیجے میں دستخط کیے تھے، جس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے پابند تھے۔
پاکستان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، لیکن ہندوستان کا موقف ہے کہ 1972 کا شملہ معاہدہ بنیادی ہے اور اس کے تحت کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے، اسے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ 1971 کی جنگ بندی کے بعد قائم ہونے والی لائن آف کنٹرول کا احترام کیا جانا چاہیے اور کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
ہندوستانی حکومت نے پاکستان کے اعلانات کا براہ راست جواب دیے بغیر اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ پاکستان نے شملہ معاہدہ رد کردیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستان اب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور بھی کرسکتا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)