گجرات میں پچھلے پانچ سالوں میں 40000 سے زیادہ خواتین لاپتہ ہیں: این سی آر بی ڈیٹا

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق ، سال 2016 میں 7105، 2017 میں 7712، 2018 میں 9246 اور 2019 میں 9268 خواتین لاپتہ ہوئی ہیں۔ سال 2020 میں 8290 خواتین کے لاپتہ ہونے کی جانکاری موصول ہوئی تھی، جس کے بعد کل تعداد 41621 تک ہوجاتی ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق ، سال 2016 میں 7105، 2017 میں 7712، 2018 میں 9246 اور 2019 میں 9268 خواتین لاپتہ ہوئی ہیں۔ سال 2020 میں 8290 خواتین کے لاپتہ ہونے کی جانکاری موصول ہوئی تھی،  جس کے بعد کل تعداد 41621 تک ہوجاتی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: گجرات میں پانچ سالوں کے دوران لاپتہ خواتین کے 40000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016 میں 7105، 2017 میں 7712، 2018 میں 9246 اور 2019 میں 9268 خواتین لاپتہ ہوئی ہیں۔ سال 2020 میں 8290 خواتین کے لاپتہ ہونے کی جانکاری موصول ہوئی تھی،  جس کے بعد کل تعداد 41621 تک ہوجاتی ہے۔

اتفاق سے 2021 میں اسمبلی میں دیے گئے ریاستی حکومت کے ایک بیان کے مطابق، احمد آباد اور وڈودرا میں صرف ایک سال (2019-20) میں 4722 خواتین لاپتہ ہو گئی تھیں۔

دی نیو انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، سابق آئی پی ایس افسر اور گجرات اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن سدھیر سنہا نے کہا، ‘کچھ لاپتہ افراد کے معاملات میں میں نے دیکھا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو بعض اوقات گجرات کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھیج کر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، پولیس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ گمشدگی کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ایسے واقعات قتل سےبھی  زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بچہ لاپتہ ہوتا ہے تو والدین اپنے بچے کے لیے برسوں انتظار کرتے ہیں، اور گمشدگی کے کیسوں کی بھی قتل کے معاملوں کی طرح ہی سختی سے تفتیش کی جانی چاہیے۔

سنہا نے کہا، لاپتہ افراد کے معاملات کو پولیس اکثر نظر انداز کر دیتی ہے، کیونکہ ان کی تفتیش برطانوی دور کے طریقے سے کی جاتی ہے۔

سابق ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر راجن پریہ درشی نے کہا کہ لڑکیوں کی گمشدگی کے لیے انسانی اسمگلنگ ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا،مرے دور میں، میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لاپتہ خواتین کو انسانی اسمگلنگ کے غیر قانونی گروہ اٹھا لیتے ہیں، جو انہیں دوسری ریاستوں میں لے جاتے ہیں اور بیچ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘جب میں کھیڑا ضلع میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) تھا، تو اتر پردیش کا ایک شخص، جو ضلع میں مزدوری کرتا تھا، ایک غریب لڑکی کو اٹھا کر اپنی آبائی ریاست میں فروخت کر دیا۔ جہاں اس کوایک کھیت مزدور کے طور پرکام پر لگایا گیا تھا۔ ہم اسے بچانے میں کامیاب ہو گئے، لیکن بہت سے معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔

دریں اثنا، گجرات کانگریس کے ترجمان ہیرین بنکر نے کہا، بی جے پی لیڈر کیرالہ میں خواتین کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست گجرات میں 40000 سے زیادہ خواتین لاپتہ ہیں۔

Next Article

آل پارٹی وفد میں شامل جان برٹاس اور اویسی بولے – حکومت سے شدید اختلاف، لیکن ملک کے لیے متحد

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

پہلگام دہشت گردانہ حملے اورآپریشن سیندور کے بعد جب اپوزیشن نریندر مودی حکومت سے مشترکہ پارلیامانی اجلاس اور وزیر اعظم کی موجودگی والی آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کر رہی تھی،اسی درمیان سب کو حیران کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اعلان کر  دیاکہ  وہ ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پرایک اہم سفارتی اقدام کے تحت  30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجے گی ۔

حکومت کے مطابق،اس  وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی شامل ہوں گے، جن میں کچھ  کی قیادت وہ خود کریں گے، مثلاً ششی تھرور (کانگریس)، سپریا سولے (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار)) اور کنیموزی (دراویڈ منیترا کزگم)۔

توقع ہے کہ یہ وفد 22 اور 23 مئی کو جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے لے کر برطانیہ، یورپی یونین، لاطینی امریکہ اور امریکہ تک دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں نمائندوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگا۔

تاہم، اس سے چین  کوباہررکھا جائے گا کیونکہ اس اقدام کا بنیادی مقصد آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی دہشت گردی کی نوعیت کو بے نقاب کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر الگ -تھلگ کرنا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘کُل جماعتی وفد تمام صورتوں  اور اظہاریہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے  کے لیے ہندوستان کےقومی اتفاق رائے اورنظریے  کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مضبوط پیغام پہنچائیں گے…’

اس حوالے سے پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا، ‘یہ سیاست سے بالا تر قومی اتحاد کا ایک طاقتور عکس ہے… ہندوستان ایک آواز میں بات کرے گا۔’

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام کے ذریعے حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ان تنقیدی آوازوں کو دبا دیا ہے، جس نے انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے تھے اورجس کی وجہ سے پہلگام میں قتل عام ہوا؟ متاثرین کو مدد ملنے میں تاخیر ہوئی۔ نام نہاد امریکی ثالثی سے جنگ بندی؛ اور دیگر متعلقہ سوالات کے مناسب جوابات مانگے جا رہےتھے؟

اس سلسلے میں دی وائر نے حزب اختلاف کے دو سرکردہ رہنماؤں سے بات کی، جو اس وفد کا حصہ ہیں –کیرالہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس، جو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کریں گے، اور حیدرآباد سےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدین اویسی،جو سعودی عرب، کویت ، بحرین اور الجیریاکا دورہ کریں گے۔

پیش ہیں اس بات چیت کے بعض اہم  اقتباسات؛

کیا مودی حکومت نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی سفارتی رابطہ کاری  کے لیے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ کو شامل کرکے اپنی غلطیوں اور تنقیدوں کو کم کرنے کا کام کیا ہے؟ حکومت نے اس معاملے پر سوال کا جواب دینے کے لیے پارلیامنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جان برٹاس: ہاں، ہم چاہتے تھے کہ حکومت پارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے، ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ وزیراعظم ایک آل پارٹی اجلاس کی صدارت کریں، کیونکہ وہ پاکستان سے متعلق گزشتہ دو اجلاس میں غیر حاضر تھے۔

ہمارے پاس بہت سارے سوال اور خدشات ہیں اور ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی  گھمنڈ بھرے بیانات سے کہ انہوں نے کس طرح جنگ بندی کی ثالثی کی اور کس طرح انہوں نے تجارت کو لالچ دیا۔ اس کے علاوہ انٹلی جنس کی ناکامی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے ردعمل میں تاخیر؛ میڈیا کے ذریعے نفرت، بنیاد پرستی اور جنگی جنون ؛ سکریٹری خارجہ اور ان کے اہل خانہ سمیت مارے گئے بحریہ  کےافسر کی اہلیہ پر سائبر حملے۔ ہم ان کا جواب چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے سائبر حملوں کے پس پردہ  کون  لوگ ہیں،اس کی جانچ کرنے کی اپیل کی گئی تھی،  لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ان تمام اور دیگر بہت سے پہلوؤں پر ہمیں اس حکومت سے شدیداختلاف ہے، لیکن جب بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے عوامی رابطوں کی بات آتی ہے تو ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واضح تفریق کرنا ضروری ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک جیسا سمجھتے ہیں، اور ہم اسے بالکل بھی بدل نہیں پائے ہیں۔

نیز، ہماری جمہوریت میں دو حزبی وفود کو بیرون ملک بھیجنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی میں 26/11 کے بعد وفود پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو اجاگر کرنے کے لیے گئے تھے۔

اب ہماری بھنویں تن گئی  ہیں، کیونکہ ہمیں مودی حکومت سے ایسے صحت مند سیاسی کلچر کی کبھی توقع نہیں تھی جیسا کہ ہم نے گزشتہ 11 سالوں میں کسی جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ ہماری شرکت دنیا کویہ  دکھانے کے لیے ہے کہ اس ملک کے جمہوری عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔

اسدالدین اویسی: پارلیامانی وفد سفارت کاری میں کوئی نئی روایت  نہیں ہے، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی یا منموہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔

اب پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہولناک قتل عام،جنہوں نےمذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا اور اس کے بعدپاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں  پر ہندوستان کے حملوں کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم ارکان پارلیامنٹ عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں اور انہیں اس خطے کے مسائل سے آگاہ کریں۔ ہندوستان  کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار  ہے، جس کی منصوبہ بندی اور سرپرستی ہمارے پڑوسی نے کی ہے اور ماضی میں بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ہم حکومت سے متفق نہیں ہیں اور جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری تک، ہم نے اس حکومت کے ہر بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل نام نہاد سیکولر جماعتوں نے 2019 میں خطرناک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ کی بھی حمایت کی، جس نے اتنے سارے نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

ہم حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں، ہم اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جہاں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی وجہ سے ہمارے شہری اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

کیا حکومت نے آپ کو ایجنڈے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کی  ہیں، جن سے آپ ملاقات کریں گے؟

جان برٹاس: دوسرے ممالک کو یہ بتانے کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک ذی شعور جمہوریت ہیں اور میں نے کل سکریٹری خارجہ کے ساتھ پروگرام کی بریفنگ کے دوران اس کا اشتراک کیا۔ میں نے کہا کہ ہمیں اپنے بھرپور تنوع اور ثقافتی کثرت کو اجاگر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم پاکستان کے برعکس ایک متحرک جمہوریت ہیں، جو مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔

ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مسلسل جھڑپوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان شروع سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے۔

ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی نقل نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہم ترقی، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

ہم نہ صرف ان ممالک کے ایکٹرز کے ساتھ بلکہ سول سوسائٹی، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے، جیسا کہ وزارت خارجہ نے ہمیں مطلع کیا ہے۔ جب ممبران پارلیامنٹ اور معززین کا وفد دورہ کرتا ہے تو ہم لوگوں کے بہت سے طبقوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک دورے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

اسدالدین اویسی : ایجنڈا بالکل واضح ہے – جب  میں نے صاف کر دیا ہے کہ جہاں تک ملک کے اندر مودی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے رہیں گے- لیکن اس آؤٹ ریچ پروگرام کا تعلق ہمارے ملک پر بیرونی حملے سے ہے۔

اور اگر موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیامنٹ جا کر بتائیں کہ پڑوسی ملک نے کیا کیا ہے، اور براہ کرم یاد رکھیں، آئین کا آرٹیکل 355 کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو حکومت  کوفوری ایکشن لینا چاہیے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ نے ابھی ہم سے بریفنگ کے لیے ملاقات کرنی ہے، ہم دوسرے بیچ میں جا رہے ہیں، لیکن ہم واضح ہیں کہ ملک کے دفاع کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔

کیا ہوگا اگر بین الاقوامی رہنما اور دیگر افرادجن سے آپ بات چیت کرتے ہیں وہ اقلیتوں پر مہلک حملوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر، حال ہی میں  علی خان محمود آباد کی ایک جائز سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سیڈیشن کے الزام میں گرفتاری؟

جان برٹاس: یہ مسائل یقینی طور پر ہماری تشویش کا حصہ ہیں – یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے کسی شخص کوبناوٹی الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے اور پارلیامنٹ میں بھی غیر آئینی گرفتاریوں کی بات  کی ہے۔

یقیناً، ہم سے ایسے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے، لیکن ہمارا وفد ان پر فیصلہ کرنے کے لیے کافی سمجھدار ہے۔ سفارتی رسائی میں شامل بین الاقوامی وفود کے لیے، ہمارا کام اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا بڑا ایجنڈا سامنے آئے۔ جہاں تک ملکی مسائل کا تعلق ہے، ہم اسے ملک کے اندر ہینڈل کرلیں گے۔

اسد الدین اویسی:  دنیا کو ہم سے اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف طے شدہ تعصبات پر سوال پوچھنے دیجیے۔ میں اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں۔ اگر آپ میرے 2013 کے ویڈیو دیکھیں، جب میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی، تو مجھ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھااوریہ سمجھائے  گا کہ میں ایسے سوالوں کا سامنا کیسے کرتا ہوں۔

میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور مجھ سےملک میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرا سادہ سا جواب تھا؛’آپ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں، انہوں نے 60 سال پہلے ہی طے کر لیا تھاکہ ہندوستان ان کا ملک ہے۔ ہمارا آئین بھی سیکولر ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔’

کیا پی ایم مودی اپنی عالمی رسائی میں ناکام رہے ہیں؟ انہوں نے مبینہ طور پر 11 سالوں میں 72 ممالک کے 129 دورے کیےہیں، لیکن انہیں کسی بھی عالمی رہنما  سے معمول کے وعظ و نصیحت کے سوا مشکل سے ہی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

جان برٹاس: میں حقیقت میں حیران ہوں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کے علاوہ میں نے کسی دوسرے ملک کی حمایت نہیں دیکھی۔ میں بھی اتنا ہی حیران ہوں کہ امریکہ نے کس طرح  کےرد عمل کااظہار کیا، جس طرح امریکہ نے برتاؤ کیا ہےاور ہمیں نیچا دکھایا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی طرف سے کی جا رہی بکواس پر ہندوستان کو شروع میں ہی واضح جواب دینے کی ضرورت ہے – جس طرح انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی تصویر کشی کی، جس طرح سے انہوں نے اس سودے کو انجام دیا، وہ کہتے ہیں؛ یہ باتیں ہمارے خلاف گئی  ہیں۔

میرے خیال میں مودی سرکار کی طرف سے محض انکار کے علاوہ ایگزیکٹو کی طرف سے بھی واضح جواب دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔

ٹرمپ کی لین دین کی ڈپلومیسی بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے، وہ صرف اپنے ملک کی تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی سرکار کے ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کے بائیکاٹ کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر ان ممالک کے ساتھ تجارتی سودے کیے۔

میرے خیال میں مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض تھا۔ یہ امریکہ کی چال تھی، کیونکہ قرض کی منظوری میں آئی ایم ایف بورڈ پر اس کا غالب اختیار ہے۔

ہندوستان نے مغربی ممالک کے ساتھ سفارت کاری میں جو بے تحاشہ سرمایہ کاری کی ہے، اس کے پیش نظر، ردعمل کم سے کم کہنے کے لیے مایوس کن رہاہے۔

اسد الدین اویسی: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک سے زوردار حمایت ملی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اب بھی نسلی امتیاز پر عمل پیرا ہے، جو کہ اسرائیل ہے؛ اور بعد میں افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے، جس نے پہلگام قتل عام کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ صرف دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔

تو ہاں، یقینی طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  جیسے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ضرور اصلاحات کی ضرورت ہے، جنھیں واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک جنگ بندی اور تجارتی معاہدے پر ٹرمپ کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ سیاسی قیادت ٹرمپ کی تردید کرےگی یا نہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

کووڈ-19معاملوں میں معمولی اضافہ، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں: ماہرین

ہانگ کانگ اور سنگاپور میں کووڈ-19 کے معاملات میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے،لیکن جے این.1ویرینٹ کی وجہ سے شدید بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت نے بھی کہا ہے کہ ملک میں حالات معمول پر ہیں، زیادہ تر معاملے ہلکے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑ رہی  ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہانگ کانگ اور سنگاپور میں حالیہ دنوں میں کووڈ 19 کے معاملوں میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، لیکن ہندوستانی حکومت نے واضح کیا ہے کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہانگ کانگ حکومت کی آفیشیل اپڈیٹ کے مطابق، سال کے 19ویں ہفتے (4-10 مئی) میں کووڈ-19 کے 1042 جبکہ چھلے ہفتے یہ معاملے972 تھے۔

معاملوں کی تعداد کے علاوہ، کووڈ-19 کی صورتحال کو سمجھنے کا ایک اور طریقہ ہے ‘سیویج سرولانس’۔ یہ فی کس وائرل لوڈ کی عکاسی کرتا ہے، اور اس لیے اسے درج کیے گئے معاملوں کے مقابلےزیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ کئی ایسے معاملے ہیں جو سامنے نہیں آ پاتے۔

ہانگ کانگ کی حکومت کے مطابق، 19ویں ہفتے میں’سیویج سرولانس’ کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، سارس سی او وی-2 (جو وائرس کووڈ-19 کا سبب بنتا ہے) کی سات دن کی اوسط مقدارتقریباً 710000 فی لیٹر تھی۔ پچھلے ہفتے یہ 690000 روپے فی لیٹر تھی۔

سنگاپور میں کووڈ 19 کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن اس اضافے کو تشویشناک نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ سنگاپور حکومت کے بیان کے مطابق، 27 اپریل سے 3 مئی 2025 کے درمیان کووڈ 19 کے معاملے کی تعداد بڑھ کر 14200 ہوگئی جبکہ پچھلے ہفتے یہ تعداد 11100 تھی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اسپتال میں داخل مریضوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے – 102 سے 133 تک – لیکن آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد کم ہوئی۔ پہلے روزانہ اوسطاً تین مریض آئی سی یو میں داخل ہوتے تھے، اب دو ہو ر ہے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسز کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے، لیکن بیماری کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔

نہ ہی سنگاپور اور نہ ہی ہانگ کانگ نے یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے اسپتال بھرے ہوئے ہیں، جیسا کہ 2021 میں ڈیلٹا لہر کے دوران ہوا تھا۔

اہم ویرینٹ اور معاملوں  میں اضافے کی وجوہات

اس وقت دونوں ممالک (سنگاپور اور ہانگ کانگ) میں پایا جانے والااہم کووڈ-19 ویرینٹ جے این.1 ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، فی الحال تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے، ‘دستیاب معلومات کی بنیاد پر جے این.1سے صحت کا خطرہ اس وقت عالمی سطح پر کم سمجھا جاتا ہے۔’

یہ ویرینٹ عالمی ادارہ صحت کے تمام خطوں میں پایا گیا ہے—جیسے مغربی پیسفک علاقہ، جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ، یورپی علاقہ اور امریکہ۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس ویرینٹ کو پہلے کے ویرینٹ کے مقابلے برتری حاصل ہے، یعنی یہ اپنی دوسری شکلوں کے مقابلے میں قدرے تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم، اس کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

تاہم، وائرس کو ختم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت (نیوٹرلائزیشن کی صلاحیت) کے لحاظ سے جے این.1 اور اس سے پہلے کے ویرینٹ میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ یعنی، مدافعتی نظام جے این.1کے ساتھ اسی طرح نمٹ سکتا ہے جیسا کہ اس نے پہلے کے ویرینٹ کے ساتھ کیا تھا۔

کسی بھی ویرینٹ سے ہونے والی بیماری کی شدت سب سے اہم اشارہ  ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، جے این.1 کی وجہ سے ہونے والی سنگین بیماری کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ اگر بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے، تو یہ ہسپتال میں داخل ہونے، آئی سی یو میں داخلے اور بعض صورتوں میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ بوجھ کا باعث بن سکتی ہے۔

معاملوں میں شدت  اب کوئی حیران کن بات نہیں ہے

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کووڈ-19 کے معاملات میں چھوٹے اضافے اب حیران کن نہیں ہیں۔ کووڈ-19 وائرس اب اینڈمک ہو چکا ہے، یعنی اب یہ صحت عامہ کی ایمرجنسی نہیں ہے۔

ایک خاص مدت کے بعد، تمام وائرس اینڈمک بن جاتے ہیں اور آبادی میں کسی نہ کسی شکل میں بیماری پھیلاتے رہتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وائرس کی وجہ سے بیماری کی شدت بڑھ جائے یا کیسز کی تعداد اچانک اور بغیر کسی واضح وجہ کے بڑھ جائے یعنی عام توقعات کے برعکس۔

کووڈ-19 بھی وائرس کے حوالے سے اس سائنسی سمجھ سے مختلف نہیں ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کووڈ-19 وائرس کی نوعیت مسلسل بدلتی رہتی ہے، جو شروع سے دیکھی جا رہی ہے۔ لہٰذا، کسی بھی وقت اس طرح کی ایک قسم ابھر سکتی ہے جو معاملات میں معمولی اضافے (پیک) کا سبب بن سکتی ہے۔

ہندوستانی حکومت کیا کہتی ہے؟

مرکزی وزارت صحت نے 19 مئی کو کہا، ’19 مئی 2025 تک، ہندوستان میں فعال کووڈ-19 کیسوں کی تعداد 257 ہے، جو کہ ملک کی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے بہت کم ہے۔’

‘تقریباً یہ تمام معاملات بغیر جوکھم والے ہیں، اس لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔’ وزارت نے کہا۔

ہندوستان میں کووڈ 19 کے مقامی اینڈمک ہونے کے بعد، جانچ میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ٹیسٹنگ میں کمی آئی ہے – یہ بات  عالمی ادارہ صحت ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہے۔ لہذا، سرکاری اعداد و شمار معاملوں کی تعداد کے لحاظ سے حقیقی تصویر نہیں دکھا سکتے ہیں۔

سرولانس، جووائرس کے پھیلاؤ کی موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتی  ہے، ہندوستان میں صرف چند اداروں کے ذریعے ہی کچھ جگہوں پر کی جا رہی ہے۔ سرکاری  بیان میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہندوستان میں فی الحال کون سا ویرینٹ سب سے زیادہ پایا جا رہا ہے۔

تاہم، حکومت کا موقف واضح کرتا ہے کہ چونکہ زیادہ تر رپورٹ شدہ کیسز میں ہلکی علامات ہوتی ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہندوستان: قومی سلامتی کے پاسبان

حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: سنسد ڈاٹ ان

فوٹو بہ شکریہ: سنسد ڈاٹ ان

پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور پھر اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی فوجی معرکہ آرائی، جو تقریباً باضابطہ جنگ کے قریب آن پہنچی تھی کے بعد پانچ گروپوں میں ہندوستانی پارلیامنٹ کے 59 اراکین دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی بیانیہ کا توڑ کرنے کی مہم پر نکل پڑے ہیں۔

ملک میں گو کہ آج کل مسلمانو ں کا قافیہ تنگ ہے، مگر بھلا ہو پاکستان کے ساتھ تصادم کا، اس قافلہ میں 11 مسلمانوں کو شامل کردیا گیا ہے، یعنی 18.64فیصد۔ کاش دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان کا یہی تناسب ہوتا۔

 خیر ہندوستان میں نرسمہا راؤ سے لےکر منموہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے ادوار، جو میں نے بطور صحافی کور کیے ہیں، بتایا جاتا تھا کہ علیٰ الصبح خفیہ ایجنسیوں داخلی ایجنسی انٹلی جنس بیورو اور بیرون ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسیز ونگ یعنی راء کے سربراہان یا ان کے نمائندے وزیر اعظم کو باالترتیب آدھے گھنٹے کی بریفنگ دیتے ہیں۔

وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ناشتہ کرنے سے قبل وزیر اعظم ہاؤس کے سر سبز لان میں چہل قدمی کرتے تھے اور اسی دوران ہی بریفنگ لیتے تھے۔ وزیر اعظم کو اس دن  ہونے والے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں جانکاری دی جاتی تھی۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اس روز جن افراد سے ملنا ہوتا تھا، وہ کو ن سے ایشو اٹھانے والے ہیں وہ بھی ان کو قبل از وقت بتایا جاتا تھا۔ تاکہ وہ پوری طرح تیار رہیں۔ اس پوری انفارمیشن کے بعد ہی وزیر اعظم اپنا دن شروع کرکے پھر اپنے عملہ کی میٹنگ لےکر احکامات دیتے تھے۔ اگر وہ بیرون ملک دورہ پر ہوں، تب بھی ان ایجنسیوں کے نمائند ے جو ان کے ہمراہ ہوتے ہیں، ان کو اسی طرح صبح بریف کرتے ہیں۔

 مگر2014کے بعد سے جب وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار آئے، تو یہ سارا  انتظام ہی گڑ بڑ ہوگیا ہے۔ سیکورٹی کے معاملوں پر اب وہ صرف قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خارجہ جئے شنکر سے ہی براہ راست بریفنگ لیتے ہیں۔ یہ تکڑی ہی اس وقت ہندوستان کی قومی سلامتی کی ضامن ہے۔

اب یہ افراد قومی سلامتی کو کس نظریہ سے دیکھتی ہے، اس کا تجزیہ اور خلاصہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک وقت ہم نیوز رومز میں تفریح کے طور پر امت شاہ(،جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردیے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کرےگا۔

اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے جہاں کیریئر ڈپلومیٹ سبرامنیم جئے شنکر کو وزیر خارجہ مقرر کیا، وہیں وزارت داخلہ کا اہم قلمدان اپنے دست راست امت شاہ کے سپرد کرکے پیغام دیا کہ وہی حکومت میں نمبر دو ہیں۔

گو کہ سرکاری طور پر ابھی بھی راج ناتھ سنگھ ہی کابینہ کے اجلاسوں میں وزیر اعظم کے دائیں طرف بیٹھتے ہیں، جو نمبر دو پوزیشن کے لیے وقف ہوتی ہے، مگر اہم معاملوں ہی ان سے خال خال ہی مشورہ کیا جاتا ہے۔

جب وہ مودی کی پہلی حکومت میں وزیر داخلہ تھے، تو جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت سے بی جے پی کے ہاتھ کھینچنے کی جانکاری ان کو  ٹی وی سے ہی معلوم ہوئی، جب بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں رام مادھو نے  پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس سے بس چند گھنٹہ قبل ہی اپنی رہائش گاہ پر دہلی میں کشمیر بیٹ کور کرنے والے صحافیوں پر زور دے رہے تھے کہ کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مودی اور امت شاہ کی جوڑی کا رشتہ 35سال پرانا ہے۔ 2001میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا۔

ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاونٹروں کے لیے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر بی کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا ۔اس کے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔

سال 2013میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔

سال 2014کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔

اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔شیو سینا کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے راوت نے حال ہی میں مراٹھی زبان میں شائع اپنی کتاب ‘نرکتلہ سوارگ’ میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق مرکزی وزیر اورنیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار اور شیوسینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے نے مودی اور امیت شاہ کو قانونی چنگل سے بچایا تھا۔

  راوت لکھتے ہیں، جب 2004 میں نئی دہلی میں کانگریس کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہو گئی تھی، تو طے کیا گیا تھا کہ گجرات کے 2002کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں مودی پر قانونی شکنجہ کسا جائے۔ مگر شرد پوار جو اہم مرکزی وزیر تھے، نے وزیراعظم منموہن سنگھ کو بتایا کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو جیل میں ڈالنا درست نہیں ہوگا۔

ویسے میری اطلاع کے مطابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کے مشیر احمد پٹیل، جو خود بھی گجرات سے تعلق رکھتے تھے، نے بھی مودی کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان سے سیاسی طور پر ہی نپٹنا چاہیے۔

راوت کے مطابق مرکزی تفتیشی ایجنسیاں شاہ کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں۔ ان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اوروہ ضمانت پر تھے۔ عدالت نے گجرات میں ان کے رہنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ یعنی ان کا تڑی پار کر دیا گیا تھا۔

تفتیشی ایجنسیاں ان کی ضمانت کی مخالفت کر رہی تھی اور ان میں ایک افسر مہاراشٹر کا تھا۔ امت شاہ اپنے بیٹے جئے شاہ، جو اس وقت کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں کی انگلی پکڑ کر ٹھاکرے کی رہائش گاہ ماتو شری پہنچے، مگر ان کو ملاقات نہیں دی گئی۔

انہوں نے ماتو شری کے باہر شیو سینا کے کارکنان کو بتایا کہ وہ گجرات اسمبلی کے رکن ہیں  اور ان کا ٹھاکرے سے ملنا ضروری ہے۔ خیر کئی روز کی تگ و دو کے بعدجب وہ ٹھاکرے کے روبرو اپنا دکھڑا سنا کر اپنےہندو ہونے اور ہندوؤں کا ساتھ دینے کی دہائی دے رہے تھے، تو شیو سینا کے سربراہ نے سابق وزیرا علیٰ منوہر جوشی کے فون سے کسی سے بات کرکے ان کی مشکل آسان کردی۔

بقول راوت ٹھاکرے نے اس شخص کو بتایا؛”کہ آپ کسی بھی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن یہ مت بھولنا کہ آپ ہندو ہیں۔“اس ایک کال سے ان کے کیسز کی رفتار سست ہوتی گئی۔ مگر راوت کا کہنا ہے کہ شاہ نے اس کا بدلہ اس طرح چکایا کہ بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے ان کی وفات کے بعد دو ٹکڑے کروادیے۔

اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے اپنا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا بنایا ہے۔

ان کے ایک فرزند اسلام آباد میں ہی پیدا ہوگئے اور کئی برس تک ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔

ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے  اپنی کتاب اے فیسٹ آف ولچرمیں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔

یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کو کراچی میں انجام دینا تھا۔

اس تکون کے تیسرے اہم فرد  وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر ہیں۔ وہ ہندوستان  کے اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977میں خارجہ آفس جوائن کیا۔

معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق ان کی کابینہ میں شمولیت سے ہندوستان کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جئے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میں شناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں بلاواسطہ طور پر خاصی مدد کی۔

منموہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہری معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ اس کے عوض سنگھ نے ان کو 2013 میں سکریٹری خارجہ بنانے کا من بنا لیا تھا۔ آف ریکارڈ بتایا گیا تھا کہ اگلے سکریٹری خارجہ جئے شنکر ہوں گے، شاید ان کی تقرری آخری مراحل میں تھی، کہ کانگریسی حکومت کے کئی وزراء جن میں کپل سبل اورآنند شرما شامل تھے، نے شور مچایا کہ ایک امریکہ نواز افسر کو اس اہم ذمہ داری دینے کا ہندوستان کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔

سونیا گاندھی کی مداخلت کی وجہ سے ان کی تقرری رک گئی اور ان کی جگہ سجاتا سنگھ کو خارجہ سکریٹری بنایا گیاا ور ان کو امریکہ میں بطور سفیر تعینات کیا گیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابھی تک گاندھی خاندان کو معاف نہیں کیا ہے۔

امریکہ میں سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی ہندوستانی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی  افواج کو خطے میں لاجسٹکس فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کورڈز کا تبادلہ شامل ہیں۔

کرناڈ کے مطابق ان معاہدوں کے ڈرافٹ ہندوستانی خارجہ آفس کے بجائے واشنگٹن سے ہی تیار ہو کر آئے تھے۔ شاید جئے شنکر کے امریکی دوست ان کا بوجھ کم کرنا چاہتے تھے۔2015 میں امریکی صدر اوبامہ کے دورے کے فوراً بعد ہی مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جئے شنکر کو خارجہ سکریٹری بنایا، جب ا ن کی ریٹائرمنٹ کا شاید ایک ہی دن بچا تھا۔

وکی لیکس کے مطابق دوران ملازمت وہ انتہائی حساس معلومات امریکہ کے ساتھ شئیر کرتے تھے۔ ایک بار امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہندوستانی موقف کی جانکاری خارجہ سکریٹری شیام سرن کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔

وکی لیکس کے مطابق یہ جانکاری جئے شنکر کے فراہم کی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں ہندوستان کے سفیر جئے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کے لیے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ بیجنگ میں ہندوستانی حکومت کے بجائے امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔

ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر ہندوستان، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دےگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جئے شنکر نے ایک  نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو ہندوستانی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔

دراصل ہندوستان میں اس وقت زمام کار ایڈونچر پسند افراد کے پاس ہے جو مقصد اور نتائج کی پروا کئے بغیر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔

سیاسی قیادت ایسے افراد سے صلاح و مشورہ کرسکتی ہے، ان سے اطلاعات لے سکتی ہے، مگر حتمی فیصلہ اپنی معاملہ فہمی، سوجھ بوجھ اور اس کے وسیع تر مضمرات کو نظر میں رکھ کر ہی کرنے کی ضرورت ہے۔

Next Article

اشوکا کے پروفیسر کو عبوری ضمانت، پہلگام اور آپریشن سیندور پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ان کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دے دی ۔ عدالت نے ان کےسوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، ‘عدالت نے محمود آباد کو آپریشن سیندور اور ہندوپاک فوجی تنازعہ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے محمود آباد سے  اپنا پاسپورٹ جمع کرانے کو بھی کہا ہے۔

اس معاملے پر ایک غیرمعمولی نوٹ میں عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر طلبہ اور پروفیسر،جو ظاہری طور پراشوکا یونیورسٹی کے ہیں’کچھ بھی کرنے کی ہمت کرتے ہیں، تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، اگر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش وغیرہ کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ان  سے کیسے نمٹا جائے، یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں۔’

ایس آئی ٹی جنگ مخالف پوسٹ کی تحقیقات کرے گی

محمود آباد کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بارے میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ کی بنچ نے کہا کہ اسے پڑھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے خلاف جاری تحقیقات پر روک کا کوئی معاملہ نہیں بنتاہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کی پیچیدگی کو سمجھنے اور پوسٹ میں استعمال کی جانے والی زبان کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے، وہ ہریانہ کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو انڈین پولیس سروس کے تین افسران پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دے رہی ہے جن کا تعلق ہریانہ یا دہلی سے نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس ایس آئی ٹی کی سربراہی انسپکٹر جنرل آف پولیس کریں گے اور اس کی ایک رکن خاتون افسر ہوں گی۔

سماعت کے دوران جسٹس کانت نے محمود آباد کے ‘فرض’ پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے وغیرہ… فرض کہاں ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک پچھلے 75 سالوں سے صرف حقوق کی تقسیم کر رہا ہے اور کوئی فرض نہیں ہے۔’

اس دوران جسٹس سوریہ  کانت خان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل کو یہ سمجھانا چاہتے تھےکہ ‘اسے ڈاگ وہسل’ یعنی کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے چھپے ہوئے پیغامات والی زبان کہا جاتا ہے۔

جسٹس کانت کا یہ بھی ماننا تھا کہ ‘اظہار رائے کی آزادی کے حامل معاشرے کے لیے یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ دوسرے فریق کی توہین کرنے اور اسے تکلیف دینے کے لیے جان بوجھ کر الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔’

اس سے قطع نظر کہ خان کے الفاظ اس طرح کے جرم کا سبب کیسے بن سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس’ لغت میں استعمال کرنے کے لیے الفاظ کی کمی نہیں ہونی چاہیے’ اور ‘وہ ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے’۔

تاہم،یہ واضح نہیں ہے کہ جسٹس کانت کو کون سی زبان ناگوار لگی۔

سبل نے کہا کہ خان کے الفاظ میں کوئی مجرمانہ ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ان کی بیوی 9 ماہ کی حاملہ ہے، لیکن وہ جیل میں ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی طرف سے دوسری ایف آئی آر بھی چونکا دینے والی ہے۔

اس معاملے کے بارے میں وکیل اندرا جئے سنگھ نے ایکس پر بتایا کہ خان اور ان کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن وہ جیل میں بیٹھے ہیں۔ وہیں، کرنل صوفیہ قریشی کو ‘دہشت گرد کی بہن’ کہہ کر گالی دینے والے بی جے پی کے وزیر کو سپریم کورٹ نےگرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔’

اشوکا یونیورسٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا

اس سلسلے میں اشوکا یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا ہے۔

یونیورسٹی نے کہا، ‘معزز سپریم کورٹ کی طرف سے پروفیسر علی خان محمود آباد کو عبوری ضمانت دینا ان کے خاندان اور اشوکا یونیورسٹی میں ہم سب کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ ہم عدالت کے مشکور ہیں۔’

پولیس محمود آباد سے اس کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک دشمن سرگرمیوں’ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے ریمانڈ میں توسیع کرنا چاہتی تھی۔

اس سے قبل، اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے ہریانہ پولیس نے 18 مئی اور 20 مئی کو ان کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک مخالف’ سرگرمیوں کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں ‘فنڈنگ’ آنے کا معاملہ اٹھایا تھا ۔

دی وائر نے محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر سے متعلق عدالتی دستاویزات دیکھے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ان کے بین الاقوامی دوروں اور سوشل میڈیا پربات چیت کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان کی حراست میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ پولیس نے کہا تھا کہ اگرچہ ان کے پاس محمود آباد کے بینک اکاؤنٹ نمبر موجود ہیں، لیکن انہیں اکاؤنٹ کی  تفصیلات اور اس کا پاسپورٹ نہیں ملا ہے جس سے ان کے غیر ملکی سفر کا پتہ چل سکے۔

اس سلسلے میں 20 مئی کو سونی پت کے فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے محمود آباد کے لیے سات دن کے پولیس ریمانڈ کی مانگ کرنے والی پولیس کی درخواست کو مسترد کر دیا اور سیاسیات کے پروفیسر محمود آباد کو 27 مئی تک عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔

اس سے قبل 18 مئی کو عدالت نے پولیس کو اسے اپنی تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کے لیے دو دن کا وقت دیا تھا۔ 20 مئی کو پولیس نے عدالت کو بتایا تھاکہ دو روزہ ریمانڈ کے دوران انہوں نے محمود آباد کا لیپ ٹاپ، آدھار کارڈ اور پاس بک کی کاپیاں ضبط کر لی ہیں۔ ان کاکا موبائل فون اور لیپ ٹاپ فرانزک سائنس لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ محمود آباد نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 14 ممالک کا سفر کیا ہے، اس لیے انہیں ان  کے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ حاصل کرنا ہوگا۔

پولیس نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر محمود آباد کی بات چیت  کا ریکارڈ بھی ابھی تک برآمد یا حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت میں دلیل دی کہ ان کے بینک کھاتوں سے متعلق تمام تفصیلات پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ سے متعلق معلومات بھی پولیس کو فراہم کر دی گئی ہیں تاکہ ان کے سفر کے بارے میں حقائق معلوم کیے جا سکیں۔

محمود آباد نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنا پاسپورٹ 21 مئی کی شام 5 بجے تک اپنے وکیل کے ذریعے کیس کے تفتیشی افسر کو جمع کرائیں گے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے محمود آباد نے شام کی دمشق یونیورسٹی میں عربی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے لبنان، مصر، ایران، عراق اور یمن کا بھی سفر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایمہرسٹ کالج، امریکہ سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

ان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ محمود آباد کیمبرج یونیورسٹی کے اسکالر تھے اور دوسرے ممالک میں ان کے کئی  دوست ہیں۔ اس لیے یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ان  کا ‘کسی ملک دشمن عناصر سے کوئی تعلق ہے۔’

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ان کی اہلیہ کی بینک تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے کہا کہ چونکہ تفتیشی ایجنسی کو ابھی تک مطلوبہ تفصیلات موصول نہیں ہوئیں اور یہ حقیقت بھی کہ پولیس بی این ایس کی دفعہ 187 (2) کے مطابق تفتیش کے پہلے 60 دنوں میں حراست طلب کر سکتی ہے، اس لیے تفتیشی افسر کو تمام تفصیلات موصول ہونے کے بعد ہی تحویل کے لیے نئی درخواست دینے کا موقع ملے گا۔

گزشتہ 18 مئی کو ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹرز نے پولیس کی تحویل کی درخواست کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ محمود آباد کے’ملک مخالف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور اس مقصد کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں جمع کی گئی رقم’ کے حوالے سے کیس کی مزید تفتیش ضروری ہے۔

پولیس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہیں محمود آباد کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع میں واقع ان کے آبائی گاؤں لے جانے کے لیے وقت درکار ہے تاکہ مبینہ جرم کے پیچھے مبینہ ‘گہری سازش’ کے بارے میں بتایا جا سکے اور سامان برآمد کیا جا سکے۔

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

Next Article

ہندوستانیوں میں فیک نیوز اور صحیح خبروں میں فرق کرنے کی تمیز سب سے کم: رپورٹ

پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی صلاحیت سب سے کمزور ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں  میں فطری  طورخبر کو سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے)

نئی دہلی: ہندوستان، امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں8800 لوگوں پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستانیوں میں  فرضی خبروں اور غلط معلومات کے تئیں حساسیت زیادہ  ہوتی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کے ایک مطالعہ پر مبنی رپورٹ گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ لوگوں میں اصلی خبروں کوفرضی خبروں سے الگ  کرنے کی صلاحیت کس طرح متاثر ہوتی ہے۔

مطالعہ میں 8800 شرکاء کو کچھ اصلی اور جعلی سرخیاں دکھائی گئیں۔ اصلی سرخیاں معتبر خبر رساں اداروں سے تھیں، جبکہ جعلی سرخیاں حقائق کی جانچ کرنے والی سائٹوں سے تھیں۔

ہیڈ لائن کو عام سوشل میڈیا پوسٹ کی طرح بنایاگیا تھا، جس میں ماخذ، لائیک اور کوئی تبصرہ نہیں تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ شرکاء سرخی کی بنیاد پر خبر کی صداقت کا اندازہ لگا سکیں۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہندوستانیوں میں اصلی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی سب سے کمزور صلاحیت ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں  میں فطری طور پر خبر کور سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے شرکاء سب سے زیادہ ذہین تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ڈیجیٹل لینڈاسکیپ کے فروغ کی وجہ سےغلط معلومات کے پیمانے اور پیچیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔صارف کی مصروفیت کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے بنائے گئے الگورتھم، نادانستہ طور پر سنسنی خیز یا تفرقہ انگیز مواد کو بڑھاوا دے سکتے ہیں، اگر ان کا ڈیزائن یعنی خبر کے وائرل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔’

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں میں سرخیوں پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ مثبت جذبات کو جنم دیتے ہیں، لیکن وہ منفی جذبات کے بارے میں شکوک  وشبہات کا اظہار کم کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ سازی پر اس کے جذباتی اثرات کی وجہ سے ہندوستان میں لوگ جذباتی طور پرمشتعل اور غلط معلومات کے تئیں زیادہ حساس ہوجاتے  ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ہندوستانیوں کو حقیقی خبر دی جاتی ہے تو وہ اسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلط معلومات کی وجہ سے درپیش چیلنجز کے باوجودہندوستان میں لوگوں میں سچائی کو پہچاننے کی مضبوط بنیادی صلاحیت ہے۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی خبروں کی شناخت کی درستگی دوسرے ممالک کے برابر ہے۔

اپسوس  انڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر (ریسرچ) وویک گپتا نے کہا کہ مثبت خبروں پر عام طور پر منفی خبروں کے مقابلے میں کم سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ایک اچھی لیکن جھوٹی سرخی، جیسے کہ ‘ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان سب سے اوپر’، پر یقین کرنے اور بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، بھلے ہی یہ سچ نہ ہو۔ ‘تمام مقامی اسٹریٹ وینڈرز پر پابندی لگانے کے لیے حکومت کی نئی پالیسی’جیسے منفی طور پر بنائے گئے جھوٹے بیانیےکو اب بھی بغیر کسی سوال کے قبول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ لوگ جو کچھ پڑھتے ہیں اس پر ٹھہر کرسوچنے  اور ان کا تنقیدی جائزہ لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔

گپتا نے کہا، ‘ منفی خبروں کے معاملے میں برطانیہ سب سے زیادہ سوال اٹھاتا ہے… امریکہ زیادہ تحقیقات کے بغیر منفی خبروں پر یقین کرلیتا ہے۔’