پاکستان کی حمایت میں نعرے بازی: گرفتار کشمیری طلبا کے اہل خانہ کے پاس کیس لڑنے کے پیسے نہیں

اتر پردیش کےآگرہ میں انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہےکشمیر کےتین طالبعلموں کو گزشتہ24 اکتوبر کو ہندوستان پاکستان کے بیچ ٹی20ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں پاک کی جیت پر جشن منانے کے الزام میں سیڈیشن سے متعلقہ دفعات میں گرفتار کیا گیا ہے۔تینوں طالبعلم غریب گھروں سے ہیں اور پرائم منسٹر اسپیشل اسکالر شپ اسکیم کے تحت پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے انہیں معاف کرنے کی اپیل سرکار سے کی ہے۔

اتر پردیش کےآگرہ میں انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہےکشمیر کےتین طالبعلموں کو گزشتہ24 اکتوبر کو ہندوستان پاکستان کے بیچ ٹی20ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں پاک کی جیت پر جشن منانے کے الزام میں سیڈیشن سے متعلقہ دفعات میں گرفتار کیا گیا ہے۔تینوں طالبعلم غریب گھروں سے ہیں اور پرائم منسٹر اسپیشل اسکالر شپ اسکیم کے تحت پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے انہیں معاف کرنے کی اپیل سرکار سے کی ہے۔

ارشد یوسف پال کی ماں اور دوسرے رشتہ دار(فوٹو: فیضان میر)

ارشد یوسف پال کی ماں اور دوسرے رشتہ دار(فوٹو: فیضان میر)

سینٹرل کشمیر کے ہردی چیکی چک پورہ گاؤں کے رہنے والے ارشد یوسف پال اور دو دوسرے کشمیری طالبعلموں کو مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت میں نعرےبازی کرنے کے لیے27 اکتوبر کو اتر پردیش پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

ارشد(21 سال)اور شمالی کشمیر کے باندی پورہ ضلع کے دو دوسرے کشمیری طالبعلم عنایت الطاف شیخ اور شوکت احمد گنئی آگرہ کے ایک پرائیویٹ کالج سے انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہے تھے۔

ارشد کی45سالہ ماں حفیظہ صحافیوں سے بات چیت میں کہتی ہیں،‘ہو سکتا ہے کہ اس نے (ارشد)کچھ غلطی کی ہو لیکن میں سرکار سے اسے معاف کرنے کی اپیل کرتی ہوں۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے، گھر  کا اہم سہارا ہے۔ دو دہائی  پہلے میرے شوہر کی موت ہو گئی تھی اور میری دو بیٹیاں ہیں۔’

تینوں طالبعلموں کےخلاف آئی پی سی کی دفعہ153اے(مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 505(1)(بی)(عوام میں ڈر پیدا کرنے کی منشا رکھنے والے)اورآئی ٹی ایکٹ2008 کی دفعہ66ایف(سائبر دہشت گردی  کے لیے سزا)کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

بی جے پی  کےمقامی رہنماؤں کی شکایت پر یہ معاملہ درج کیا گیا ہے، جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ 24 اکتوبر کو ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ٹی20 ورلڈ کپ کرکٹ میچ کے دوران پاکستان کی جیت پر آگرہ کے راجہ بلونت سنگھ مینجمنٹ ٹیکنیکل کیمپس(آربی ایس ایم ٹی سی)میں کشمیری طالبعلموں نے پاکستان کی حمایت میں نعرےبازی کی تھی۔

حالانکہ کالج انتظامیہ نے نعرےبازی کے الزامات سے انکار کیا ہے، لیکن تین کشمیری طالبعلموں کو سسپنڈ کر دیا گیا اور بعد میں انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

آربی ایس ایم ٹی سی کےاکیڈمکس کے ڈائریکٹر بی ایش کشواہا نے ٹائمس آف انڈیا کو بتایا کہ پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے، اسٹاف کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور کالج انتظامیہ پر دباؤ بنانے کے لیے بی جے پی  کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے،‘کالج انتظامیہ نے ان طلبا کو کلین چٹ دے دی تھی لیکن یوپی پولیس ان غریب بچوں کو ہراساں کر رہی ہے۔’

اتر پردیش سرکار نے تینوں طلبا کی فیس بک پرمبینہ طور پر قابل اعتراض تبصروں کے بعد ان کے خلاف سیڈیشن کی دفعہ  لگائی۔اس سے کشمیر میں ان کےاہل خانہ فکرمند ہیں۔

ارشد کے چچا پیشہ سےمزدور ہلال احمد نے کہا،‘ہمیں اس کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔ہمیں اس کی گرفتاری کے بارے میں فیس بک سے پتہ چلا۔ جب ہم نے بدھ کو اسے کال کرنے کی کوشش کی تو اس کا فون بند تھا۔’

گرفتار کیے گئے یہ سبھی کشمیری طالبعلم غریب گھروں سے ہیں اور 2010 میں اس وقت کی  منموہن سنگھ حکومت  کے ذریعے شروع کی گئی پرائم منسٹراسپیشل اسکالر شپ اسکیم کے تحت پڑھ رہے ہیں۔

ارشد اپنے دو چچاؤں، ان کے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں اور ایک درجن سے زیادہ  چچازاد بھائیوں کے اپنے توسیعی خاندان میں واحد ممبر ہیں، جو بیچلر کی ڈگری پوری کرنے والے ہیں۔ان کی فیملی میں ان کی عمر کے دوسرے ممبر غریبی کی وجہ سے اسکول کی پڑھائی پوری نہیں کر پائے۔

ان کے چچا ہلال نے کہا،‘ارشد کو گھر میں رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اب کیا وہ اپنی پڑھائی پوری کر پائےگا؟ اس کا مستقبل تباہ ہو گیا ہے۔’

گرفتار عنایت الطاف شیخ کے والدین۔ (فوٹو: فیضان میر)

گرفتار عنایت الطاف شیخ کے والدین۔ (فوٹو: فیضان میر)

اہل خانہ کے پاس ارشد سے ملنے کے لیے کشمیر سے آگرہ جانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کے لیے قانونی متبادل تلاش کر سکتے ہیں۔

ہلال نے کہا،‘ہم تنگی میں جی رہے ہیں۔ ہمارے والد اور چچا مزدوری کرتے تھے۔ ہم بھی دہاڑی مزدور ہیں۔ ہمارے پاس زمین بھی نہیں ہے۔ ہم غریب ہیں۔’

بتا دیں کہ 28 اکتوبر کو ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگرہ میں عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ان طالبعلموں پر حملہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے ان طالبعلموں کو 14 دنوں کی عدالتی ریمانڈ میں بھیج دیا تھا۔ حملہ آور ‘پاکستان مردہ باد’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’کے نعرے لگا رہے تھے۔

ہلال نے کہا،‘ہم نے ویڈیو دیکھا، لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اس سے بہت دور ہیں اور لاچار ہیں۔ اس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اسے گرفتار کیوں کیا گیا ہے؟ وہ بچہ ہے لیکن اس کے ساتھ مجرم  کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔’

وہیں ہلال خوش ہیں کہ حملے کے وقت عدالت کےکیمپس میں پولیس اہلکار تعینات تھے۔

ہلال نے کہا، ‘اگر پولیس وہاں نہیں ہوتی تو وہ لوگ (بی جے پی کارکن)کچھ بھی کر سکتے تھے۔ وہ خون کے پیاسے لگ رہے تھے۔’

ان تینوں گھروں  میں صرف عنایت کےچچازاد  بھائی سمیر احمد ہی آگرہ جا سکے۔ سمیرجمعہ (29 اکتوبر)کو اپنے دوست کے ساتھ آگرہ پہنچے۔

پیشہ سے فارماسیٹکل ٹریڈرسمیر نے دی وائر کو بتایا،‘ایک وکیل نے مجھے بتایا کہ آگرہ بار ایسوسی ایشن نے ان کی طرف  سے معاملہ نہیں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟’

انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون سی جیل میں بند ہے۔ مجھے پولیس اسٹیشن جانے میں بھی ڈر لگ رہا ہے۔’

شوکت کی ماں حفیظہ۔ (فوٹو: فیضان میر)

شوکت کی ماں حفیظہ۔ (فوٹو: فیضان میر)

اس بیچ تیسرے طالبعلم شوکت کےسوگوار اہل خانہ جمعہ کو سرینگر کے پریس انکلیو پہنچا۔ اس دوران شوکت کے رشتہ دار اور کچھ پڑوسی بھی تھے۔

شوکت کے والدین نے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا سے معاملے میں دخل اندازی  کرنے کی اپیل کی۔

شوکت کی ماں حفیظہ نے کہا،‘میرے پاس اس کی رہائی کویقینی بنانے کے لیےوسائل نہیں ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں۔میرا بیٹا سرکاری اسکالر شپ کی وجہ سے پڑھ پایا۔ اگر اس نے کوئی غلطی کی ہے تو میں لیفٹیننٹ گورنر سے اسے معاف کرنے کی اپیل کرتی ہوں۔’

اخلاقیات کے ضابطے

تینوں کشمیری طالبعلموں پر سیڈیشن کی دفعہ  لگائے جانے کی چرچہ کے بیچ سپریم کورٹ کے سابق  جج جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ  کے دفتر کے ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جیت کا جشن منارہے کشمیری طالبعلموں پر سیڈیشن کاالزام  لگایا جائےگا، لیکن یہ یقینی طور پر سیڈیشن نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ رکھنا بےحدمضحکہ خیز ہے۔

جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعے پاکستان کی جیت کا جشن منانے والوں پر سیڈیشن کا کیس کرنے کا حکم دینا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کا ٹوئٹ کرنا بےحد غیرذمہ دارانہ  بیان ہے۔

سبکدوش جج نے دی وائر کے لیے کیے گئے انٹرویو میں کرن تھاپر کو بتایا،‘کوئی چیز اچھی یا بری ہو سکتی ہے، لیکن اس کی وجہ سےیہ مجرمانہ یا غیرقانونی نہیں ہو جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سبھی قانونی کام اچھے یا اخلاقی  ہوں۔ لیکن ہم قانون کی حکمرانی سے گائیڈ ہوتے ہیں، نہ کہ اخلاقیات کے ضابطے سے۔’

بتا دیں کہ ٹی20 ورلڈ کپ میچ میں ہندوستان پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پرمبینہ جشن کو لےکر جموں وکشمیر انتظامیہ نے سخت ردعمل  دیا تھا اور وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر قابل اعتراض تبصرہ  کرنے کو لےکر جموں کے پونچھ ضلع میں محکمہ صحت  کی ایک ملازم کو برخاست کر دیا تھا۔

جموں و کشمیر پولیس نے بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کا مبینہ طور پر جشن منا رہے طالبعلموں اور سری نگر کے دو میڈیکل کالج کے نان ٹیچنگ اسٹاف کے خلاف سیڈیشن کے تحت دو الگ الگ معاملے درج کیے ہیں۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی کی صدرمحبوبہ مفتی نے کشمیری طالبعلموں پر کی گئی اس کارروائی کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)