این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں نے کانوڑ روٹ کے دکانداروں کے لیے جاری ہدایات کو امتیازی قرار دیا

بھارتیہ جنتا پارٹی مقتدرہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں پولیس نے کانوڑ یاترا کے راستے پر دکانداروں کو دکانوں پر اپنا نام لکھنے کی ہدایت دی ہے۔ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد کے اتحادیوں نے اسے 'امتیازی' قرار دیتے ہوئے اپنا اعتراض ظاہر کیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی مقتدرہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں پولیس نے کانوڑ یاترا کے راستے پر دکانداروں کو دکانوں پر اپنا نام لکھنے کی ہدایت دی ہے۔ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد کے اتحادیوں نے اسے ‘امتیازی’ قرار دیتے ہوئے اپنا اعتراض ظاہر کیا ہے۔

کانوڑ یاترا۔ (تصویر: منیش کمار)

کانوڑ یاترا۔ (تصویر: منیش کمار)

نئی دہلی: اتر پردیش کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ کے دیگر اضلاع میں بھی آنے والی کانوڑ یاترا کے دوران کھانے پینے کی دکانوں پر مالکان کے نام ظاہر کرنے اور ان کے مذہب کو واضح کرنے سےمتعلق  ہدایات لاگو ہونے کے بعد حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادیوں نے اس معاملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے ‘امتیازی’ قرار دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،  لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے صدر چراغ پاسوان نے کہا کہ وہ مظفر نگر پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایڈوائزری سے متفق نہیں ہیں۔

مرکزی وزیر پاسوان نے کہا، ‘ غریبوں کے لیے کام کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے ، جس میں دلت، پچھڑے، اونچی ذات اور مسلمان جیسے سماج کے تمام طبقات شامل ہیں۔ جب بھی ذات یا مذہب کے نام پر اس طرح کی تقسیم ہوتی ہے، میں اس کی حمایت یا حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میری عمر کا کوئی بھی پڑھا لکھا نوجوان، چاہے وہ کسی ذات یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، ایسی چیزوں سے متاثر ہوتا ہے۔‘

وہیں،مظفر نگر سمیت مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) نے کہا کہ وہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے سامنے اپنے اعتراضات اٹھائے گا، جس کا وہ حصہ ہے۔

آر ایل ڈی کے قومی سکریٹری انوپم مشرا نے اخبار کو بتایا، ‘سب سے پہلے، ہماری پارٹی کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا فیصلہ لیا جاتا ہے جو لوگوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرتا ہے، تو حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اس کی ٹائمنگ غلط ہے۔ فوڈ سیفٹی ریگولیشنز کے مطابق، ہر ریستوراں کو اپنا نام اور اپنی مصنوعات کی تفصیلات ظاہر کرنی ہوتی ہیں۔ اگر اس (پولیس کے آرڈر کو) پر عملدرآمد کرنا ہے تو اسے ویج اور نان ویج میں تقسیم کیا جانا چاہیے، جس میں لال یا ہرے رنگ کی علامت ہو، جیسے کہ کھانے کے پیکٹوں پرہوتے ہیں… ہمارے ملک میں مختلف برادریوں کے لوگ ہیں اور ہم آہنگی برقرار رکھی جانی چاہیے۔’

مشرا نے کہا، ‘یوپی حکومت میں ہماری حصہ داری ہے اور یوپی حکومت میں ہمارے وزراء وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کریں گے۔ ہم اس معاملے کو مرکز اور ریاست میں اٹھائیں گے۔‘

آر ایل ڈی نے جمعرات کو اخبار کو بتایا تھا کہ اسے ایسی ہدایات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

آر ایل ڈی کے اتر پردیش کے سربراہ راما شیش رائے نے بھی اس ہدایت کو ‘آئین کے خلاف قدم’ قرار دیا۔ رائے نے کہا، ‘حکومت کو بلا تاخیر اسے واپس لینا چاہیے۔’

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ)، جو بہار میں بی جے پی کی اتحادی ہے اور جس کی حمایت مرکز میں این ڈی اے حکومت کی بقا کے لیے بہت اہم ہے، نے کہا کہ یہ ہدایت ہندوستانی سماج اور این ڈی اے کے لیے وزیر اعظم کے’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کاوشواس’ کے خلاف ہے۔

جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے کہا، ‘بہار میں یوپی سے بڑی کانوڑ یاترا ہوتی  ہے۔ وہاں ایسا کوئی حکم لاگو نہیں ہے۔ یوپی میں پولیس کی طرف سے لگائی گئی یہ پابندیاں وزیر اعظم مودی کے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے جذبے کی خلاف ورزی ہیں۔ اگر حکم پر نظرثانی کی جائے یا واپس لے لیا جائے تو اچھا ہو گا۔‘

بی جے پی نے فیصلے کا دفاع کیا

تاہم، بی جے پی نے حکم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بھی ایسا ہی تھا۔ سابق مرکزی وزیر سنجیو بالیان، جو مظفر نگر سے ایم پی تھے اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہار گئے، نے سماج وادی پارٹی (ایس پی) پر فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دینے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا، ‘مظفر نگر پولیس کی ہدایات کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ گزشتہ سال بھی یہی احکامات نافذ تھے۔

میرٹھ کے سردھناسے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے سنگیت سوم نے بھی اس حکم کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ یاترا میں شریک عقیدت مندوں کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ وہ جو کھانا کھا رہے ہیں اسے کون بیچ رہا ہے۔ ملک بھر میں اس طرح کی کئی رپورٹ سامنے آئی ہیں اور ہم نے شادیوں کے دوران ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کے کھانے کو آلودہ کرنے کے ان گنت ویڈیو دیکھے ہیں۔

میرٹھ زون کے ایڈیشنل ڈی جی پی (اے ڈی جی پی) دھرو کانت ٹھاکر نے کہا، ‘کھانے پینے کی دکانوں اور سڑک کے کنارے ٹھیلوں پر مالکان کے نام ظاہر کرنے کا حکم گزشتہ سال بھی نافذ کیا گیا تھا۔ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ان احکامات پر عمل کیا جانا چاہیے۔‘

ٹھاکر کے مطابق، اس ہدایت پر سختی سے عمل آوری سے پہلے ہی مظفر نگر، شاملی اور باغپت جیسے اضلاع میں ریستوراں کے مالکان نے اپنے مالکوں کے نام نمایاں طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ اے ڈی جی پی نے کہا، ‘اس طرح کے قدم کا مقصد مکمل شفافیت ہے، تاکہ یاتریوں میں کوئی بھرم  پیدا نہ ہو۔’

مظفر نگر پولیس نے اپنے حکم پر وضاحت پیش کی تھی

تاہم، ریستوراں کے مالکان کے نام ظاہر کرنے کی ہدایت پر تنقید کے بعد مظفر نگر پولیس نے جمعرات کو ایک ترمیم شدہ حکم جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ رضاکارانہ تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا، ‘ساون کے مقدس مہینے کے دوران بہت سے لوگ، خاص طور پر کانوڑیے، کھانے کی کچھ اشیاء سے پرہیز کرتے ہیں۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں کانوڑ یاترا کے راستے پر کھانے پینے کی دکانوں نے اپنی دکانوں کے نام اس طرح سے رکھے تھے کہ اس سے یاتریوں میں بھرم  پیدا ہو گیا تھا، جس سے امن و امان کا مسئلہ  پیدا ہو گیا تھا۔ اس طرح کی صورتحال سے بچنے اور عقیدت مندوں کے عقیدے کو مدنظر رکھتے ہوئے راستے میں واقع ہوٹلوں، ڈھابوں اور دیگر کھانے پینے کی دکانوں کے مالکان اور ملازمین سے درخواست کی گئی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کریں۔‘

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ‘اس حکم کا مقصد کوئی مذہبی تفریق پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ… صرف عقیدت مندوں کی سہولت کے لیے ہے… ماضی میں بھی ایسے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں۔’

دریں اثنا، کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا نے جمعہ کو اس ایڈوائزری کو فوراً  واپس لینے اور اس کے پیچھے کے حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔

انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا، ‘ہمارا آئین ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اس کے ساتھ ذات، مذہب، زبان یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اتر پردیش میں ٹھیلوں، اسٹالوں اور دکانوں پر ان کے مالکان کے نام کے بورڈ لگانے کا تفرقہ انگیز حکم ہمارے آئین، ہماری جمہوریت اور ہماری مشترکہ وراثت پر حملہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر سماج میں تقسیم پیدا کرنا آئین کے خلاف جرم ہے۔ اس حکم کو فوراً واپس لیا جانا چاہیے اور اسے جاری کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

مغربی اتر پردیش کے سہارنپور سے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ عمران مسعود نے کہا کہ اس طرح کی ہدایات سے صرف نفرت ہی پھیلے گی اور اس کے پیچھے کے افسران کے ساتھ سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔

مظفر نگر کے ایم پی ہریندر ملک نے کہا کہ اس طرح کی ہدایات شہر میں تشدد کو واپس لا سکتی ہیں، جہاں 2013 کے فسادات سے پہلے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تاریخ رہی ہے۔

اس دوران جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ جس طرح دلتوں کو کبھی چھواچھوت کا شکار ہونا پڑتا تھا، اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ سلوک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس قدم کے دوررس نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے مدنی نے کہا، ‘اس سے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے والی قوتوں کو تقویت ملے گی اور ملک دشمن عناصر کو حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔’

انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں سے کانوڑ یاترا گزرتی ہے وہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘مسلمانوں نے ہمیشہ کانوڑیوں کے عقائد کا احترام کیا ہے اور انہیں کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔’

معلوم ہو کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھکتوں  کے ’احترام‘ میں اس سال ریاست میں کانوڑ یاترا کے راستوں پر گوشت کی کھلے عام فروخت اور خریداری پر  پابندی لگا دی ہے  ۔

وہیں   اتراکھنڈ کے ہری دوار میں اتراکھنڈ کے ہری دوار میں پولیس نے کانوڑ یاترا کے دوران ٹھیلوں سمیت سڑک کنارے اسٹالوں اور کھانے پینے کی دکانوں کواپنے مالکان  کا نام لکھنے کو کہا ہے۔ اس کے علاوہ ہدایات میں ہوٹلوں اور ڈھابوں میں گوشت، انڈے، لہسن اور پیاز کے استعمال پر پابندی، شراب اور نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی، اشیائے خوردونوش کی ریٹ لسٹ نمایاں طور پر آویزاں کرنا اور ادائیگی کے لیے آپریٹرز کے  نام کا کیو آر کوڈ یقینی کرنا شامل  ہے۔