سپریم کورٹ نے نام نہاد ‘بلڈوزر جسٹس’ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی اگلی شنوائی (ایک اکتوبر) تک اس کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس ہدایت کا اطلاق عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں یا غیر مجاز تعمیرات پر نہیں ہوگا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اپنے عبوری فیصلے میں مختلف ریاستی حکومتوں کے ‘بلڈوزر ایکشن’ پر پابندی لگا دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے مبینہ ملزمان کی جائیداد بلڈوزر سے گرانے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے منگل ( 17 ستمبر ) کو کہا کہ کسی شخص کی جائیداد کو اس کی اجازت کے بغیرصرف اس لیےنہیں گرایا جانا چاہیے کہ اس پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بنچ نے عبوری فیصلے میں کہا ، ‘اگلی تاریخ تک اس عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ تاہم ، یہ حکم عوامی سڑکوں ، فٹ پاتھ ، ریلوے لائنوں یا عوامی مقامات پر غیر مجاز تعمیرات پر لاگو نہیں ہوگا ۔ ‘
عدالت نے اگلی شنوائی ایک اکتوبر کو طے کی ہے۔
دو ہفتے میں آسمان نہیں گر جائے گا – عدالت
لائیو لاء کے مطابق، سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالتی حکم پر اعتراض کیا اور کہا کہ قانونی کارروائی کرنے والے افسران کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے۔ تاہم ، بنچ نے نرمی کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر انہدام کو دو ہفتے تک روک دیا جائے تو ‘آسمان نہیں گرجائے گا۔ ‘
جسٹس گوئی نے پوچھا ، ‘اپنے ہاتھ رولیجیے۔15 دنوں میں کیا ہوجائےگا ؟‘
جب سالیسٹر جنرل نے کہا کہ وہ اتھارٹی سے پورے ہندوستان میں کنٹرول رکھنے کے لیے نہیں کہہ سکتے ، بنچ نےبتایا کہ اس نے یہ ہدایت آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جاری کی ہے ۔
جسٹس گوئی نے کہا ، ‘ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم غیر مجاز تعمیرات کے راستے میں نہیں آئیں گے … لیکن ایگزیکٹو جج نہیں ہو سکتا۔‘ دوسری جانب، جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ اگر غیر قانونی انہدام کا ایک بھی واقعہ ہوا تو یہ آئینی اقدار کے خلاف ہے ۔‘
واضح ہو کہ 2 ستمبر کو اس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے نام نہاد بلڈوزر ‘جسٹس’ کے خلاف تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، تھا کہ اگر کوئی شخص قصوروار ہو تب بھی اس کی جائیداد کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس سلسلے میں ملک بھر میں یکساں رہنما خطوط بنانے کی تجویز دی ہے۔
اس کیس میں مرکزی عرضی 2022 میں فرقہ وارانہ تشدد کے فوراً بعد دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں مبینہ غیر مجاز تعمیرات کے خلاف انہدام کی مہم سے متعلق ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، درخواست گزاروں نے کہا کہ کئی ریاستی حکومتیں ملزمان کی جائیدادوں کو گرانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہیں۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے راجستھان جئے پور اور بھیلواڑہ میں مبینہ طور پر غیر قانونی انہدام کے متنازعہ معاملے پر بھی غور کیا۔
درخواست گزاروں نے 2 ستمبر کے عدالت کے سابقہ حکم کے بعد ان مسماریوں کو روکنے کی فوری ضرورت پر تشویش کا اظہار کیا ۔ درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل سی یو سنگھ نے راجستھان کے بھیلواڑہ اور جئے پور میں حالیہ واقعات کا حوالہ دیا ، جہاں سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود توڑپھوڑ کی گئی۔
درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ یہ کارروائی عدالت کے سابقہ حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی ہے ، جس میں فوجداری مقدمات سے متعلق کسی بھی غیر قانونی انہدام کو روکنے کی مانگ کی گئی تھی۔
راجستھان حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل شیو منگل شرما نے ان دعووں کی مخالفت کی۔
بلڈوزر ایکشن پر سپریم کورٹ کا سابقہ اعتراض
بتادیں کہ اس سے قبل 12 ستمبر کو ایک اور کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی جائیداد کو گرانے کی بنیاد نہیں ہے ۔
اس کے بعد جسٹس رشی کیش رائے ، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ نے کہا تھا ، ‘ایک ایسے ملک میں جہاں ریاست کے اقدامات قانون کی حکمرانی کے تحت ہوں ، خاندان کے کسی فرد کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی خلاف ورزی کے نتیجے میں خاندان کے افراد یا ان کے قانونی طریقے سے تعمیر شدہ مکانات کے خلاف کارروائی کی دعوت نہیں دے سکتے ۔ جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی جائیداد کو منہدم کرنے کی بنیاد نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ مبینہ جرم کو مناسب قانونی عمل کے ذریعے عدالت میں ثابت کرنا ہوگا ۔ عدالت نوع کی انہدامی ایسی دھمکیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ملک میں قانون کی بالادستی ہے ۔ ‘
بنچ نے یہ بات گجرات کے ایک شخص کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کہی تھی۔ ایک شخص نے الزام لگایا تھا کہ میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں نے ایک ستمبر 2024 کو خاندان کے ایک فرد کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اس کے گھر کو منہدم کرنے کی دھمکی دی ہے ۔