بہار: کے سی تیاگی کے جے ڈی یو کے قومی ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی وجہ کیا ہے

نتیش کمار کے جنتا دل (یونائیٹڈ) کی قومی جمہوری اتحاد میں واپسی کے بعد بھی کے سی تیاگی کھل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ مانا جارہا ہے کہ 'حساس معاملوں' پر تیاگی کے بیانات نے پارٹی کو اتحاد کے اندر مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا۔

نتیش کمار کے جنتا دل (یونائیٹڈ) کی قومی جمہوری اتحاد میں واپسی کے بعد بھی کے سی تیاگی کھل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ مانا جارہا ہے کہ ‘حساس معاملوں’ پر تیاگی کے بیانات نے پارٹی کو اتحاد کے اندر مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا۔

جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی۔ (تصویر؛ دی وائر)

جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی۔ (تصویر؛ دی وائر)

نئی دہلی: جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کے سینئر لیڈر کے سی تیاگی نے اتوار (1 ستمبر) کو پارٹی کے قومی ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم،  وہ پارٹی صدر اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے سیاسی مشیر بنے رہیں گے۔

جے ڈی یو کے قومی جنرل سکریٹری آفاق احمد خان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘نتیش کمار نے راجیو رنجن پرساد کو قومی ترجمان مقرر کیا ہے۔ کے سی تیاگی نے ذاتی وجوہات کی بنا پر پارٹی کے ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘

تیاگی کا استعفیٰ بی جے پی کے نظریاتی ایشوز پر ان کے بعض جارحانہ موقف کے پس منظر میں آیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ‘حساس معاملوں’ پر تیاگی کے بیان نے پارٹی کو قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے اندر مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا۔

اپنے استعفیٰ کا اعلان کرنے کے بعد تیاگی نے کہا کہ وہ پارٹی میں بنے رہیں گے کیونکہ نتیش سوشلسٹ ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘میں پارٹی میں سیاسی مشیر کے طور پر رہوں گا۔ نتیش کمار جب چاہیں مجھے بلا سکتے ہیں۔ ہمارا رشتہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔ میں ہمیشہ ان کا احترام کرتا رہوں گا۔‘

تیاگی نے کہا کہ اب وہ  75 کے پیٹےمیں ہیں، ’یہ عمر ٹیلی ویژن چینلوں  اور پریس کے درمیان ہونے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس لیے میں نے ترجمان کا عہدہ چھوڑ دیا۔‘

تیاگی نے اس سے قبل 2021 میں قومی ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، جب آر سی پی سنگھ جے ڈی یو کے صدر تھے۔ تاہم، جب نتیش نے دیکھا کہ پارٹی کے خیالات کی قومی سطح پر صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں ہو رہی ہے، تو انہوں نے اسی سال کے سی تیاگی کواز سر نو بحال کر دیا تھا۔

کیا وجوہات کچھ اور ہیں؟

استعفیٰ کے حالیہ اعلان کے بعد کے سی تیاگی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ، ‘میں نے اپنا پہلا لوک سبھا الیکشن 1984 میں جیتا تھا اور مجھے سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے غیر سرکاری پریس ایڈوائزر کے طور پر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ میں نے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور سوشلسٹ آئی کان کرپوری ٹھاکر جیسے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔‘

استعفیٰ کی وجہ پوچھے جانے پر تیاگی نے کہا، ‘میں ایک نئی ٹیم میں تھا جس میں نتیش کمار پارٹی کے قومی صدر ہیں اور سنجے کمار جھا نیشنل ورکنگ پریسیڈنٹ ہیں… مجھے لگا کہ میں نے اپنا کام کافی حد تک کر  دیا ہے۔ پارٹی کے پاس اب دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

جے ڈی یو کے ایک سینئر لیڈر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ، ‘وہ (کے سی تیاگی) بہت ہی معزز لیڈر ہیں، لیکن انہوں نے ہائی کمان سے پوچھے بغیر پارٹی لائن کے بارے میں بیانات جاری کرنا شروع کر دیے تھے۔ لیٹرل انٹری، یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی ) وغیرہ بہت حساس معاملے ہیں۔ پارٹی قیادت کی رائے لیے بغیر جاری کیے گئے سخت بیانات اتحاد میں مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔‘

غور طلب  ہے کہ 10 دن پہلے، جب لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ چراغ پاسوان نے لیٹرل انٹری پر یو پی ایس سی کے جاری کردہ اشتہار پر اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی پارٹی اس اقدام کی’ حمایت میں بالکل نہیں ہے‘، تب تیاگی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے ‘اپوزیشن کے ہاتھ میں ایک ہتھیار’ دے دیا ہے اور یہ قدم ‘راہل گاندھی کو دلت کمیونٹی کا چیمپئن‘ بنا دے گا۔

آخر کار حکومت نے اشتہار واپس لے لیا، جس کے بارے میں تیاگی نے کہا کہ یہ  ‘نتیش کمار کی قیادت والی سماجی انصاف کی سیاست کی جیت’ ہے۔

اس معاملے کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ تیاگی نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر اسرائیل اور حماس تنازعہ کے حوالے سے بیان جاری کر دیا۔ مشترکہ بیان میں ہندوستان سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کو کہا گیا۔ کے سی تیاگی کے علاوہ اس بیان پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے جاوید علی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کے اراکین پارلیامنٹ اور لیڈروں نے دستخط کیے تھے۔

تیاگی کے بیان سے این ڈی اے میں تھی کھلبلی

جے ڈی یو کی این ڈی اے میں واپسی کے بعد بھی کے سی تیاگی کھل کر بی جے پی کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے۔ مانا جا رہا ہے کہ اسی وجہ سے تیاگی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

جے ڈی یو کے ایک ذرائع نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ، ‘کئی بار وقف، ذات پر مبنی  مردم شماری اور ایس سی/ایس ٹی ذیلی درجہ  بندی جیسے حالیہ متنازعہ معاملوں پر ان کے بیانات پارٹی کو پسند نہیں آئے۔ تیاگی کے اتنا اہم عہدہ چھوڑنے کے لیے سی ایم کے ارد گرد موجود لیڈروں کا ایک گروپ بھی ذمہ دار ہو سکتا ہے۔‘

انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے، ‘پٹنہ میں جے ڈی یو کے ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ تیاگی بعض  متنازعہ معاملوں  پر پارٹی کا دفاع کرنے میں تذبذب کا شکار تھے، خصوصی طور پر اس سال کے شروع میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی این ڈی اے میں پارٹی کی واپسی کے بعد سے۔‘

کتاب لکھ رہے ہیں کے سی تیاگی

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں  تیاگی نے یہ بھی بتایا کہ وہ فی الحال ‘مائی پریذیڈنٹ’ نامی کتاب پر کام کر رہے ہیں، جس میں انھوں نے ان رہنماؤں کے بارے میں بتایا ہے جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کتاب میں چودھری چرن سنگھ اور جارج فرنانڈس سے لے کر شرد یادو اور نتیش کمار تک کئی سوشلسٹ لیڈروں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جے ڈی یو کے سابق صدر للن سنگھ اور آر سی پی سنگھ بھی اس کا حصہ ہوں گے، تیاگی نے کہا، ‘نہیں۔ کتاب کا اختتام پارٹی میں میرے لیڈر نتیش کمار پر ہوتا ہے۔ ‘