شملہ کے سنجولی میں ایک مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ ریاستی حکومت کے وزیر کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی زمین سرکاری ہے، حالانکہ وقف بورڈ نے اسے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔
شملہ: دارالحکومت شملہ کے سب سے بڑے مضافاتی علاقے سنجولی میں ایک مسجد کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کو لے کر بدھ (11 ستمبر) کو زبردست ہنگامہ ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے مشتعل ہندوؤں نے سڑکوں پر بیریکیڈنگ توڑ دیں اور تقریباً پانچ گھنٹے تک نعرے بازی کی۔ تشدد پر آمادہ یہ بھیڑ مسجد کے 100 میٹر تک پہنچ گئی اور پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپ بھی ہوئی۔
پولیس فورس مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس نظر آئی
سنجولی میں ہندو تنظیموں کے مظاہرے کے اعلان کی وجہ سے ضلع انتظامیہ نے بدھ کی صبح 7 بجے سے دفعہ 163 نافذ کر دیا تھا ۔ ریاست کی تمام چھ بٹالین کو سنجولی کے کونے کونے میں تعینات کیا گیاتھا۔ لیکن 11 بجے مظاہرین نے سنجولی کی جانب کوچ کیا اور ‘بھارت ماتا کی جئے’، ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے لگے۔ پولیس نے اپنے حامیوں کے ساتھ سنجولی پہنچے ہندو جاگرن منچ کے عہدیدار کمل گوتم کو حراست میں لے لیا۔
ہماچل پردیش کے ڈی جی پی اتل ورما نے دی وائر کو بتایا کہ اس شرپسندی میں خاتون کانسٹبل پوجا (25)، کانسٹبل کھیم راج (28) سمیت چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں ۔ اندرا گاندھی میڈیکل کالج میں ایک خاتون کانسٹبل اب بھی زیر علاج ہیں۔
عدالت میں 14 سال سے چل رہا ہے معاملہ
اس مسجد کی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی تھی۔ مقامی لوگوں نے مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 2010 میں میونسپل کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ تب سے یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ اس دوران ریاست میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کی حکومتیں رہیں، لیکن کسی نے بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
کانگریس ایم ایل اے اور دیہی ترقی اور پنچایتی راج کے وزیر انیرودھ سنگھ نے 4 ستمبر کو ریاستی اسمبلی میں کہا، ‘دراصل مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو لے کر میونسپل کارپوریشن کورٹ میں بار بار نوٹس جاری کیے گئے، لیکن پھر بھی چار سے پانچ منزلیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئیں۔ ‘
مسجد کی اراضی پر بھی تنازعہ ہے۔ انیرودھ سنگھ نے بیان دیا تھا کہ یہ مسجد ہماچل سرکار کی زمین پر بنی ہے۔ تاہم، وقف بورڈ نے گزشتہ سنیچر (7 ستمبر) کو شملہ کی ایک عدالت میں دعویٰ کیا کہ مسجد ان کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 5 اکتوبر کو ہوگی۔
وقف بورڈ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سال 2012 تک یہ مسجد ایک منزلہ تھی، اس کے بعد بورڈ کو یہ جانکاری نہیں ہے کہ باقی ماندہ منزلیں کس نے غیر قانونی طور پر تعمیر کی ہیں۔ بورڈ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ مسجد کو گرانے کا حکم جاری نہ کرے، بلکہ مسجد کی تعمیر کے نئے منصوبے پر مہر لگائے۔
حکومت قانون کے دائرے میں کارروائی کرے گی: وکرم آدتیہ سنگھ
مسجد کو لے کر جاری احتجاج کے درمیان ریاست کے تعمیرات عامہ کے وزیر وکرم آدتیہ سنگھ نے بدھ (11 ستمبر) کو کہا کہ یہ معاملہ شملہ کے میونسپل کارپوریشن کمشنر کی عدالت میں چل رہا ہے، اور جو بھی فیصلہ آئے گا، حکومت اسے نافذ کرے گی۔ ہماچل ایک امن پسند ریاست ہے۔ حکومت ہندو تنظیموں کے جذبات کو سمجھتی ہے اور ہر کسی کو پرامن مظاہرے کرنے کا حق ہے لیکن کسی کو امن و امان سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دو نوجوانوں کے درمیان مار پیٹ سے بھڑکی تھی چنگاری
بتایا گیا ہے کہ برسوں سے چلے آرہے اس تنازعہ کو حال ہی میں اس وقت ہوا ملی جب 30 اگست کو شملہ کے ملیانہ میں ایک 37 سالہ شخص وکرم سنگھ کے ساتھ ایک مسلم نوجوان اور اس کے دوستوں نےمار پیٹ کی۔ اس تصادم میں وکرم سنگھ بری طرح زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ الزام ہے کہ یہ ملزمان حملے کے بعد مسجد میں آکر چھپ گئے تھے۔ اس کے بعد سنجولی میں ہندو تنظیموں نے مظاہرہ کیا اور مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا مطالبہ کیا۔
ایک ستمبر کو بھیڑ اس مسجد کے سامنے پہنچی اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ سیاسی طول پکڑنے لگا۔ ہماچل اسمبلی کے مانسون اجلاس میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ ملیانہ علاقہ کسم پٹی اسمبلی حلقہ کے تحت آتا ہے اور کانگریس لیڈر اور موجودہ کابینہ وزیر انیرودھ سنگھ یہاں کے ایم ایل اے ہیں۔
کچھ میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق اتر پردیش اور اتراکھنڈ سے تھا۔ اس حملے کے تناظر میں وزیر انیرودھ سنگھ نے اسمبلی میں یہ بھی کہا کہ باہر سے آنے والے لوگ شملہ کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ انہوں نے شملہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کا بھی ذکر کیا۔
دریں اثنا، مسجد کی غیر قانونی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم کی توجہ شملہ اور ریاست کے دیگر حصوں میں آباد مسلمان تارکین وطن کی طرف بھی مرکوز رہی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کے علاوہ مہاجر مسلمان مقامی لوگوں سے نوکریاں چھین رہے ہیں۔
(اوشا شرما شملہ میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔)