چراغ پاسوان کا بی جے پی مخالف موقف، کہا – میری پارٹی ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہے

نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت کو بنے بہ مشکل دو مہینے ہوئے ہیں، لیکن اتنے کم عرصہ میں ہی اسے اپنی مختلف پالیسیوں پر اتحادی جماعتوں کے اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان اس معاملے میں مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔

نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت کو بنے بہ مشکل دو مہینے ہوئے ہیں، لیکن اتنے کم عرصہ میں ہی اسے اپنی مختلف پالیسیوں پر اتحادی جماعتوں کے اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان اس معاملے میں مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔

بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور چراغ پاسوان۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور چراغ پاسوان۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی: کچھ دن پہلے بی جے پی حکومت کے لیٹرل انٹری کے اقدام کی مخالفت کرنے کے بعد اب  مرکزی وزیر اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے رہنما چراغ پاسوان ذات پر مبنی  مردم شماری کی حمایت کر رہے ہیں اور ایک بار پھر سے  این ڈی اے کی قیادت کر نے والی پارٹی  بی جے پی کے خلاف  موقف اختیار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایل جے پی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کا حصہ ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق ، اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘میری پارٹی (ایل جے پی) نے ہمیشہ اپنا موقف واضح رکھا ہے کہ وہ ذات پر مبنی  مردم شماری کے حق میں ہے۔’

اپنے موقف کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی بار ریاستی اور مرکزی حکومتیں مستفید کی ذات کو ذہن میں رکھ کر کئی اسکیمیں بناتی ہیں۔ وہ اسکیمیں ‘پسماندہ’ طبقے کے لوگوں کو مرکزی دھارے سے جوڑنے کے خیال سے تیار کی جاتی  ہیں۔‘

ایل جے پی لیڈر نے کہا کہ جب مرکزی حکومت کو ذات کے لحاظ سے آبادی کے بارے میں پتہ ہوگا تب ہی وہ وسائل اور اسکیم کے صحیح ڈسٹری بیوشن  کاپتہ لگا سکے گی۔

مرکزی فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کے وزیر پاسوان نے اس سے پہلے سرکاری نوکریوں  میں لیٹرل انٹری کے ذریعے تقرریوں کے خلاف بولتے ہوئے سول سروسز میں اس طرح کے نظام کو ‘پوری طرح سے  غلط’ قرار دیا تھا۔

پاسوان کا یہ تبصرہ ان کی اتحادی پارٹی بی جے پی کی پالیسی کے خلاف ہے۔ پارلیامنٹ میں بی جے پی ذات پر مبنی ملک گیر مردم شماری کرانے کے اپوزیشن کے مطالبے کی مخالفت کر رہی ہے۔

بتادیں کہ جس کانگریس سے پاسوان کے نظریاتی اختلافات رہے ہیں، نے لوک سبھا انتخابات میں اپنے منشور میں کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے، تو وہ پورے ملک میں سماجی—اقتصادی ذات پر مبنی  مردم شماری کرائے گی۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ملک میں لوگوں اور اداروں کے درمیان دولت کی تقسیم کی پیمائش کے لیے ایک سروے کرایا جائے گا۔

نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کو بنے بہ مشکل دو ماہ ہوئے ہیں لیکن اتنے کم وقت میں ہی اسےاپنی  مختلف پالیسیوں پر اپنے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنے پچھلے دو ادوار کی طرح مودی حکومت یکطرفہ طور پر کوئی بھی فیصلہ لینے سے قاصر  نظر آ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسے کچھ معاملات میں پیچھےبھی  ہٹنا پڑا ہے۔

اس کی ایک مثال حال ہی میں مختلف مرکزی محکموں میں لیٹرل انٹری کے ذریعے کی جانے والی تقرریوں کے معاملے میں  دیکھنے کو ملی ، جب ریزرویشن کے بغیر براہ راست بھرتی کے عمل کی نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی کے بڑے اتحادیوں، جیسے جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) اور ایل جے پی نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔ اس کے نتیجے میں مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا ۔

اسی طرح مرکزی حکومت  وقف بورڈ کی جائیدادوں کے انتظام اور کنٹرول کے لیے وقف ترمیمی بل  لے کر آئی  تھی۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ این ڈی اےمیں بی جے پی کی اتحادی—جے ڈی یو، ایل جے پی اور تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے بھی اس کی مخالفت کی ۔

قبل ازیں ساون کے مہینے میں جب بی جے پی مقتدرہ  ریاستوں میں کانوڑ روٹ پر دکانداروں کو اپنی دکانوں پر نام لکھنے کا فرمان جاری کیا گیا تھا تو اس کے خلاف بھی این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں کے احتجاج میں سامنے آئے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاملے میں بھی  بی جے پی حکومتوں کو بیک فٹ پر جانا پڑا تھا۔ اس وقت بھی چراغ پاسوان احتجاج میں کھڑے نظر آئے تھے۔ اس کے علاوہ راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) اور جے ڈی یو نے بھی احتجاج کیا تھا۔