صحافی صدیقی کپن کو عدالت سے راحت، ہر ہفتے یوپی تھانے میں رپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں

کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ یوپی کے ہاتھرس میں گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔ ستمبر 2022 میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے ہر ہفتے یوپی کے ایک تھانے میں حاضری لگانے کو کہا تھا۔ اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔

کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ یوپی کے ہاتھرس میں گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔ ستمبر 2022 میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے ہر ہفتے یوپی کے ایک تھانے میں حاضری لگانے کو کہا تھا۔ اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔

صدیقی کپن۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

صدیقی کپن۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (4 نومبر) کو کیرالہ کے صحافی صدیقی کپن کے معاملے میں ضمانت کی شرط میں راحت دی ہے، جس کے تحت انہیں ہر سوموار کو اتر پردیش کے ایک تھانے میں اپنی حاضری  درج کروانی تھی۔

معلوم ہو کہ کپن، ملیالم نیوز پورٹل  ‘اجیمکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد  اس وقت گرفتار کیا گیا تھا  جب وہ اتر پردیش کے ہاتھرس میں گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کےلیے جا رہے تھے۔

ہاتھرس میں 14 ستمبر 2020 کوایک دلت  بچی کے ساتھ چار ‘اونچی’ ذات کے مردوں نے مبینہ طور پرگینگ ریپ کرنے کے بعد اس کے ساتھ بے رحمی سے مار پیٹ کی تھی، جس کے نتیجے میں اس کی موت ہوگئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ، کپن کی طرف سے ضمانت کی شرط میں نرمی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے 1 نومبر کو جسٹس پی ایس نرسمہا اور سندیپ مہتہ کی بنچ نے کہا، ‘9 ستمبر 2022 کے حکم میں ترمیم کی جاتی  ہے اور درخواست گزار کومقامی پولیس اسٹیشن میں  رپورٹ کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ موجودہ عرضی  میں کی گئی دوسری درخواستوں کو آزادانہ طور پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔’

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، ملپورم ضلع میں اپنے آبائی  گھر میں رہنے والے کپن کو اب ہر سوموار کو مقامی وینگارا پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنا ہوگا۔

تاہم، عدالت نے پاسپورٹ کی واپسی کی کپن کی درخواست پر کوئی حکم دینے سے گریز کیا۔ تفصیل بتائے بغیر بنچ نے کہا، ‘موجودہ عرضی میں کی گئی دوسری درخواست کو آزادانہ طور پر اٹھایا جا سکتا ہے۔’

ستمبر 2022 میں کپن کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ شرط رکھی تھی کہ انہیں ہر سوموار کو مقامی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنا ہوگی اور اس سلسلے میں رکھے گئے رجسٹر میں اپنی حاضری درج کرانی ہوگی۔

اتر پردیش پولیس نے کپن اور ان کے ساتھیوں پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور فسادات بھڑکانے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت کیس درج کیا تھا۔ اپنے خلاف لگائے گئے سیڈیشن، منی لانڈرنگ اور سازش کے الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کپن نے پہلے کہا تھا کہ حکومت نے ہاتھرس کیس میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ‘شرمندگی سے بچنے کے لیے حکومت نے مجھے قربانی کا بکرا بنایا اور ریپ  اور قتل کے ہولناک واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔’ کپن کے مطابق، ان پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔