یوٹیوب کا سوپر چیٹ فیچر پیسہ کمانے کے لیے عام شہریوں کو اشتعال انگیز مواد کی جانب راغب کر رہا ہے۔ سوپر چیٹ سے پیدا ہونے والی شدت پسندی پر قابو پانے میں یوٹیوب نہ صرف ناکام رہا ہے، بلکہ اس سے منافع بھی کما رہا ہے۔
نئی دہلی: اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ یوٹیوب اپنے پلیٹ فارم پر نشر ہونے والی ہر طرح کی شدت پسندی، نفرت انگیز اور سماج دشمن عناصر سے لاتعلق بنا ہواہے۔ یوٹیوب کا مرکزی پلیٹ فارم ہی نہیں بلکہ اس کے معاون ٹول بھی نفرت پھیلانے میں اور اس کے ذریعے منافع کمانے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ٹول ہےسوپر چیٹ۔
چار ماہ قبل دائیں بازو کے یوٹیوب کریئٹر اجیت بھارتی نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو لائیو نشر کیا تھا ۔ اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان منصوبہ بند طریقے سے ہندو لڑکیوں کے خلاف ‘لو جہاد’ کر رہے ہیں۔ اسی لائیو کے دوران ‘سوپر چیٹ’ کے ذریعے کمار سوربھ نامی شخص نے پوچھا – ‘کیا ہم لو جہاد کے خلاف رنویر سینا جیسا کوئی دستہ بنا سکتے ہیں؟’
معلوم ہو کہ بہار میں دلت کمیونٹی کے قتل عام کا ملزم رنویر سینا دستہ اپنی بداعمالیوں کے لیے معروف ہے۔ اجیت بھارتی ایسے دستے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اجیت اس ویڈیو میں کرناٹک کے جس واقعہ کو ‘لو جہاد’ بتا رہے ہیں ، اس معاملے میں ریاستی پولیس، وزیر اعلیٰ اور بعد میں سی آئی ڈی نے بھی اپنی چارج شیٹ میں فرقہ وارانہ زاویہ یا مبینہ لو جہاد سے انکار کیا تھا ۔
اجیت بھارتی کا یہ لائیو ویڈیو، جسے ایک لاکھ سات ہزار بار دیکھا گیا، یوٹیوب کے فیک نیوز، پرتشدد اور مہلک مواد سےمتعلق تمام گائیڈ لائنس کے خلاف ہے ۔
اس ویڈیو پرآیا کمار سوربھ کا سوپر چیٹ بھی اس کی ایک مثال ہے۔
منافع بخش سودا
مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والی یہ سوپر چیٹ کمار سوربھ نے 40 روپے دے کر خریدی تھی، جس میں سے 70 فیصد (28 روپے) کریئٹر اجیت بھارتی کو ملے گا اور 30 فیصد (12 روپے) یوٹیوب اپنے پاس رکھے گا۔ یوں سوپر چیٹ انتہائی منافع بخش سودا ہے۔
اجیت بھارتی کو اس لائیو ویڈیو پر آئے سوپر چیٹ سے تقریباً 2100 روپے کی آمدنی ہوئی ، جبکہ ہیٹ اسپیچ اور پرتشدد مواد سے متعلق رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک اور ویڈیو پر آئے سوپر چیٹ سے انہیں چودہ ہزار روپے تک کی آمدنی ہوئی ۔
اجیت بھارتی دائیں بازو کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ یوٹیوب پر ان کے 6 لاکھ 39 ہزار سبسکرائبرزہیں ،وہیں ایکس پر 4 لاکھ 47 ہزار اور انسٹاگرام پر 2 لاکھ 64 ہزار فالوورز ہیں۔ وہ اوپ انڈیا نامی ویب سائٹ کے مدیر رہ چکے ہیں۔
اجیت بھارتی اکیلے نہیں ہیں جو یوٹیوب پر اور یوٹیوب کے ساتھ مل کر نفرت کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سدرشن ٹی وی نیوز چینل بھی اسی ذیل میں آتاہے، جو اپنے ویڈیوز میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے۔ اس کے باوجود یوٹیوب ان کے چینل کونہیں ہٹاتا۔ انہیں پیسہ بھی کمانے دیتا ہےاور اس مواد سےخود بھی منافع کماتا ہے۔
سدرشن چینل کے نفرت سے بھرے ویڈیو کے ساتھ گوآئی بی بو اورزومیٹو جیسے بڑے برانڈز کے اشتہار آتے ہیں، جن کے لیے یوٹیوب ان کمپنیوں سےموٹی رقم وصول کرتا ہے اور اس کا کچھ حصہ کریئٹر کے ساتھ بھی شیئر کرتا ہے۔
یوٹیوب کے سی ای او نیل موہن کا کہنا ہے کہ کریئٹر کے ساتھ اس طرح کی شراکت ‘کاروبار کے لیےسودمند ہے۔’
یوٹیوب کا بزنس ماڈل
جنوری 2017 میں یوٹیوب نے سوپر چیٹ اور سوپر اسٹیکرزلانچ کیے تھے۔ اس کے ذریعے کوئی بھی صارف ایک مخصوص رقم ادا کر کے اپنے تبصرے یا اینیمیٹڈ اسٹیکرز کو بڑے سائز اور مختلف رنگوں میں دکھا سکتا ہے۔ سوپر چیٹ یا سوپر اسٹیکر میں الفاظ ور لائیو چیٹ میں یہ کتنی دیر تک نظر آئے گا اس کا انحصار اس رقم پر ہے جس کے لیے اسے خریدا گیا ہے۔
ہندوستان میں سوپر چیٹ کی قیمت 40 روپے سے لے کر 10000 روپے تک ہے۔ یہ قیمت یوٹیوب کی طرف سے طے کی جاتی ہے اور اس کا تعین چیٹ کی مدت اور الفاظ سے کیا جاتا ہے۔
سوپر اسٹیکرز 19 روپے سے 1000 روپے تک کی قیمتوں میں دستیاب ہیں۔ اس رقم کی ادائیگی کرکے آپ کمنٹ سیکشن میں اینیمیٹڈ اسٹیکرز پوسٹ کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، 19 روپے کا اسٹیکر صرف رنگ اور سائز بدلتا ہے، 1000 روپے کا اسٹیکر اینیمیشن بھی دیتا ہے اور لائیو ویڈیو پر 30 منٹ تک نظر آتا ہے۔
یوٹیوب کے ضابطے کے مطابق، یوٹیوب پر کسی بھی مواد کو ظاہر کرنے کے لیے کمیونٹی گائیڈ لائن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یوٹیوب کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سوپر چیٹ کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے حذف کر دیا جائے گا اور رقم ‘عطیہ’ کر دی جائے گی۔
تاہم، اس حوالے سے کوئی شفافیت نہیں ہے کہ یہ کس قسم کا عطیہ ہو گا۔
کمار سوربھ کا تبصرہ یوٹیوب کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ دی وائر نے یوٹیوب پر کمار سوربھ کے تبصرے کو دو بار رپورٹ کیا، لیکن اسے آج تک ہٹایا نہیں گیا ہے۔
سوپر چیٹ ایک عام شہری کو مشہور شخصیات سے براہ راست رابطہ کرنے اور عوامی سطح پر نوٹس کیے جانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ مشہور شخصیت کی توجہ مبذول کرنے کے لیے اشتعال انگیز باتیں کہہ سکتا ہے اور پیسے کی چاہت میں سیلیبرٹی بھی اشتعال انگیز باتیں کر سکتا ہے تاکہ ناظرین بات چیت میں زیادہ شامل ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یوٹیوب اس بات کو یقینی بنائے کہ فوری پیسہ کمانے کے اس ذرائع پر رہنما اصولوں پر عمل کیا جائے۔
قوانین کی کھلی خلاف ورزی
قواعد کی عدم تعمیل کی صورت میں سوپر چیٹ مذہبی، ذات پات اور صنفی مسائل پر ماحول کو بھڑکانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال اجیت بھارتی کا لائیو ویڈیو ہے۔
‘اس قاتلانہ ذہنیت کا حل کیا ہے؟ یہ توہوتا رہے گا۔ کیسے اور کب رکے گا؟’ مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امت مشرا نامی ناظر کی جانب سے آیا 100 روپےکاسوپر چیٹ ویڈیو میں نظر آتا ہے اور باقی کمنٹ سے مختلف رنگ اور سائز میں بڑا نظر آتا ہے۔
اس کے جواب میں اجیت بھارتی مدرسوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کو جنرلائز کرتے ہیں اور انہیں جنسی مجرم قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’ نہیں رکے گا امت جی، یہ نہیں رکے گا۔ کیونکہ مینٹلیٹی ہے۔ یہ کوئی واحدواقعہ نہیں ہے… مراد آباد کا ایک مدرسہ تھا، اس کا ایک بچہ پکڑمیں آیا تھا… چھوٹا سا بچہ تھا، 7-8 سال کا اور کچھ کر رہا تھا ہندو لڑکی کے ساتھ۔کوئی پوچھا کیا کر رہے ہو تو بولا کہ مولوی جی یہی سکھاتے ہیں۔ بولتے ہیں ہندو لڑکی ہے تو اس کو پکڑکر لایا کرو اور اس کے ساتھ گندہ کام کرو۔ ‘
اس کے بعد اجیت بھارتی مسلمان مردوں کو پرتشدد اور مدارس کو خطرناک بتاتے ہیں۔ اگلاسوپر چیٹ تقریباً 300 روپے کا ہے جو چینی صدر شی جن پنگ کو صحیح ٹھہراتا ہے۔
جواب میں اجیت بھارتی بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور ‘شدت پسندی ‘ کو ختم کرنے کے لیے جن پنگ کے راستے کو صحیح بتاتے ہیں۔غور طلب ہے کہ چین کی طرف سے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔
رائٹرز انسٹی ٹیوٹ کی اس سال کی ایک تحقیق کے مطابق، ہندوستان میں تقریباً 50 فیصد لوگوں کے لیے خبروں کا ذریعہ سوشل میڈیا ہے اور ان میں سے 54 فیصد کا انحصار صرف یوٹیوب پر ہے۔ ایسی صورت حال میں یوٹیوب کی جانب سے قوانین پر عمل کرنے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
کئی ریسرچ کے مطابق، یوٹیوب اپنے پلیٹ فارم پر آئے ویڈیو مواد کے لیے اس بات کو یقینی نہیں بنا پاتاکہ وہ اس کےکمیونٹی گائیڈ لائن پر عمل کرے۔ ایک ویڈیو پر سینکڑوں سوپر چیٹ نمودار ہو سکتے ہیں۔ جب یوٹیوب ویڈیو پر قواعد کو نافذ کرنے سے قاصر ہے، تو اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ تبصروں کو نظم و ضبط میں لے سکے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق سدرشن نیوز کے یوٹیوب چینل پر تقریباً 25 ویڈیو گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کر رہے تھے، انہیں یوٹیوب کورپورٹ کیا گیا۔ لیکن یوٹیوب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان میں سے بہت سے ویڈیوز گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران بنائے گئے تھے اور یہ مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت اور فرضی حقائق پر مبنی تھے۔ ان تمام ویڈیوکے مجموعی طور پر تقریباً 35 لاکھ ویوز ہیں۔
یوٹیوب کی ٹرانسپرینسی (شفافیت) رپورٹ کے مطابق، یوٹیوب کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے سب سے زیادہ ویڈیوز ہندوستان سے اپلوڈ کیے جاتے ہیں۔ جنوری 2024 سے مارچ 2024 کے درمیان صرف ہندوستان سے 26 لاکھ سے زیادہ ویڈیو ہٹائے گئے ہیں۔ یوٹیوب ان ویڈیوز کو ہٹانے سے متعلق ملک وار سہ ماہی ڈیٹا شائع کرتا ہے جو اس کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہندوستان پچھلے چار سالوں سے اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسکالرز کی تحقیق کے مطابق،یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم غریب ممالک سے آنے والے نفرت انگیز تقاریر، پروپیگنڈے اور پرتشدد مواد کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ان قوانین پر زیادہ سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال ہریانہ میں ایک مبینہ گئو رکشک مونو مانیسر پر دو مسلمانوں کو اغوا کرنے اور انہیں زندہ جلا کر قتل کرنے کا الزام تھا۔ مونو ایک یوٹیوب کریئٹر بھی تھا جو تقریباً 6 سال تک یوٹیوب پر پرتشدد ویڈیوز پوسٹ کر رہا تھا۔ اپنے ویڈیو میں وہ مویشی لے جانے والی گاڑیوں کا پیچھا کرتا تھا اور ان پر گولیاں بھی چلاتا تھا۔ کئی ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ بچ کر بھاگنے والی گاڑیاں حادثے کا شکار ہو جاتی تھیں۔ وہ بچ کرفرار ہونے والے لوگوں کو قیدی بنا لیتا تھا اور ان زخمی افراد کے ساتھ تصویریں کھنچواتا تھا۔
یوٹیوب پر اس کے تقریباً 2 لاکھ سبسکرائبرز تھے اور یوٹیوب نے مونو کے ایک چینل پر ایک لاکھ سبسکرائبرزہونے پر اسے سلور بٹن سے بھی نوازاتھا۔ اس کے چینل کو کئی ہندوستانی نیوز اور فیکٹ چیک کرنے والے پلیٹ فارم کی رپورٹنگ کے باوجودنہیں ہٹایا گیا۔ جبکہ فروری 2023 میں نیویارک میں قائم نیوز آرگنائزیشن کوڈاسٹوری کی رپورٹنگ کے بعد یوٹیوب نے مونو کے چینل سے نو ویڈیو ہٹا دیے تھے۔
یوٹیوب کی شفافیت کی رپورٹ کے مطابق ، جنوری 2024 سے مارچ 2024 کے درمیان یوٹیوب نے دنیا بھر میں گائیڈ لائن کی خلاف ورزیوں کے لیے 144 کروڑ سے زیادہ تبصرے ہٹائے۔ یوٹیوب کا دعویٰ ہے کہ اس نے خود ان تبصروں میں سے 99 فیصد کی شناخت کی اور اس کوہٹا یا۔ ان میں سے 83.9فیصدتبصرے اسپیم، دھوکہ دہی یا گمراہ کن ہیں،وہیں نفرت سے بھرے اور توہین آمیز تبصرے صرف 1.7فیصد ہیں۔
اس رپورٹر نے اجیت بھارتی کے ویڈیو پر نفرت انگیز تبصروں کویوٹیوب کو رپورٹ کیا،لیکن انہیں ہٹایا نہیں گیا۔ یعنی یوٹیوب نفرت انگیز تبصروں کا نہ تو خود پتہ لگاتا ہے اور نہ ہی انہیں رپورٹ کرنے کے بعد ہٹا تا ہے۔ اس کی وجہ یوٹیوب کی تکنیکی نااہلی ہو سکتی ہیں یا یہ کہ نفرت انگیز مواد کاماڈریشن یوٹیوب کی ترجیح میں نہیں ہے۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ نفرت اور پولرائزیشن یوٹیوب کے لیے منافع بخش ہے۔
سوپر چیٹ کے حوالے سے شفافیت کا فقدان یوٹیوب کی پالیسیوں میں ایک بڑی خامی ہے۔ یوٹیوب کی شفافیت کی رپورٹ میں بھی اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یوٹیوب اس بات کا ڈیٹا فراہم نہیں کرتا ہے کہ اس نے گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرنے پر کتنے سوپر چیٹ کو ہٹایا ہے اور اس کی قیمت کتنی تھی؟
ہم نے اجیت بھارتی کے لائیو اور سوپر چیٹ کے حوالے سے یوٹیوب کو کئی سوال بھیجے، لیکن انہوں نے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ نہ تو اجیت بھارتی کے ویڈیو پر کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کمار سوربھ کی ‘لو جہاد’ سوپر چیٹ پر۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یوٹیوب نے مزید کہا، ‘سوپر چیٹ کریئٹر اپنے چینل کو کمرشلائز کر سکتے ہیں۔ ہم نے متعدد ٹولز بنائے ہیں جو کریئٹر کو اپنے لائیو ویڈیومیں لائیو چیٹ کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ کوئی بھی عام صارف بھی چاہے تو کسی قابل اعتراض سوپر چیٹ کو فلیگ کر سکتا ہے، یعنی یوٹیوب پر رپورٹنگ آپشن کے ذریعے وہ بتا سکتا ہے کہ یہ سوپر چیٹ نامناسب ہے۔’
اس کا مطلب ہے کہ یوٹیوب ساری ذمہ داری کریئٹر اورناظرین پر ڈال دیتا ہے۔ اپنے احتساب کے حوالے سے یوٹیوب کا کہنا ہے کہ اگر اس کا اسمارٹ ڈیٹیکشن سسٹم کسی بھی نامناسب سوپر چیٹ کو نشان زد کرتا ہے تو یوٹیوب اس کی خریداری مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دیتا ہے۔
لیکن ہماری جانب سے رپورٹ کیے گئے پرتشدد اور نفرت انگیز سوپر چیٹ کو یوٹیوب نہ صرف نشان زد کرنے میں ناکام رہا ، بلکہ رپورٹ کرنے کے بعد بھی انہیں ہٹایا نہیں۔
دی وائر نے اجیت بھارتی کو بھی سوال بھیجے ہیں، لیکن رپورٹ کی اشاعت تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ اگر وہ جواب دیتے ہیں تو اسے رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
(وپل کمارآزاد صحافی ہیں۔)