ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کا اثر سندربن میں سب سے زیادہ ہے۔ سطح سمندر کے بلند ہونے، سائیکلون اور طوفان وغیرہ سے کھیتی کی بربادی کے بعد ماہی گیری پر انحصار زیادہ ہو گیا ہے۔ ایسے میں ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ یہاں جنگلات کے حقوق کا قانون لاگو کیا جائے اور ماہی گیری کے حق کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
(پلتزر سینٹر اور روہنی نیلے کنی پھلانتھراپیز کے تعاون سے تیار کی گئی یہ رپورٹ ہندوستان کی ماہی گیر خواتین کے حوالے سے کی جارہی ایک سیریز کا حصہ ہے۔ سیریز کا پہلا حصہ یہاں اور دوسرا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں ۔)
یہ 2017 کے ماگھ مہینے کی بات ہے۔ پارل ہالدر اپنےآنگن میں ایک چھوٹا سانیا کمرہ پلاسڑر کر رہی تھی۔ جیسے جیسے ان کے ہاتھ دیوار پر چل رہے تھے،ایک بھکتی گیت ان کے ہونٹوں پر تھرک رہے تھے۔
یہ کمرہ بون بی بی کے لیے وقف تھا – جنگل کی دیوی،جس کی پوجا ہالدار اور سندربن کا ہر باشندہ کرتا ہے، خواہ وہ کسی مذہب یا ذات کا ہو۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بون بی بی انہیں دنیا کے اس سب سے بڑے مینگروو جنگل کے خطرات سے محفوظ رکھے گی۔ ماگھ کے مہینے میں بیویاں خصوصی طور پر اپنے شوہروں کے تحفظ کے لیے بون بی بی کی پوجا کرتی ہیں۔ ان خطرات میں طوفان، سائیکلون، مگرمچھ اور سانپ شامل ہیں، لیکن سب سے بڑا خطرہ ہے باگھ۔
سندربن کے باگھ انسانوں پر حملہ کرنے کے لیےمعروف ہیں اور اسی لیے انھیں اکثر آدم خور کہا جاتا ہے۔
ہالدار کے شوہر کو مچھلیاں اور کیکڑے پکڑنے جنگل گئے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔ عام طور پر، یہ میاں بیوی ایک ساتھ مچھلی پکڑنے جاتے تھے، لیکن اس دن ان کے شوہر نے انہیں گھر پر رہنے کو کہا تاکہ وہ وقت پر بون بی بی کے مندر کوپوراکر سکیں۔ ہالدار پوجا شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور حساب لگا رہی تھیں کہ اس پر کتنا خرچ آئے گا، تبھی انہیں جنگل سے خبر ملی کہ ان کے شوہر کو باگھ نے مار ڈالا۔
ان کی بیٹی اس وقت سات سال کی تھی، انہوں نے گھر کے قریب ہی ایک نالے میں بون بی بی کی مورتی وسرجن کر دی ۔
آج ہالدار اس ادھورے کمرے کو ایک ٹک گھور رہی ہیں۔ پھر کہتی ہیں،’میں بون بی بی کو اپنے گھر میں نہیں رکھ پائی ۔’ ماگھ کے مہینے میں پورا گاؤں عقیدت اور جوش سے بھر جاتا ہے۔ ‘ہر کوئی بون بی بی کی پوجا کرتا ہے۔ لیکن میں نہیں کرتی۔ جب شوہر ہی نہیں رہے تو پوجا کا کیا مطلب؟’
ہالدار واحد خاتون نہیں ہیں، جنہیں باگھ نے بیوہ بنایا ہے۔ مغربی بنگال کے جنوبی 24 پرگنہ ضلع میں لکش باغان کی تین ہمسایہ بستیوں (نمبر 3,5 اور 7) میں 30 سے زیادہ ٹائیگر وڈوز(بیوہ) ہیں۔ ہالدار کہتی ہیں وہ خود کالونی نمبر 7 میں رہتی ہیں۔
ارمیلا سردار اکثر رات کو سو نہیں پاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنگل میں کیکڑے پکڑ رہی تھیں کہ اچانک باگھ ان کے شوہر کوکھینچ لے گیا۔ وہ ناؤ پر اکیلی کھڑی دیکھتی رہ گئیں۔
‘جب میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو وہی منظر میرے سامنے آتا رہتا ہے۔ ‘ سردار کہتی ہیں،’میں یہ نہیں بھول پاتی کہ جب باگھ نے حملہ کیا تو اس کا چہرہ کیسا نظر آ رہا تھا۔ کیسے باگھ نے انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا…’
سردار بولتے ہوئے تھوڑا لڑکھڑاتی ہیں ہے اور ان کا جسم کانپتا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ ان کے شوہر کی المناک موت کے بعد تناؤ ہے۔
ہالدار کا الزام ہے کہ ماہی گیروں پر باگھ کے حملے اکثر محکمہ جنگلات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
‘میرے شوہر مچھلی پکڑ رہے تھے،تبھی انہوں نے محکمہ جنگلات کی ناؤ کو ہماری طرف آتے دیکھا۔ خوف کے مارے وہ اپنی ناؤ کو ایک مینگروو میں چھپانے کے لیےایک تنگ نہر میں لے گئے ۔ تبھی باگھ نے ان پر حملہ کر دیا،’ انہوں نے بتایا۔
بستی 3 کی رہنے والی رتنا بسواس بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ ‘بڑی ندی ، کھلی نہریں محفوظ ہیں۔ ٹائیگر تنگ نہروں میں گھومتے ہیں، اسی لیے ہم عموماً ان میں داخل نہیں ہوتے۔ لیکن جب جنگلات کے اہلکار آتے ہیں تو ہم تنگ نہروں میں چلے جاتے ہیں۔ یہیں پر باگھ کے حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔’
باگھوں کی آبادی میں مسلسل اضافے (2020-21 میں 96) کے ساتھ، یہاں انسان اورٹائیگر کے بیچ تصادم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بسواس کا کہنا ہے کہ باگھوں کے حملوں سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے آس پاس کی دوسری خواتین اثبات میں سر ہلاتی ہیں۔
♦
روایتی طور پر، مچھلی اور کیکڑےپکڑنا سندربن کی خواتین کے لیے معاش کا واحد ذریعہ رہا ہے۔ اس کے لیے وہ بہت چھوٹی کشتیوں (ڈونگی) کا استعمال کرتی ہیں، تنگ ندی اور نہروں میں داخل ہوتی ہیں اورباگھ اور مگرمچھ کے حملوں کا خطرہ اٹھاتی ہیں۔ مرد مچھلیاں پکڑتے ہیں، اس کے علاوہ شہد، کیوڑا پھل اور لکڑیاں جمع کرتے۔
یہ سب کچھ اس وقت بدلنا شروع ہوا جب 1973 میں حکومت نے مینگرو کے جنگل کے ایک حصے کو سندربن ٹائیگر ریزرو قرار دیا۔ جس کی وجہ سے بنیادی علاقہ نو انٹری زون بن گیا اور اس میں لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ مقامی ماہی گیروں کو بھی بفر ایریاز میں صرف اس صورت میں داخل ہونے کی اجازت ہے جب ان کے پاس بوٹ لائسنس سرٹیفکیٹ (بی ایل سی ) ہو۔
ماہی گیروں کی ایک تنظیم، دکشن بنگا متسیہ جیوی فورم (ڈی ایم ایف) کے جنرل سکریٹری ملن داس کہتے ہیں کہ بی ایل سی 1980 کی دہائی میں جاری کیے گئے تھے۔ ‘حکومت نے صرف 923 کشتیوں کو بی ایل سی دیا۔ اس بات کا کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا کہ کتنی کشتیاں فعال تھیں؛ انہوں نے من مانی طور پر صرف 923 بی ایل سی جاری کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے بہت سے ماہی گیربی ایل سی کےبنا رہ گئے ۔’
بسواس کا کہنا ہے کہ بی ایل سی ان لوگوں کو جاری کیا گیا تھا جو سیاسی طور پر اثرورسوخ رکھتے تھے یا پیسے والے تھے۔ ‘وہ لوگ جو حقیقت میں جنگل میں مچھلی پکڑنےجاتے ہیں اور ماہی گیری پر ہی انحصار کرتے ہیں، ان میں سے کسی کے پاس بی ایل سی نہیں ہے۔ ہمیں اسے بی ایل سی ہولڈرز سے کرایہ پر لینا پڑتا ہے اور ایک سیزن کا کرایہ 40000 روپے ہے۔’
خواتین عام طور پر کیکڑے اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے چھوٹی کشتیوں (ڈونگی)کا استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ بی ایل سی صرف لکڑی کی بڑی کشتیوں کے لیے جاری کیے گئے تھے، اس لیے خواتین کے زیر استعمال چھوٹی کشتیوں کے پاس بی ایل سی نہیں ہے۔
‘میں بی ایل سی کے لیے اتنا کرایہ ادا نہیں کر سکتی،’ ہالدار کہتی ہیں۔ ‘مجھے اپنے شوہر یا بیٹے کا سہارا نہیں ہے، میرے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے میں قانون کی خلاف ورزی کرنے اور بی ایل سی کے بغیر جنگل میں داخل ہونے کو مجبور ہوں۔’
ہالدار اور دیگر ماہی گیر خواتین ایک اور قانون توڑتی ہیں– ٹائیگر ریزرو کے بنیادی علاقے میں داخل ہونا۔ بسواس کا کہنا ہے کہ بفر ایریاز میں مچھلی اور کیکڑے بہت کم پائے جاتے ہیں۔
‘جب ہمیں بفر میں خاطر خواہ کیکڑے نہیں ملتے ہیں، تو ہم بنیادی علاقے میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں، جو مچھلیوں اور کیکڑوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم خالی ہاتھ نہیں لوٹ سکتے۔ یہ ہماری واحد آمدنی ہے۔’
یہ خواتین قانون کی خلاف ورزی پر مجبور ہیں اور محکمہ جنگلات کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس سے پہلے جب یہاں جنگلات کے قوانین لاگو ہوئے تھے تو قوانین اتنے سخت نہیں تھے۔ لیکن، پچھلے 10-12 سالوں میں، محکمہ جنگلات کے مظالم میں اضافہ ہوا ہے، بسواس کہتی ہیں۔ ‘ہمارے والدین کو جنگلات کے اہلکاروں کے ساتھ اتنی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن اب محکمہ جنگلات کے اہلکار باگھ سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔’
ہالدار کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات اکثر خواتین کی کشتیاں ضبط کر لیتا ہے۔ ‘میری کشتی کئی بار ضبط کی جا چکی ہے۔ مجھے اکثر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کئی مواقع پر، انہوں نے میری پکڑی ہوئی مچھلیاں اور میرا سارا سامان ندی میں پھینک دیا۔ تاہم، مجھے سب سے برا تجربہ اس وقت ہواتھا جب ایک افسر نے مجھےجنگل سے باہر نکالنے کے لیے ایسی زبان استعمال کی جسے میں دہرا نہیں سکتی۔ میں جنگل سے گھر تک پورے راستے روتی رہی۔’
♦
سندربن دنیا کے ان مقامات میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی اورموسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور خطرات سب سے زیادہ ہیں۔
سطح سمندر کے بلند ہونے، سائیکلون اور طوفانوں کے آنے اور کھارے پانی سے کافی کھیتی برباد ہوئی ہے، اور ماہی گیری پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب سے مجبور ماہی گیر خواتین اپنے روایتی پیشے (سندربن میں ماہی گیری اور کیکڑے پکڑنا) کے حق کے لیے حکومت سے لڑ رہی ہیں۔
‘سائیکلون آئلا اور امفان نے ہمیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ ‘ ہالدار کہتی ہیں،’ہماری زندگی قسمت کا کھیل ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ ہمیں جنگل سے باہر کر دیں تو ہمارے پاس زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔ اگر حکومت نے ہمیں اجازت نہ دی تو ہمیں ان کے خلاف جانا پڑے گا۔’
ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ جنگلات کے حقوق کے قانون کا فائدہ انہیں بھی دیا جائے۔ 2006 کا قانون جنگل کے وسائل پر جنگل میں رہنے والوں کے روایتی حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور اسے باقی ہندوستان کے جنگلات میں بھی لاگو کیا گیا ہے۔ خواتین کا استدلال ہے کہ اس اصول کا اطلاق یہاں کے مینگرو کے جنگلات میں ماہی گیری کے ان کے روایتی حقوق پر بھی ہونا چاہیے۔
اگر سیاحوں کو باگھوں کا اچھا نظارہ ملتا ہے تو محکمہ جنگلات پیسہ کماتا ہے، لیکن انہیں مقامی لوگوں سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی، ہالدار کا کہنا ہے ۔’اسی لیے اب ہمیں جنگل میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے برا لگتا ہے کہ غیر ملکی سیاح پیسے دے کر اس جنگل میں داخل ہو سکتے ہیں، لیکن مجھے – جن کے باپ دادا اس جنگل پر منحصر تھے – کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔’
روایتی حقوق کو ابھی تک باضابطہ طور پر تسلیم کیا جانا باقی ہے، لیکن ان خواتین نے کچھ فتوحات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے محکمہ جنگلات کو لکڑیاں جمع کرنے پر عائد پابندی اٹھانے پر مجبور کیا۔ اب تک 1000 سے زائد خواتین کو بایو میٹرک کارڈ ملے ہیں، جن کے ذریعے ان کی شناخت ماہی گیروں کے طور پر کی جاتی ہے اور انہیں سرکاری اسکیموں کا فائدہ ملتا ہے۔ انہیں باگھوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ماہی گیروں کی بیواؤں کے لیے ‘ٹائیگر-وڈوز’ معاوضہ بھی ملا ہے۔
ماہی گیر خواتین منظم ہوکر اپنے بنیادی مطالبے کے لیے دباؤبناتی آ رہی ہیں۔ ہالدار کا کہنا ہے کہ حکومت کو انہیں جنگل میں جانے کی اجازت دینی ہی ہوگی۔
‘یہ صرف میرا مطالبہ نہیں ہے۔ میں سندربن کی سینکڑوں خواتین کی آواز ہوں جو جنگلات کے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں،’ ہالدار کہتی ہیں۔ ‘جنگل ہمارا ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔
(انگریزی میں ملٹی میڈیا رپورٹ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔) (ہندوستان کی ماہی گیر خواتین پر پانچ حصوں پر مشتمل ملٹی میڈیا سیریز دیکھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
(اس سیریز کے تمام مضامین اُردو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)