منی پور کے بی جے پی ایم ایل اے پاؤلن لال ہاؤکیپ نے ایک انٹرویو میں سی ایم بیرین سنگھ کو تشدد کو روکنے میں ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایوان میں اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو وہ اور ان کے ساتھی دیگر چھ بی جے پی کُکی ایم ایل اے بھی بیرین سنگھ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے۔
نئی دہلی: منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر کُکی ایم ایل اے میں سے ایک پاؤلن لال ہاؤکیپ نے ریاست میں جاری تشدد کے حوالے سے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ پر کئی الزامات لگائے ہیں۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پی ہاؤکیپ نے سی ایم بیرین سنگھ کو پاگل، لٹیرا، جھوٹا اور مغرور شخص قرار دیا اور کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سنگھ کی ایمانداری سے ان کا بھروسہ پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔
ہاؤکیپ نے مزید کہا کہ اگر ریاستی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو وہ اور ان کےساتھ ہی دیگرچھ بی جے پی کُکی ایم ایل اے بھی بیرین سنگھ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے۔
بی جے پی ایم ایل اے نے یہ بھی کہا کہ اس ماہ کے شروع میں سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سپریم کورٹ میں ‘جھوٹ’ بولا تھا کہ سی ایم بیرین سنگھ صورتحال کو حل کرنے کے لیے کُکی ایم ایل اے سے بات کر رہے ہیں۔
واضح ہو کہ 8 نومبر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ اس آڈیو ریکارڈنگ کی تحقیقات کرے گی ، جس میں مبینہ طور پر گزشتہ سال مئی سے ریاست میں ہورہے فرقہ وارانہ تشدد میں بیرین سنگھ کے کردار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شنوائی کے دوران ٹیپ کی تحقیقات کے خلاف بحث کرتے ہوئے مہتہ نے دعوی کیا تھا کہ سنگھ ریاست کے کُکی ایم ایل اے سے مل رہے ہیں۔
اس کے بعد ریاست کے دس کُکی زو ایم ایل اے نے ایس جی پر سپریم کورٹ کو ’گمراہ کرنے‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھاکہ وہ 3 مئی 2023 سے سنگھ سے نہیں ملے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان سے ملنے کا کوئی ارادہ ہے۔
اب کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں ہاؤکیپ نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے بیرین سنگھ کے دفاع پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ یہ ان وجوہات کی بناء پر ہے کہ ٹیلی ویژن پر عوامی طور پر بحث نہیں کی جا سکتی۔
اپنے انٹرویو کے دوران ہاؤکیپ نے وزیراعظم کو بھی نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ منافق ہیں۔ انہوں نے 2017 میں کہا تھا کہ جو لوگ ریاست میں امن وامان کو یقینی نہیں بنا سکتے انہیں منی پور پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی بات پر کھرے نہیں اترے ہیں۔
ہاؤکیپ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ منی پور حکومت بھی ناکام رہی ہے۔
منی پور کے تشدد کے بارے میں ہاؤکیپ نے کہا کہ واحد حل کُکی-زو کے لوگوں کے لیے ایک علیحدہ ایڈمنسٹریشن کی تشکیل ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی اپنی مقننہ کے ساتھ مرکزکے زیر انتظام علاقہ۔
انٹرویو کے اختتام پر جب ہاؤکیپ سے پوچھا گیا کہ تمام مخالفت کے باوجود انہوں نے بی جے پی کیوں نہیں چھوڑی، تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ بی جے پی میں سمجھدار آوازیں موجود رہیں گی۔
اس انٹرویو میں ہاؤکیپ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ہندوتوا سے وابستگی بی جے پی اور وزیر داخلہ کو عیسائی مفادات کے تحفظ سے روک رہی ہے۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے بھی ہاؤکیپ کئی بار اپنی ہی حکومت، وزیر اعلیٰ، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے خلاف بول چکے ہیں۔
منی پور کے سی ایم این بیرین سنگھ کی مبینہ آواز پر مشتمل آڈیو ٹیپ کے بارے میں دی وائر کے انکشافات کے بعد ہاؤکیپ سمیت ریاست کے دس کُکی ایم ایل اے نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سرکارکی سرپرستی میں نسل کشی میں وزیراعلیٰ کی ملی بھگت، جس پر ہم پہلے دن سے ہی یقین رکھتے ہیں، اب اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔’ کُکی ایم ایل اے نے بھی تحقیقات کو تیز کرنے کے لیے سی ایم کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ سال ایک بیان میں ہاؤکیپ نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت بھی منی پور تشدد میں ملوث ہے اور حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے تشدد پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے۔
ہاؤکیپ نے منی پور واقعے پر نیوز لانڈری کے شیو نارائن راجپوروہت کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تشدد شروع ہونے کے بعد انہوں نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ وزیراعظم سے ملاقات کا وقت مانگا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امت شاہ وہاں کی صورتحال کی سنگینی کے بارے میں وزیر اعظم کو رپورٹ کرنے میں ناکام رہے۔