ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف غیر مسلم بھی بول رہے ہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف تنہا آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔
شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے اجلاس میں حصہ لے رہا تھا۔ پہلے مقرر نے ادارےکا شکریہ ادا کیا۔ پھر منتظمین کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ یہاں بیٹھے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں ہندو بھی شامل ہوں۔ ورنہ لگتا ہے کہ جدوجہد صرف مسلمانوں کی ہے۔ اجلاس بھی مکمل یا سب کا یا عام نہیں لگتا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دلتوں اور ہندوؤں کے شہری حقوق بھی کئی جگہوں پر پامال ہو رہے ہیں۔ اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس تقریر کے بارے میں سوچتا رہا۔ پہلا یہ کہ صرف مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ اجلاس نامکمل یا غیرمعمولی کیوں لگتا ہے؟ کیا یہی بات کسی ایسے جلسے یا اجتماع کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جس میں 99فیصد ہندو ہوں؟ ہمیں اس میں کچھ بھی عجیب نہیں لگتا۔ ہم یہ نہیں پوچھتے کہ اس میں مسلمان یا سکھ یا عیسائی کیوں نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی اجتماع میں 99 فیصد مسلمان ہوں تو ہندوؤں کی غیر موجودگی یقینی طور پر کھٹک جاتی ہے۔ گویا ایسے اجلاس میں مسلمان بات کریں یا کوئی فیصلہ لیں تو وہ بھی نامکمل ہوگا کیونکہ اس میں ہندو شامل نہیں ہیں۔
کچھ سال پہلے پٹنہ میں ایک لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہال میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ 99فیصد لوگ مسلمان تھے۔ میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ آڈیونس کمیونٹی نارمل نہیں ہے۔ بعد میں میں سوچتا رہا کہ ہم نے پہلے اسی جگہ پر ہونے والی کئی میٹنگوں میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ تقریباً 99فیصد سامعین ہندو ہیں توموجودگی غیر معمولی ہے۔ ہاں! اگر ایک جگہ زیادہ مسلمان نظر آجائے تو محسوس ہونے لگتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
یہ اس لیے کہا ہے کہ یہ طرزِ فکر ضروری نہیں کہ انہی کا ہوجو فرقہ پرست ہوں۔ یا اصغر علی انجینئر کے حوالے سے کہیں تو،کہہ سکتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو تعقل پسند اور سیکولر کہتے ہیں ،ان کے اندر بھی فرقہ پرستی ایک لطیف انداز میں موجود ہے۔ لوگوں کی کون سی کمیونٹی نارمل ہے اور کون سی نہیں کے بارے میں ہمارا پہلا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ یہ کیڑا ہمارے اندر ہے یا نہیں۔
جس میٹنگ میں بات ہو رہی تھی وہ شہری حقوق کے سوال پر تھی۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آج ہندوستان میں کس طبقے کے لوگوں کے حقوق کی ہر طرح سے خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ کن کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے؟ کن کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں؟ کن کو گرفتار کیا جا رہا ہے؟ قانون کس کے خلاف بن رہے ہیں؟ کن کے خلاف اس ملک کا بڑا میڈیا لگاتار پروپیگنڈہ کر رہا ہے؟ کن کی نسل کشی کرنے کے لیے کھلے عام نعرے لگائے جارہے ہیں، جلسے کیے جارہے ہیں اور مسلسل نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے؟
ایمانداری سے اس کا جواب دیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ یہ مسلمانوں کی کمیونٹی ہے جس کے خلاف منظم ناانصافی کی جارہی ہے۔
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ آج ہندوستان کی وفاقی حکومت اور کئی ریاستوں کی حکومتیں ایک ایسی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہیں جو مسلم اور عیسائی مخالف نظریے پر یقین رکھتی ہے؟ کیا ہم پچھلے 10 سالوں سے یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس پارٹی کے دیگر سیاسی لیڈروں کو چھوڑیں وزیر اعظم تک اپنے جلسوں میں مسلم مخالف نفرت کو ہوا دیتے ہیں؟
دکان اور مکان منہدم کیے جانے، قتل ہونے، نفرت کا نشانہ بنائے جانے پر وہ تو جوابی کارروائی کرے گا ہی جو ان کا شکار ہے۔ وہی عدالت جائے گا، اسے ہی اپنے گرفتار لوگوں کی ضمانت کے لیے وکیل کرنا ہوگا اور رقم اکٹھی کرنی ہوگی۔ ہاں! دوسروں کو بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن کیا جو حملے کا شکار ہیں وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کہ دوسرا شخص اس کے ساتھ کھڑا نہ ہو جائے؟
یہ سوال اس وقت بھی اٹھا جب مسلمان نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے منظم ہوئے۔ شہریت ایکٹ میں ترمیم اور ساتھ میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے اعلان نے مسلمانوں میں خوف اور خدشہ پیدا کیا۔ اصولی طور پر یہ قانون ہندوستان کے سیکولرازم کے خلاف تھا۔ اس لیے غیر مسلموں کو بھی اس کی مخالفت کرنی چاہیے تھی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس قانون نے ان کے اندر شک اور خوف پیدا نہیں کیا جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا۔
یہ بے وجہ نہیں تھا۔ قانون پاس کرنے والے اور اس کو لاگو کرنے والےوہ لوگ تھے جو اپنے مسلم مخالف جذبات کو کبھی نہیں چھپاتے۔ یہ سچ ہے کہ این آر سی کی اشاعت کے بعد پتہ چلا کہ آسام میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو رجسٹر سے باہر ہو گئے ۔ لیکن حکومت اور رہنماؤں نے کہا کہ ان کو رجسٹر میں لیا جائے گا اور جو اندر آگئے ہیں انہیں باہر کر دیا جائے گا۔ اشارہ صاف تھا۔ ہندوؤں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ بات ہندوستان کے وزیر داخلہ بھی کہہ چکے ہیں۔ تو کس کو گھبرانا چاہیے؟
جو گھبرائے، جنہیں ڈر ہوا وہ سڑک پر اترے۔ وہ مسلمان تھے۔ بعض مقامات پر غیر مسلم بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے، لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، اس قانون سے ہندوؤں کو اپنے وجود اور ہندوستان میں اپنے مقام کو کوئی خطرہ نظر نہیں آیا، اس لیے احتجاج میں شامل ہونے کی ایسی کوئی خواہش ان میں نہیں تھی۔ اسی لیے شاہین باغ کے احتجاج میں مسلم خواتین ہی نظر آئیں۔
پونے میں ایسے ہی ایک مظاہرے سے واپس آرہے تھے۔ ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا کبھی اس میں شمولیت کے بارے میں سوچا؟ ڈرائیور نے جواب دیا کہ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ وہ احتجاج میں بیٹھے لوگوں کے خدشے کو نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ مناسب نہ ہونے کے باوجود یہ فطری تھا۔ لیکن اس ایک واقعہ سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟ کیا مسلمانوں کو اس وقت تک احتجاج نہیں کرنا چاہیے تھا جب تک دوسرے ان کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں؟
جب دلتوں نے محسوس کیا کہ درج فہرست ذات کے ظلم کے خلاف قانون میں نرمی کی جا رہی ہے تو وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہاں غیر دلت نہیں تھے۔ لیکن کسی نے ان کے منظم ہونے اور احتجاج کو غلط نہیں کہا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ صرف دلت ہی کیوں جمع ہو رہے ہیں۔ انہیں ناانصافی کا احساس ہوا تو وہ سڑکوں پر آئے۔ جس طرح امریکہ میں ‘بلیک لائیوز میٹر’ تحریک شروع ہوئی۔ اس میں بنیادی طور پر سیاہ فام لوگ تھے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ صرف کالے ہی کیوں جمع ہو رہے ہیں، وہی اس کی قیادت کیوں کر رہے ہیں؟
بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ ہوا تو وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا وہ غلط تھا؟ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ تھی۔ لیکن سی اے اے مخالف تحریک کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔
یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف غیر مسلم بھی بول رہے ہیں۔ وکیل، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، دانشور، طلباء، ان گروہوں میں غیر مسلم بھی ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف تنہا نہیں بولنا چاہیے۔
مسلمان جب احتجاج کرتے ہیں تو آئین میں دیے گئے اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کسی کا حق نہیں لے رہے ہوتے۔ یہ اچھا ہو گا کہ دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو کر ان کے شہری ہونے کی ذمہ داری کی پیروی کریں۔ لیکن جب مسلمانوں کے ووٹ لے کر جیتنے والی سیاسی جماعتیں ہی ہچکچاتی ہیں تو پھر عام ہندوؤں کی کیا بساط؟
سیکولر سیاسی جماعتیں مسلم لفظ بول بھی نہیں پاتے۔ پھر مسلمان کیا کریں؟
یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو دلتوں یا خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف اسی شدت کے ساتھ بولنا چاہیے، تب ہی ان کی تنظیم جائز ثابت ہوگی۔ کیا کسان مزدوروں کے حقوق کے لیے ہر بار احتجاج کرتے ہیں؟ کیا مزدور کسانوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں؟ پھر کیا انہیں اپنے لیے نہیں بولنا چاہیے؟
جمہوریت میں یہ توقع ہونی چاہیے کہ ہم دوسروں کے دکھ اور تکلیف کو سمجھیں اور محسوس کریں۔ اس سے شہری ہونے کااحساس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور آپ کسی وسیع تر تنظیم کے انتظار میں خاموش بیٹھے ہیں تو یہ شہری ہونے کے احساس کا نقصان ہے۔ مسلمان اگر اپنے لیے بول رہے ہیں تو وہ معاشرے میں اس شہری جذبے کو ہی متحرک کر رہے ہیں۔ ہم ان میں شامل ہو جائیں تو ہمارا شہری احساس اور شدید ہو جائے گا۔
(اپورانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)