کسی کے دین کی توہین سے بڑا کوئی گناہ نہیں؛ آج کا ہندو یہ کیوں بھول گیا ہے؟

اس نئے ہندو حق اور اختیارات کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے 'جئے شری رام' کا نعرہ لگانے پر مجبور کر سکتا ہے ، کسی مسلمان کا ٹفن کھول کر دیکھ سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔

اس نئے ہندو حق اور اختیارات کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر سکتا ہے ، کسی مسلمان کا ٹفن کھول کر دیکھ سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

اب تک کروڑوں لوگوں نے وہ ویڈیو دیکھ لیا  ہوگا، جس میں بہرائچ کا رام گوپال مشرا کسی کے گھر کی چھت پر چڑھ کر ہرا جھنڈا نوچ رہا ہے۔ ایسا  کرتے ہوئے وہ اس ریلنگ کو ہلا رہا ہے جس پر جھنڈا نصب ہے۔ وہ ریلنگ گرا دیتا ہے، پھر وہ بھگوا جھنڈا  لہراتا ہے۔مکان  کے باہر ہجوم جنون میں نعرے لگا رہا ہےاور اسے للکار رہا ہے ،شاباشی  دے رہا ہے۔

ایک دوسرے ویڈیو میں ہم مشرا کی لاش دیکھتے ہیں، جس پر چھروں کے نشان ہیں۔ ایک ہندو طالبعلم نے مجھے بہرائچ کے تشدد سے متعلق ایک اور ویڈیو بھیجا۔اس میں  ایک خاتون کا انٹرویو ہے جو رام گوپال مشرا کی ماں ہے۔ وہ خاتون کیمرے کے سامنے کہہ رہی ہے کہ ‘مسلمان ترنگا’ لہراتا ہےخدا والا۔ میرے بیٹا چڑھ گیا اورخدا والا’ترنگا’ ہٹا دیا۔ تبھی  مسلمان پیچھے سے آیا اور اس کو مار دیا۔

عورت ایک طرح کے جنون میں مبتلا ہے۔ بیٹے کےقتل کے بعد ماں کا بدحواس  ہو جانا فطری ہے۔ لیکن مشرا کی ماں ایک دوسری سطح پر ہوش وحواس میں ہے۔ وہ بتانا چاہتی ہے کہ اس کے بیٹے نے مذہبی اور راشٹروادی  کام کیا ہے۔ اس نے خدا والا ترنگانوچ کر ماتا جی والا ترنگا لہرا دیا ہے۔ وہ جھنڈے کے بجائے ترنگابول رہی ہے:خدا والا ترنگا اور ماتا جی والاترنگا۔

رام گوپال مشرا کی ماں کا یہ بیان گزشتہ 10 سالوں میں ہندو لاشعور میں جو تبدیلی آئی ہے اس کی ایک مثال ہے۔اور یہ تبدیلی  ہے دھرم اور راشٹر کا گھال میل۔ کون سا نشان مذہبی ہے اور کون سا قومی، اس کا فرق مٹا دیا  گیا ہے۔ مشرا کی ماں بیک وقت دو باتیں کہہ رہی ہے:اس کا بیٹا مذہبی کام کر رہا تھا اور قومی ذمہ داری بھی نبھا رہا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ جو اہم بات وہ کہہ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہندو کا دھرم اور راشٹرواد(قوم پرستی) تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ مسلمان کے خلاف نہ ہو۔ خدا والا جھنڈا نوچ  کر اس کی جگہ ماتا جی والا جھنڈا لگانا ایک ہندو کا مذہبی اور قومی عمل ہے۔

مشرا کی ماں کو یہ بالکل ٹھیک لگ رہا ہے کہ اس کے بیٹے نے خدا کا جھنڈا ہٹا کر ماتا جی کا جھنڈا لگادیا۔ اس کا اعتراض اور غصہ اس بات پر ہے کہ ایسا کرنے پر اس پر حملہ کیوں کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے کسی بھی طرح سے  غلط یا غیر اخلاقی نہیں سمجھ رہی ہے۔ جرم سمجھنا تو دور کی بات ہے۔

مشرا کی ماں ایک عام خاتون ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مذہبی خاتون ہے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید وہ افسوس کرتی کہ اس کے بیٹے نےکیوں  کسی اورکے  مذہب کی نشانی نوچ  دی۔ کیوں دوسرے  کےمذہب کی توہین کیوں؟ لیکن اب وہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔

وہ جس نئے وقت میں رہ رہی ہے اس کا اعلان سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو کیا، جب اس نے بابری مسجد کو توڑنے والے مجرموں  کو ہی بابری مسجد کی زمین مندر بنانے کے لیے سونپ  دی۔ اس دن سےیہ اصول بن گیا کہ ہندوؤں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے مذہب کی علامت کو ختم کر کے اس کی جگہ اپنی علامت  لگا سکتے ہیں۔

ہم نے 2014 کے بعد کانوڑیاترا میں ترنگا اور بھگوا کے درمیان گھال میل دیکھا،جن میں کانوڑیے ترنگا لے کر چل رہے تھے۔ یہ مذہب اور قوم پرستی کا گھال میل  تھا۔ دھرم راشٹر کی سیوا میں  یا راشٹر دھرم کی سیوا میں۔

یہ لازمی طور پر علیحدگی پسند ہے۔ اس کے سامنے یا اس کے ساتھ کسی دوسرے مذہب کا کوئی نشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اتر پردیش حکومت نے کیا جب اس یاترا کے روٹ پر گوشت کی دکانیں بند کیں۔ اس کے بعد تمام دکانداروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے نام لکھیں تاکہ مقدس ہندو غلطی سے کسی مسلمان کو نہ چھو لیں۔ یہ مکمل طور پر علیحدگی پسند ہندو جذبات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

یہ خیال کہ علیحدگی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ صرف دشمنی  کا رشتہ ہو سکتا ہے ہندوؤں میں لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کے وقت سے ہی جڑ پکڑنا شروع ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوؤں کو اپنے اسلاف کی غلامی کا بدلہ لینا ہے اور یہ اس کے لیے صحیح وقت ہے۔ اس لیے ہندومت کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر قبضہ کرے یا انہیں تباہ کر دے اور مسلمانوں کی بستیوں پر تسلط قائم کرے۔

قومی یا مذہبی مواقع مسلمانوں پر، ان کی رہائش گاہوں پر حملہ کرنا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ ترنگا لے کر مسلمانوں کی بستیوں میں گھس کر ترنگا لہرانے کی ضد کرنا۔ عید، بقرعید کے دن مساجد پر ترنگا لہرانے کی ضد یا مدارس میں ترنگا پھہر ا کر مسلمانوں کو قومی بنایا جاتا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی مواقع پر، مذہبی جلوسوں میں مسلمانوں کو گالی دینے والے گانے چلائے جاتے ہیں اور ان کے خلاف توہین آمیز اور پرتشدد نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں پر تشدد کیے بغیر ہندوؤں کا مذہبی ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

اس کے ساتھ آپ کو ان  سیاسی تقریروں کو بھی یاد کرلیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر دیتے رہتے ہیں۔ ہندو مفاد ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد سے الگ ہے۔ قبرستان -شمشان یا سفید انقلاب گلابی انقلاب کااجتماع ضدین، اسی طرح شیواجی –اورنگ زیب یا رانا پرتاپ- اکبر کا اجتماع ضدین پچھلے 10 سالوں میں ہندو شعورکے لیے لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ اس کو بہت آسانی سے سیاسی زبان میں تبدیل کر دیا جاتا ہے: ہندوؤں کے زیورات لے کر مسلمانوں کو دے دیے جائیں گے، ان کا ریزرویشن مسلمان کھا لیں گے، ان کی نوکریاں مسلمان چھین لیں گے، ان کی زمینوں پر مسلمان قبضہ کر لیں گے، ان کی عورتوں پر تو نہ جانے کب سے ان کی نگاہ ہے۔

ہندو اب آگے آکر کہہ رہے ہیں کہ وہ جس موقع پر چاہیں، انہیں  مسلمانوں کو گالی دینے اور ان کی توہین کرنے کا حق ملنا چاہیے اور مسلمانوں کو اس کے خلاف احتجاج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مذہبی یا کسی بھی موقع پر مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سامنے، ان کے محلوں میں ان کی توہین کرنے والے نعرے لگانے کی چھوٹ ملنی چاہیے۔ وہ جب چاہیں کسی بھی مسجد پر چڑھ جائیں، اس میں داخل ہوجائیں اور جو چاہیں کر یں۔ مسلمانوں کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

حال ہی میں کرناٹک کی ایک عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ مسجد ایک عوامی جگہ ہے، اگر کوئی اس میں داخل ہو کر جئے شری رام کا نعرہ لگائے تو کسی مسلمان کو کیوں برا لگنا چاہیے؟ کیا مسجد واقعی اس طرح سے عوامی جگہ ہے جس طرح  عدالت اس کو بتاناچاہتی ہے؟ اور جئے شری رام کس طرح کا نعرہ ہے، کیا عدالت نہیں جانتی؟

یہ سب اس عمل کا حصہ ہے جس کے ذریعے ایک نیا ہندواپنے اختیارات کی تشکیل کررہا ہے۔ جب دہلی کی ایک عدالت میں بی جے پی لیڈر کے مسلم مخالف بیان پر بحث چل رہی تھی تو جج نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ لیڈر کو اپنے حامیوں کو جمع کرنے کے لیے ایسا کرنا پڑا ہو۔ یعنی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلم مخالف بیان دیا جائے تو وہ جائز ہو جاتا ہے۔

اسی طرح پولیس نے دہلی کی ایک دھرم  سنسد میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے اکسانے کو یہ کہہ کر جواز فراہم کردیا کہ یہ اپنی کمیونٹی کی اخلاقیات کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا  تھا۔

گوپال مشرا کی ماں کو بھی لگتا ہے کہ یہ ناانصافی ہے کہ اگر اس کا بیٹا کسی مسلمان کے گھر میں گھس کر اس کی مذہبی علامت کو نوچ کر اپنانشان لگا دے اور اس گھر کو بھی توڑےتو کوئی مسلمان اس پر پرتشدد ردعمل  ظاہر کرے۔ وہ ایک جائز کام کر رہا تھا!

جب گوپال مشرا یہ کارنامہ انجام دے رہا تھا تو اس گھر کے سامنے سینکڑوں ہندوؤں کا ہجوم تھا۔ ان میں سے کوئی اسے سمجھانے نہیں آیا، کسی نے اسے نہیں روکا۔ کسی نے نہیں کہا کہ دوسرےکے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے، کسی نے نہیں کہا کہ کسی کی مذہبی علامت کو تباہ نہیں کرنا چاہیے، کسی نے نہیں کہا کہ کسی کا گھر توڑنا نہیں چاہیے۔

پوری بھیڑ جنون میں  مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے مشرا کو اکساتی رہی۔ وہ اس بھیڑ کی طرف سے، ان کے لیے مسلمانوں کی توہین کر رہا تھا۔ وہ ایک ہندو مذہبی فعل انجام دے رہا تھا، اپنا قومی فرض پورا کر رہا تھا۔ یہ اس کا حق تھا۔ کسی کو اس کی مخالفت کا حق نہیں ہے۔ یقیناً کسی مسلمان کو تو قطعی نہیں۔

اس نئے ہندو حق کے سہارے کوئی  ہندو کسی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نوئیڈا کے ایک کھاتے پیتےاور’پڑھے لکھے’ ہندوؤں کی کالونی میں ایک مسلمان کے ساتھ وہاں کے  ہندوؤں نے کیا۔

اس ہندو حق کی بدولت  ہندو کسی مسلمان کے گھر کی چھان بین کر سکتا ہے، اس کا ٹفن کھول سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے۔ وہ مسلمان عورت کے حجاب پر اعتراض کرسکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔ اسے اس کا بھی حق ہے کہ وہ کسی مسلمان کی داڑھی اور ٹوپی دیکھ کر غصے میں آجائے اور اس پر حملہ کر دے۔ اسے اس کا حق تو ہے ہی کہ وہ  اسلام اور رسول کو گالی دے۔ اسے مسلم معاشرے کی اصلاح اور اسے قومی بنانے کا بھی حق ہے، بلکہ یہ اس کا قومی فریضہ ہے۔

گوپال مشرا یہ  نیا ہندو تھا، نئے ہندو حقوق سے لیس۔ وہ دراصل اس ہندو حق کو اپنے مذہبی اور قومی فرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

مشرا کو قانون کے مطابق گرفتار کیا جانا چاہیے تھا اور مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا۔ لیکن کیا پولیس ایسا کر سکتی ہے؟ چند سال قبل مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہندوؤں کو کنٹرول کرنے والے پولیس افسر سبودھ کمار سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پھر اس نئے ہندو کو قابوکون کرے ؟ مسلمان کہاں جائیں؟

بابری مسجد کے انہدام کے بعد سدھیر ککڑ نے ‘انڈین آئیڈنٹیٹی’ نامی کتاب میں نئی ہندو شناخت کی تعریف پیش کی تھی۔ سادھوی رتمبھرا کی ایک تقریر کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھاکہ اس شناخت کے دو حصے ہیں۔ ایک دیوتاؤں اور تاریخی کرداروں سے بنتا ہے، جیسے رام، ہنومان، پرشورام، شیواجی وغیرہ۔ دوسرا، اس کی بنیاد پر جو وہ طے شدہ طور پر نہیں ہے، یعنی مسلمان۔ یہ ہندو شناخت خودکفیل نہیں ہے، ممکنہ طور پر خود مختار بھی نہیں ہے۔ اس کی تعریف صرف مسلمان کے ساتھ اس کی علیحدگی کے تعلق میں ہی جاسکتی ہے۔

لیکن ککڑ کی اس تعریف میں اب اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب ہندو تشخص کی تعریف محض مسلمانوں سے علیحدگی سے طے نہیں ہوتی۔ اب یہ پہچان مسلمانوں کے خلاف نفرت سے پیدا ہوتی ہے۔

گوپال مشرا کی ماں کا بیان سنتے ہوئے مجھے پریم چند کی کہانی ‘مندر-مسجد’ یاد آ رہی تھی۔ چوہدری عترت علی اس کہانی کا ایک کردار ہے۔ سخت مذہبی۔ لیکن سب کی پاکیزگی کی حفاظت ان کے لیے فرض ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مسلمان مندر میں گھس کر فساد برپا کر رہے ہیں۔ وہ اپنے وفادار ٹھاکر بھجن سنگھ کو بھیجتے ہیں کہ بدمعاشوں کی تنبیہ کریں۔ بھجن سنگھ جوش میں آکر شرپسندوں پر لاٹھی چلاتے ہیں۔ عترت علی دیکھتے ہیں جس کو مارا گیا وہ ان  کا داماد ہے۔ یعنی بھجن سنگھ کے ہاتھوں ان کا داماد مارا گیا ہے۔

بھجن سنگھ کو کاٹو تو خون نہیں۔ لیکن پریم چند کے عترت علی کہتے ہیں: ‘میں اگر خود شیطان کے بہکاوے میں آکر مندر میں گھستا اوردیوتا کی توہین کرتا، اور تم مجھے پہچان کر بھی  قتل کر دیتے تو میں اپنا خون معاف کر دیتا۔ کسی کے دین  کی توہین کرنے سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔گو اس وقت میرا کلیجہ پھٹ جاتا ہے اور یہ صدمہ میری جان ہی لے کر چھوڑے گا، پر خدا گواہ ہے کہ مجھے تم سے ذرا بھی ملال نہیں ہے۔ تمہاری جگہ  میں ہوتا تو میں بھی یہی کرتا، چاہے میرے مالک  کا بیٹا ہی کیوں نہ ہوتا۔’

کسی کے دین  کی توہین سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔ آج کا ہندو یہ کیوں بھول گیا ہے؟ وہ یہ کیوں نہیں سمجھ پارہاکہ کسی کے دین کی توہین گناہ ہے، بلکہ کسی انسان، کسی برادری کی توہین بھی گناہ ہے۔ گناہ کے اس احساس کے غائب ہونے کا مطلب ہے دین کے احساس کا غائب ہونا۔ کیا یہ نیا ہندو، بااختیار ہندو، پوری طرح سے مذہبی شعور خالی ہو گیا ہے؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)