ملک کے 100 سے زیادہ سابق نوکرشاہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ ملک میں ‘نفرت سے بھری تباہی کا جنون’ صرف اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ آئین کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
نئی دہلی: ملک کے 100 سے زیادہ سابق نوکر شاہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر کہا ہےکہ ملک کی اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تشدد کے حالیہ واقعات اکثریتی طاقتوں کو ہمارے آئین کے بنیادی اصولوں اور قوانین سے اوپر دکھا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، خط میں اس پورے عمل میں حکومت کی ملی بھگت کا الزام لگایا گیا ہے۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کے تحت سابق نوکرشاہوں نے وزیر اعظم مودی کو لکھے ایک خط میں کہا ہےکہ ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا جنون نہ صرف اقلیتوں کو بلکہ آئین کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
سابق نوکرشاہوں نے ان واقعات پر وزیراعظم کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ناقابل برداشت قرار دیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ (مودی) نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کی اپیل کریں گے، جو ان کی حکومت میں ہو رہی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ،سابق نوکرشاہوں کی حیثیت سے ہم عام طور پر خود کو اس طرح کے سخت الفاظ میں اظہار نہیں کرنا چاہتے، لیکن جس تیزی سے ہمارے آباؤ اجداد کی تیار کردہ آئینی عمارت کو تباہ کیا جا رہا ہے، وہ ہمیں بولنے اور اپنے غصے کا اظہار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں اور مہینوں میں بی جے پی مقتدرہ کئی ریاستوں آسام، دہلی، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے ایک خوفناک جہت حاصل کر لی ہے۔
یہ کھلا خط ملک بھر میں فرقہ وارانہ تصادم اور فسادات کے ملزم اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر کی کارروائی کے درمیان سامنے آیا ہے۔
اس خط میں سابق نوکرشاہوں نے حجاب پر پابندی جیسے مسائل پر بھی بات کی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ،یہ تشدد محض ہندوتوا کی شناخت کی سیاست نہیں ہے، اور نہ ہی فرقہ پرستی کو عروج پر رکھنے کی کوشش ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں ‘نیو نارمل’ کا حصہ بن گیا ہے۔ ہمارے آئین کے بنیادی اصولوں اور قوانین کو اکثریتی قوتوں کے حوالے کیا جانا زیادہ تشویشناک ہےجس میں حکومت کی پوری ملی بھگت میں دکھائی دیتی ہے۔
سابق نوکرشاہوں نے خط میں کہا کہ ،قانون دراصل امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بننے کے بجائے ایک ایسا آلہ بن گیا ہے جس کے ذریعے اقلیتوں کو خوف کی حالت میں رکھا جاسکتا ہے۔
سابق نوکرشاہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ خطرہ بے مثال ہے اور اس سے نہ صرف آئینی اخلاقیات اور طرز عمل ہی داؤ پر لگا ہوا ہے بلکہ ہمارا شاندار سماجی تانا بانا، جو ہماری سب سے بڑی وراثت ہے اور جسے ہمارے آئین کو احتیاط سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس کےبکھرنے کا بھی خطرہ ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ،اس سماجی خطرے کے پیش نظر آپ کی خاموشی ناقابل برداشت ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کے وعدے کو دل میں رکھتے ہوئے ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے اس سال میں متعصبانہ خیالات سے اوپر اٹھ کر، آپ نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کی اپیل کریں۔
دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق قومی سلامتی کے مشیر شیوشنکر مینن، سابق خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ، سابق ہوم سکریٹری جی کے پلئی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے پرنسپل سکریٹری ٹی کے اے نائر، ان 108 سابق نوکرشاہوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خط پر دستخط کیے ہیں۔
(اس خط کو مکمل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)