سال 2020 میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں مسلم خواتین کے مساجد میں داخلے پر مبینہ پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی ہدایت دینے کی گزارش کی گئی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالت کو بتایا ہے کہ مسلم خواتین مسجد جانے کے لیے آزاد ہیں اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ وہاں نماز پڑھنے کے اپنے حق کا استعمال کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے بدھ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ خواتین کو مسجد میں آنے اور نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔
بورڈ نے کہا کہ مسلم خواتین نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کو آزاد ہیں اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے اپنے حق کا استعمال کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
اے آئی ایم پی ایل بی نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے یہ جانکاری دی ہے۔ یہ حلف نامہ مسجد میں مسلم خواتین کے نماز پڑھنے سے متعلق ایک عرضی کے سلسلے میں دائر کیا گیا ہے۔
وکیل ایم آر شمشاد کے توسط سے داخل کردہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہیں (جو موجودہ معاملے میں مساجد ہیں) مکمل طور پر نجی ادارے ہیں اور ان پر مساجد کے متولی کا کنٹرول ہوتا ہے۔
فرحہ انور حسین شیخ نے 2020 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ عدالت ہندوستان میں مسلم خواتین کے مساجد میں داخلے پر مبینہ پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہدایات جاری کرے۔ مارچ میں اس کی سماعت ہو سکتی ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اے آئی ایم پی ایل بی ماہرین کا ایک ادارہ ہے اور اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ صرف اسلام کے اصولوں پر اپنا مشورہ دے سکتا ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ مذہبی صحیفوں، اصولوں، اسلام کے پیروکاروں کےمذہبی عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئےیہ دلیل دی جاتی ہے کہ خواتین کو مسجد میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
اے آئی ایم پی ایل بی اس سلسلے میں کسی مخالف مذہبی رائے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام نے خواتین کے لیے یہ ضروری نہیں کیا کہ وہ دن میں پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں اور نہ ہی جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ حالانکہ یہ مسلمان مردوں کے لیے ضروری ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق، مسلمان خواتین چاہے گھر میں نماز پڑھیں یا مسجد میں نماز پڑھیں، انہیں ایک جیسا ہی ثواب ملے گا۔