موجودہ لوک سبھا انتخابات کے دوران مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے درمیان تین سابق چیف الیکشن کمشنروں نے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایجنسیوں سے بات کرنی چاہیے کہ وہ الیکشن ختم ہونے تک انتظار کیوں نہیں کر سکتے۔
نئی دہلی: کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اتوار (31 مارچ) کو وزیر اعظم نریندر مودی پر قانون نافذ کرنے والی مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں ‘میچ فکسنگ’ کا الزام لگایا تھا۔
اس کے بعد کم از کم تین سابق چیف الیکشن کمشنروں (سی ای سی) نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کے خلاف انکم ٹیکس (آئی ٹی) ڈپارٹمنٹ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی حالیہ کارروائیوں سے انتخابات کے دوران مساوی مواقع میں رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کانگریس نے سنیچر کو بتایا تھا کہ اسے 2014-2015 اور 2016-2017 کے لیے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ سے نئے نوٹس ملے ہیں ، جن میں 1745 کروڑ روپے کے ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے پارٹی کو 1994-95 اور 2017-18 کے لیے نوٹس ملے تھے، جن کو ملا کر آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نے کانگریس سے اب تک 3567 کروڑ روپے کا مطالبہ کر چکا ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس نے کانگریس کے بینک کھاتوں سے پچھلے واجبات کے 135 کروڑ روپے بھی نکال لیے ہیں۔
الیکشن کمیشن (ای سی) کے سابق عہدیداروں کے مطابق، جن میں سے دو نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، اس طرح کے اقدامات کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اور الیکشن کمیشن کو کم از کم ایجنسیوں سے مل کر معلوم کر نا چاہیے کہ ٹیکس کے مطالبات اور آئی ٹی نوٹس انتخابات کے ختم ہونے تک انتظار کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔
سابق سی ای سی ایس وائی قریشی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن یقینی طور پر اسے روک سکتا ہے کیونکہ اس سے مساوی مواقع پر اثر پڑ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اندر ہم نے ہمیشہ اس اصول پر عمل کیا ہے کہ انتخابات کے دوران ‘جو کچھ بھی انتظار کر سکتا ہے، اسے انتظار کرنا چاہیے’۔ سوال یہ ہے کہ کیا کارروائی ملتوی کرنے سے کوئی ناقابل تلافی نقصان ہو گا؟ اس معاملے میں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں ہے۔ یہ تین ماہ بعد کیا جا سکتا ہے۔’
ایک اور سابق سی ای سی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘کمیشن میں ہمارے دور میں ایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے، اس لیے ایسی کوئی مثال دینا مشکل ہے جب کمیشن نے اس طرح کی کارروائی کی ہو۔ تاہم، ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے ہر فرد کو مساوی موقع ملے۔ اگر انتخابی مہم کے دوران ٹیکس ایجنسیاں اہم اپوزیشن پارٹی کو نوٹس جاری کرتی رہتی ہیں، ان کے اکاؤنٹس فریز کر دیتی ہیں اور ان سے پیسے بھی نکال لیتی ہیں، تو کمیشن کو سی بی ڈی ٹی سے ٹھوس وجہ معلوم کرنی چاہیے کہ ان سب کے لیے انتخابات کے بعد تک انتظار کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کمیشن اور سی بی ڈی ٹی کے درمیان میٹنگ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں میں ای ڈی نے الگ الگ معاملوں کے سلسلے میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی اور چھاپے ماری کی ہے، سمن جاری کیے ہیں اور گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ سب سے نمایاں گرفتاری دہلی ایکسائز پالیسی کیس میں گزشتہ ہفتے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور اس سے پہلے بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کی رہنما کے کویتا کی تھی۔
سابق سی ای سی نے کہا کہ جب ای ڈی لیڈروں کو ایسے وقت میں پوچھ گچھ کے لیے بلاتی ہے جب انہیں انتخابی مہم میں شامل ہونا چاہیے، تو اس سے مساوی موقع پر اثر پڑتاہے۔ سابق سی ای سی نے کہا، ‘کمیشن قومی سلامتی کے معاملوں میں مداخلت نہیں کر سکتا، لیکن اگر ان کارروائیوں میں قومی سلامتی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو کیا انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور ای ڈی دو ماہ تک انتظار نہیں کر سکتے؟’
تیسرے سابق الیکشن کمشنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘یہ ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے لیے اس سے نمٹنا کتنا مشکل ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کی فنڈز تک رسائی مسدود کر دی جائے تو آپ کیسے امید کرتے ہیں کہ وہ الیکشن لڑ سکے گی۔ کیا یہ مساوی مواقع کو متاثر نہیں کرتا؟ اس میچ میں کمیشن بحیثیت امپائر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اسے مرکزی ایجنسیوں کے ساتھ مشاورت یا میٹنگ کے ذریعے کچھ محرک کردار ادا کرنا ہوگا۔’
تاہم، سابق سی ای سی او پی راوت نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف اس صورت میں مداخلت کر سکتا ہے جب اس کے پاس قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جانب سے غلط کاموں پر شبہ کرنے کے لیے خاطر خواہ بنیادیں ہوں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر اس بات کا ثبوت ہے کہ ایجنسی نے جان بوجھ کر کارروائی کرنے میں تاخیر کی، جس کی وجہ سے یہ انتخابی مہم سے متصادم ہو یا وہ چھاپے مار رہے ہیں لیکن کچھ نہیں مل رہا ہے، تو صرف ایسی صورت حال میں ہی کمیشن انہیں انتخابات ختم ہونےتک انتظار کرنے کو کہہ سکتا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں ایسے معاملات پر سیاست کرتی ہیں اور تمام حقائق لے کر کمیشن کے پاس نہیں جاتیں اور یہیں سے الیکشن کمیشن کے لیے یہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔’
تاہم، 2019 میں گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے ذریعے ای ڈی کو غیر جانبداری سے کام کرنے کے لیے کہنے کی ایک مثال بھی موجود ہے۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب اپوزیشن جماعتوں نے حکمراں جماعت پر مرکزی ایجنسیوں کو ان کے خلاف استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔