خصوصی رپورٹ : آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت نے دلیل دی تھی کہ تین طلاق کی غیر منصفانہ روایت کو روکنے کی اشد ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے متعلقہ وزارتوں سے مشورہ نہیں لیا گیا۔
مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکزی حکومت کے وزارت قانون نے تین طلاق بل کے بارے میں کسی بھی وزارت یا محکمہ اور ریاستی حکومتوں سے کوئی صلاح نہیں لی تھی۔ اس کے بغیر ہی مرکزی کابینہ نے اس بل کو منظوری دے دی تھی۔
دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی درخواست کے تحت حاصل دستاویزوں سے اس کا انکشاف ہوتا ہے۔
کافی وقت تک زیر التوا رہنے کے بعد گزشتہ سال جولائی مہینے میں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019 میں منظور کیا گیا تھا، جس کو تین طلاق آرڈیننس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد اب یہ قانون بن گیا ہے۔
ایوان میں چرچہ کے دوران حزب مخالف رکن پارلیامان نے مانگ اٹھائی تھی کہ اس بل کو پارلیامنٹ کی کابینہ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہیے تاکہ بل پر صحیح سے بات چیت کی جا سکے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایوان میں دعویٰ کیا کہ کئی متاثرہ خواتین سے بات چیت کرنے کے بعد اس کو لایا گیا ہے۔
حالانکہ حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت قانون نے اس بل کو لےکر متعلقہ وزارت یا کسی بھی دیگر محکمہ اور ریاستی حکومتوں سے کوئی صلاح یا مشورہ نہیں کیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کے لئے وزارت نے دلیل دی تھی کہ تین طلاق کی غیر منصفانہ روایت کو روکنے کی اشد ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے متعلقہ وزارتوں سے مشورہ نہیں لیا گیا۔
وزیر قانون کے دستخط والی تین طلاق بل پر فائل نوٹنگ۔
روی شنکر پرساد کے دستخط والی ایک فائل نوٹنگ میں لکھا ہے، ‘ 16ویں لوک سبھا میں اس کو پیش کرنے سے پہلے کابینہ نوٹ کے ساتھ مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس ، 2017 کو مرکزی حکومت کی متعلقہ وزارتوں / محکمہ جات اور ریاستی حکومتوں کے یہاں بھیجا گیا تھا اور ان سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ ‘
حالانکہ نوٹ میں آگے لکھا گیا، ‘ تین طلاق کی غیر منصفانہ روایت کو روکنے کی اشد ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئےبین وزارتی مشورےکو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ‘
وزارت قانون کا یہ قدم خود اس کے ہی ذریعے سال 2014 میں جاری کئے گئے
Pre Legislative Consultation Policy کے منافی ہے ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی بل کو پہلے متعلقہ وزارت یا محکمہ کے پاس بھیجا جانا چاہیے اور ان کے تبصرے کو کابینہ نوٹ میں شامل کیا جانا چاہیے۔
سال 2014 میں کابینہ سکریٹری کی صدارت میں سکریٹری کی کمیٹی (سی او ایس) کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ اگر کسی محکمہ / وزارت کو لگتا ہے کہ پہلے سے مشورہ ممکن نہیں ہے تو وہ کابینہ نوٹ میں اس کی وجوہات کا ذکر کریں۔
حالانکہ
دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے تین طلاق بل پر خفیہ کابینہ نوٹ میں ایسی کسی وجہ کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں بھی یہی لکھا ہے کہ تین طلاق کی غیر منصفانہ روایت کو روکنے کی اشد ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے بین وزارتی مشورے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ کا کہنا ہے کہ یہ صحیح عمل نہیں ہے اور یہ اصولوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ تین طلاق بل پر وزارت داخلہ، وزارت اقلیتی امور، منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سے مشورہ کیا جانا چاہئے تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا ہے تو یہ اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ صحیح عمل نہیں ہے۔ تمام متعلقہ وزارتوں سے صلاح لی جانی چاہیے۔ ‘
مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلم شوہر اپنی بیوی کو زبانی، تحریر ی یا الیکٹرانک طریقے سے یا پھر کسی دوسری طرح سے تین طلاق (طلاق بدعت) دیتا ہے تو اس کا ایسا کوئی بھی اعلان زیرو اور غیر قانونی ہوگا۔
اس میں یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ تین طلاق سے متاثر خاتون اپنے شوہر سے خود اور اپنی منحصر اولادوں کے لئے گزر بسر کا بھتہ حاصل کرنے کی حقدارا ہوگی۔ اس رقم کو مجسٹریٹ طے کرےگا۔ اس قانون کے تحت اس طرح کا طلاق دینے پر شوہر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ تین طلاق کو سنگین جرم مانا گیا ہے۔
تین طلاق بل کے کابینہ نوٹ کا ایک حصہ۔
اس بات کو لےکر بھی حکومت کی تنقید ہوئی تھی کہ چونکہ طلاق ایک دیوانی معاملہ ہے، لیکن حکومت بنا کسی بنیاد کے اس کو فوجداری معاملہ بنا رہی ہے۔
حزب مخالف نے یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ کیا حکومت کے پاس ایسا کوئی سروے یا اعداد و شمار ہے کہ کتنی خواتین تین طلاق کی متاثرہ ہیں۔
ان سوالوں کا جواب ان دستاویزوں میں نہیں ملتا ہے جس کی بنیاد پر یہ بل بنایا گیا ہے۔ کابینہ کے سامنے رکھے گئے خفیہ نوٹ میں ایسے کسی اعداد و شمار کا ذکر نہیں ہے۔
کل 35 صفحہ کے کابینہ نوٹ میں صرف اتنا لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کئی ساری ایسی رپورٹ آئی ہیں جس میں مسلم مرد نے طلاق بدعت کا سہارا لیا ہے۔
حالانکہ 12 دسمبر 2018 کو کانگریس رکن پارلیامان سشمتا دیو کے ایک سوال کے جواب میں روی شنکر پرساد نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ تین طلاق کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے اب تک کل 248 معاملے سامنے آئے تھے۔
سب سے پہلے یہ بل 2017 میں ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔ حالانکہ دونوں ایوانوں سے منظور نہ ہونے کی وجہ سے کافی وقت تک یہ زیر التوا رہا تھا۔ بیچ میں حکومت اس کے لئے کئی بار آرڈیننس بھی لےکر آئی تھی۔ بعد میں جولائی، 2019 میں یہ بل پاس ہوا۔
دی وائر نے اس کو لےکر وزارت قانون کے سکریٹری اور وزیر قانون روی شنکر پرساد کو سوالات بھیجے ہیں۔ ابھی تک وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ اگر کوئی جواب آتا ہے تو اس کو اسٹوری میں شامل کر لیا جائےگا۔