باندی پورہ کے آزادصحافی سجاد گل نے ایک تحصیلدار کے ذریعے ایک گاؤں میں مبینہ غیرقانونی تعمیرات ہٹانے اور گاؤں والوں کو ہراساں کرنےکے الزام پر ایک رپورٹ لکھی تھی۔ گل نے کہا کہ اس کے بعد تحصیلدار نے انتقامی جذبے سے ان کی ملکیت میں توڑ پھوڑ کی اور ان پر معاملہ درج کروایا۔
شمالی کشمیر کے باندی پورہ ضلع کے ایک آزاد رپورٹر سجاد گل کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔دراصل سجاد نے مقامی نیوز پورٹل دی کشمیر والا کے لیے باندی پورہ کے ایک گاؤں میں مبینہ طور پر غیرقانونی تعمیرات ہٹائے جانے کو لےکر خبر کی تھی۔
اس میں گاؤں والوں نےالزام لگایا تھا کہ انتظامیہ نے انہیں ہراساں کیا اور دھمکایا تھا۔ اس کے بعدصحافی گل پر فساد برپا کرنے، تجاوزات اورہراساں کرنے کے الزام میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔
گل نے بتایا کہ نو فروری کو انہوں نے ہاجن کےتحصیلدار غلام محمد بھٹ کے ذریعےکرائے گئے توڑ پھوڑ پر خبر لکھی تھی، جہاں مقامی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ وہ (تحصیلدار)انہیں ہراساں کر رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تحصیلدار نے مقامی لوگوں کے لیےغیر مہذب زبان کا استعمال بھی کیا۔
اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد بھٹ نے گل پر قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
گل نے دی وائر کو بتایا،‘انہوں نے مجھے فون کیا اور مجھے خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہارے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔ بعد میں انہوں نے علاقے کے کچھ صحافیوں کو بھی فون کیا اور ان سے پوچھا کہ مجھے کس طرح سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔’
الزام ہے کہ اگلے دن افسر(تحصیلدار)گل کےآبائی گاؤں شاہ گنڈ گئے اور ان کے ماموں کی ایک ملکیت کی باڑ اور ساتھ میں گل کی ملکیت ضائع کرا دی۔گل کا الزام ہے، ‘دراصل یہ میری رپورٹ پر ان کا ردعمل تھا۔ عام طور پر توڑ پھوڑ مہم جو گھر پہلے بنا ہوتا ہے، وہاں سے شروع ہوتا ہے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر سب سے پہلے ہمارے گھر کو چنا۔’
تحصیلدار کی اس سرگرمی کو شک کے دائرے میں رکھتے ہوئے شاہ گنڈ کے لوگوں نے پتھراؤ کیا اور مقامی سطح پر احتجاج کیا۔ اس کے بعد گل ان کے چار ماموں سمیت کئی مقامی لوگوں کے خلاف بھٹ نے ایف آئی آر درج کرائی۔
گل نے د ی وائر کو بتایا،‘وہ سب چار دن تک اس لیے جیل میں رہے کیونکہ وہ مجھ سے جڑے ہوئے تھے۔’بھٹ کی شکایت کے بعد پولیس نے گل کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ147(فساد کرنے)، 447(مجرمانہ طور پر تجاوزات کرنے) اور 353(سرکاری ملازم پر حملہ)کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی۔
گل کا الزام ہے کہ تحصیلدار ان پر پتھراؤ کرنے کے فرضی الزام لگاکر انہیں جھوٹے معاملے میں پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے۔گل نے کہا، ‘اس دن میں سرینگر کے راج باغ میں تھا اور میں نے پولیس کو بھی یہی بتایا۔ میں نے پولیس سے اس دن میرے فون کی لوکیشن ٹریس کرنے کو بھی کہا لیکن وہ اس معاملے کو سلجھا نہیں رہے۔’
ایف آئی آر کے علاوہ بھٹ نے گل کےصحافتی کریئر بھی ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حالانکہ گل کا کہنا ہے کہ ان کی رپورٹ حقائق پر مبنی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ کئی بار گزارش کرنے کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر کی کاپی انہیں نہیں دی۔
اس کے بعد گل نے کشمیر پریس کلب کو خط لکھا۔ اتوارکو کشمیر پریس کلب کی جانب سے بیان جاری کرکے گل کے خلاف درج معاملے پرتشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ادارےنے اس معاملے کو ڈویژنل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے سامنے رکھا ہےلیکن دونوں کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود گل کے خلاف درج ایف آئی آر رد نہیں کی گئی۔
پریس کلب نے جاری بیان میں کہا، ‘پریس کلب کشمیر کے ڈویژنل کمشنر اور انسپکٹر جنرل پولیس سے گزارش کرتی ہے کہ وہ تحصیلدارکے ذریعے اتھارٹی کے مبینہ غلط استعمال کی جانچ کریں۔ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ سے اس معاملے کی پوری طرح سے جانچ کرنے کی بھی گزارش کی گئی،خصوصی طور پرصحافی کے اس دعوے کی کہ وہ واقعہ کے وقت مذکورہ مقام پر موجود نہیں تھا۔’
پریس کلب نے کہا کہ گل خود اس سلسلے میں تمام شواہد دینے کو تیار ہیں۔
صحافیوں پر حملے میں اضافہ
پانچ اگست 2019 سے گھاٹی میں صحافیوں کے خلاف ہراسانی اور دھمکی کی شکایتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اگست 2019 میں جموں وکشمیر کےخصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد ترمیم شدہ میڈیا پالیسی کو نافذ کرنے کے بعد سے ہی صحافیوں کے لیے علاقے سے رپورٹ کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
نئی میڈیا پالیسی سرکاری حکام کو یہ فیصلہ لینے کا حق دیتا ہے کہ فیک نیوز کیا ہے اور ملک مخالف سرگرمی کیا ہے۔
اس سے پہلے پچھلے مہینے دی کشمیر والا کے ایڈیٹر ان چیف فہد شاہ اورصحافی یش راج شرما کے خلاف 31 جنوری کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ یہ ایف آئی آر ہندوستانی فوج کی شکایت پر درج کی گئی تھی، جس میں انہیں فرضی خبریں پھیلانے کا ملزم بتایا تھا۔
اس کے علاوہ پولیس نے دی کشمیریت ویب سائٹ کو بھی اسی رپورٹ کو شائع کرنے کے لیے نامزد کیا تھا۔شاہ نے دی وائر کو بتایا تھا کہ سرکار کشمیر میں آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اسے چپ کرانے پر توجہ مرکوزکر رہی ہے۔
شاہ نے کہا تھا، ‘میں آزاد میڈیا پر زور دینا چاہوں گا کیونکہ کشمیر میں اکثر میڈیا گھرانے پہلے سے ہی بستر مرگ پر ہیں۔ کشمیر میں زیادہ آزادمیڈیا ادارےنہیں ہیں اس لیے جو تھوڑے بہت ہیں، انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمیں ایک سال سے زیادہ سے ہمارے کام کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔’
وہیں یش راج شرما کے لیےیہ معاملہ کشیدگی کی وجہ بنا۔ شرما دی وائر کو بتاتے ہیں،‘جب بھی مجھے کسی انجان نمبر سے فون آتا، میں گھبرا جاتا۔ مجھے لگتا کہ یہ پولیس کا فون ہے اور پولیس مجھے طلب کرےگی۔ جس طرح سے یہ ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں، اس سے صاف ہے کہ انتظامیہ ہمیں اس طرح معاملے درج کر ہمیں ڈرانا چاہتا ہے۔’
شرما کی طرح گل سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سےصحافت میں ماسٹرس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اس طرح ڈرانے یا دھمکانے سے ذہنی سکون تباہ ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پڑھائی یا کام پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتا۔ میرے کام پرردعمل دیکھنے کے بعد میری ماں مجھ سے یہ پیشہ چھوڑنے کو کہہ رہی ہیں۔’
دی وائر نے اس معاملے میں ہاجن پولیس تھانے کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور غلام محمد بھٹ سے ردعمل جاننا چاہا ہے لیکن ابھی تک ان کا جواب نہیں ملا ہے۔ جواب آنے پر اس سٹوری کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔
(نامہ نگار آزادصحافی ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)