جموں و کشمیر میں اخباروں میں اشتہار دے کر انتظامیہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں اب تک جموں و کشمیر کے لوگوں کو گمراہ کیا گیا ہے۔
نئی دہلی :کشمیر میں عام زندگی جمعہ کو لگاتار 68ویں دن بھی متاثر رہی۔ اہم بازار بند رہے اور سرکاری گاڑیاں سڑکوں سے ندارد رہیں۔حکام نے یہ جانکاری دی۔اس بیچ جموں کشمیر انتظامیہ نے مقامی اخباروں میں پورے صفحے کااشتہار جاری کر لوگوں کو دہشت گردوں کی دھمکیوں سے نہیں ڈرنے اور اپنی عام سرگرمیوں کو بحال کرنے کو کہا ہے۔کشمیر وادی میں پانچ اگست سے لگاتار بند جاری۔ مرکزی حکومت کے ذریعے 370 کے اکثر اہتماموں کورد کرتے ہوئے جموں کشمیر کے خصوصی ریاست کادرجہ ختم کرکے اس کو دو یونین ٹریٹری میں بانٹ دیا تھا۔
اس کے بعد سے یہاں بند جاری ہے اور مواصلاتی ذرائع پر پابندیا لگی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہے۔ بازار بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے لگ بھگ ندارد ہیں۔حکام نے بتایا کہ نماز کے مد نظر سرینگر سمیت کشمیر کے حساس علاقوں میں نظم و نسق بنائے رکھنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر اور پوری گھاٹی میں کہیں بھی پابندی نہیں ہے۔حالانکہ، گھاٹی کے حساس علاقوں میں ہرجمعہ کوپابندی لگائی جاتی ہے۔ انتظامیہ کی دلیل ہے کہ مفاد پرست عناصر مظاہرے کے لیے بڑی مسجدوں اور مذہبی مقامات پر بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کر سکتے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ کشمیر میں اہم بازار بند رہے، حالانکہ کچھ وینڈروں نے ٹی آرسی چوک لال چوک شاہراہ پر دکانیں لگائی تھی۔انہوں نے بتایا کہ سرینگر سمیت گھاٹی کے دوسرے ا ضلاع میں پرائیویٹ گاڑیاں سڑکوں پرچلتی نظر آئیں ۔ حالانکہ، نجی گاڑیو ں کی تعداد جمعرات کے مقابلے بہت کم تھی۔حکام نے بتایا کہ ہندواڑا اور کپواڑا حلقے کو چھوڑکر کشمیر میں چار اگست سے موبائل خدمات لگاتار بند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گھاٹی میں انٹرنیٹ خدمات بھی تب سے بحال نہیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ طلبا بھی اسکول اور کالج نہیں پہنچ رہے ہیں۔دریں اثناخصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد لگائی گئی پابندی کے 68 دن ہونے کے ساتھ جموں کشمیر انتظامیہ نےمقامی اخباروں میں پورے صفحے کااشتہار جاری کر لوگوں کو دہشت گردوں کی دھمکیوں سے نہیں ڈرنے اور اپنی عام سرگرمیوں کو بحال کرنے کو کہا ہے۔
کشمیر کے مختلف اخباروں میں شائع اشتہاروں میں کہا گیا ہے، ‘کیا ہمیں دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ہے؟ پچھلے 70 سال سے اب تک جموں وکشمیر کے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔ وہ شاطرمہم کے متاثر رہے ہیں۔ اپنے مفاد کے ساتھپروپیگنڈہ کرتے ہوئے دہشت گرد، تشدد، بربادی، غریبی کے لامتناہہ دائرے میں انہیں پھنسائے رکھا گیا۔’اشتہار میں حکومت نے کہا ہے کہ عام لوگوں کو اپنے بچوں کو تشدد، پتھربازی اور ہڑتال کے دلدل میں دھکیلنے کے لیے اکسا کر علیحدگی پسند اپنے بچوں کو پڑھائی، روزگار اور پیسہ کمانے کے لیے ملک سے باہربھیجتے ہیں۔
اشتہار میں کہا گیا کہ دہشت گردوں کا ڈر دکھاکر لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ آج دہشت گرد اسی طرح کی چالیں اپنا رہے ہیں۔ کیا ہم اسے برداشت کرتے رہیں گے۔ حکومت نے لوگوں سے پوچھا ہے کہ کیا وہ کئی دہائی پرانے ڈرانے دھمکانے کی چالوں کے اثر میں آتے رہیں گے؟سرکار نے کہا کہ گھاٹی کی بھلائی کے لیے کشمیر کے لوگوں کو ہی سوچنا ہے۔اشتہار میں کہا گیا ، ‘یہ ہمارا گھر ہے۔ ہمیں اس کی بھلائی اور خوشحالی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ڈر کیوں؟’اتنا ہی نہیں سرکار نے دو مہینے بعد سیاحوں کے لیے کشمیر میں پابندیاں ہٹا دی ہیں، لیکن علاقے کے کاروباری اس سے پرجوش نظر نہیں آ رہے۔ کاروباریوں نے کہا ہے کہ یہاں سیاحت وینٹی لیٹر پر ہے، یہ تب تک بحال نہیں ہوگا جب مواصلاتی نظام پر عائد پابندیاں ختم نہیں ہوتیں ۔
( خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)