دہلی ہائی کورٹ نے ماتحت عدالتی افسران کے کام کاج کی وجہ سے کووڈ 19انفیکشن کی گرفت میں آنے کے امکان پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس کا بنیادی نقطہ نظریہ ہے کہ ان کے ساتھ مسلح افواج اور پولیس فورس کے اہلکاروں کی طرح فرنٹ لائن کے ملازمین جیسا سلوک کیا جانا چاہیے اور سرکار اس پر غورکرے۔
نئی دہلی: ماتحت عدالتی افسران کے اپنے کام کاج کی وجہ سے کووڈ 19انفیکشن کی گرفت میں آنے کے امکان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو کہا کہ سیاستدانوں اور نوکرشاہوں کے لیے اپنی ناکامی اور نااہلی کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ یہ ان کے خون میں ہی نہیں ہوتا۔
عدالت نے کہا کہ قومی راجدھانی میں تین عدالتی افسران اس وائرس کی زد میں آکر پہلے ہی اپنی جان گنوا چکے ہیں، اس لیے اس کا بنیادی نقطہ نظریہ ہے کہ ان کے ساتھ مسلح افواج اور پولیس فورس کے ملازمین کی طرح فرنٹ لائن کے ملازمین جیساسلوک کیا جانا چاہیے اور سرکار اس پر غورکرے۔
جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس جسمیت سنگھ کی بنچ نے کہا، ‘سپریم کورٹ اورہائی کورٹ میں ہم آئینی عہدوں پر ہیں۔ ہمارے پروٹوکال الگ ہیں، لیکن ماتحت عدلیہ کے معاملے میں ایسی بات نہیں ہے۔عدالتی افسران کی پوزیشن مختلف ہوتی ہے اور آپ کو نیک نیتی سے قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ اس پر غور کیجیے اور پھر طے کیجیے۔’
بنچ دہلی سرکار کی اس دلیل سے متاثر نظر نہیں آئی کہ عدالت نے پہلے ایک آرڈرجاری کرکے کہا تھا کہ دہلی کے ضلعی جج کووڈ 19 مہاماری کے دوران عدالتی افسروں اور ان کے اہل خانہ کے طبی خدشات کو دور کرنے کے لیے ضلع حکام کے ساتھ تعاون کریں گے اور ہر ضلع میں اس سلسلے میں نوڈل افسر مقرر کیے جائیں۔
بنچ نے کہا، ‘ہم اس میں نہیں پڑیں گے۔ ویسا نہیں ہوا۔ وہ یہاں اس لیے ہیں کیونکہ اس کا کوئی تسلی بخش نتیجہ نہیں آیا۔ نوکر شاہی اورسیاستدانوں کے لیے اپنی ناکامی یا انااہلی کو قبول کرنا بڑا مشکل ہے۔ وہ کبھی اپنی ناکامی قبول نہیں کریں گے۔ یہ ان کے مزاج میں ہی نہیں ہے۔’
بنچ نے کہا کہ عدالتی افسر جس طرح خطرناک صورتحال میں کام رہے ہیں وہ مسلح افواج اور پولیس افسروں کے کاموں کے جیسا ہی ہے۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق عدالت نے کہا کہ اس سسٹم کو ابھی نافذ کیا جانا ہے اورخطرے کے آنے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا ہے اور سب سے خراب صورتحال کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل میں صورتحال کیسی ہوگی۔
بنچ نے کہا، ‘ہم نے پہلے ہی تین عدالتی افسروں کو کھو دیا ہے۔عدالتی افسروں اور ان کے اہل خانہ کے متاثر ہونے کی تعداد کو دیکھیے،یہ چونکا دینے والا ہے۔ ان کی نوکری کی نوعیت کی وجہ سے انہیں خود کو بے نقاب کرنا پڑتا ہے اس لیے ہمیں ان کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔’
بنچ نے آگے کہا، ‘آپ ایک جج سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی امید نہیں کر سکتے جب اس کا بیٹا، بیٹی، بیوی یا گھر کا کوئی اور فرد شدید طور پربیمار ہو۔ اپنے آپ قدم اٹھائیں، آپ کو (سرکار) اس پر احکامات کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔’
عدالت نے دہلی سرکار کے وکیل راہل مہرا کی دلیل پر غور کیا کہ دہلی سرکار اس بات پر غور کرےگی کہ عدالتی افسر، جو عدالتی نظام کو چلانے کے لیے اپنی خدمات دے رہے ہیں اور کووڈ 19 کے جوکھم سے جوجھ رہے ہیں، انہیں فرنٹ لائن کا اسٹاف قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ دہلی جوڈیشل سروسز ایسوسی ایشن ، جس نے یہ درخواست دی ہے، اس کی کاپی دہلی کے چیف سکریٹری کو دے سکتی ہے، اور وہ اس پر غور کریں گے۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ دہلی جوڈیشل سروسز ایسوسی ایشن، جس نے زمین پر سہولیات سمیت کچھ مدعوں کو اٹھاتے ہوئے ایک عرضی دائر کی ہے، دہلی کے چیف سکریٹر ی کو اس کی کاپی پیش کر سکتی ہے جو اس پرغور کرےگا اور ممبروں کے ساتھ ایک آن لائن بیٹھک بھی بلائےگا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)