
سشیلا کارکی کی مدت کار مختصر ہے، لیکن ان کا اثر دیرپا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ،تو یہ پورے نیپال کی جیت ہوگی۔ کیا ان کا دور اقتدار یہ ثابت کر پائے گا کہ ادھورے انقلابات کے اس طویل سفر میں امید کی لو اب بھی جل رہی ہے؟

سشیلا کارکی کو جمعہ (12 ستمبر) کی رات صدر رام چندر پوڈیل نے عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)
نیپال کی سیاست سیدھے راستے پر نہیں چلتی۔ یہ ہر موڑ پر امید جگاتی ہے اور پھر ادھوری رہ جاتی ہے۔ رانا حکومت کا خاتمہ، 1990 کی عوامی تحریک، ماؤ نواز جدوجہد، راج شاہی کا خاتمہ اور 2015 کا آئین، ہر واقعہ عوام کو ایک نئی صبح کی امید دیتا رہا، لیکن ہر صبح ادھوری ثابت ہوئی۔
ستمبر 2025 میں کے پی شرما اولی کی رخصتی اس طویل سلسلے کا تازہ ترین باب ہے۔ اور اس ہنگامہ خیز پس منظر میں ایک نام ابھرا سشیلا کارکی۔ نیپال کی پہلی خاتون چیف جسٹس اور اب عبوری وزیر اعظم۔ یہ تقرری نہ صرف آئینی اقدام ہے بلکہ تھکی ہوئی سیاست کے درمیان اخلاقیات کی واپسی بھی ہے۔
نیپال : جغرافیہ ، تاریخ اور نامکمل سفر
نیپال، ہمالیہ کی بلند چوٹیوں اور گنگا کے زرخیز میدانوں کے درمیان واقع ایک ایسا ملک ہے، جو بھلے ہی سائز میں چھوٹا ہے، لیکن تاریخ کی کروٹوں اور سیاسی ہلچل کا حصہ رہا ہے۔ اس کی سیاست ہمیشہ اندرونی عزائم اور بیرونی دباؤ کے درمیان جھولتی رہی ہے۔ نیپال نے ہندوستان اور چین کے سفارتی سائے میں جمہوریت کا راستہ اپنایا، لیکن اقتدار کی کشمکش، سماجی ناہمواریاں اور ادارہ جاتی کمزوریاں اسے نشانہ بناتی رہیں۔ ہر کوشش میں کچھ تبدیلیاں آئیں، لیکن استحکام اور اعتماد قائم کرنا مشکل رہا۔
نیپال اور ہندوستان کے تعلقات صرف سرحدوں یا جغرافیے تک محدود نہیں ہیں۔ متھلا کی قدیم روایات، اتراکھنڈ کی لوک ثقافت، وارانسی کا علم و ادب، اور کاٹھمنڈو کا ثقافتی ورثہ مل کر ایک مشترکہ ثقافتی اور تاریخی جغرافیہ تشکیل دیتا ہے۔ یہ مشترکہ ورثہ تعلیم، سیاست اور ادب میں بھی واضح طور پر جھلکتا ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی نے بی پی کوئرالا، گریجا پرساد کوئرالا، ماتریکا پرساد کوئرالا، سشیلا کوئرالا، منموہن ادھیکاری جیسے نیپال کے دوراندیش لیڈروں کو تعلیم دی، جنہوں نے نہ صرف نیپال میں جمہوریت، انصاف اور معاشرے کی سمجھ کو گہرا کیا، بلکہ ایک بھرپور تعلیمی اور سیاسی ماحول بھی بنایا۔
سشیلا کارکی بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ان کی تعلیم اور آئینی تربیت نے انہیں انصاف اور آئینی وقار کی سمجھ عطا کی ہے۔ نیپال کی تاریخ، جغرافیہ اور ثقافتی وسماجی ماحول کو سمجھے بغیر ان کی قیادت اور ملک کی موجودہ سیاست کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔
اولی کا زوال : ناکامیوں کا بوجھ
کے پی شرما اولی کو کبھی جدید نیپال کا قوم پرست چہرہ کہا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قیادت عوام سے دور ہوتی چلی گئی۔ پارلیامنٹ کو دو بار غیر آئینی طور پر تحلیل کرنا، عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش اور علاقائی عدم مساوات کو نظر انداز کرنا، ان سب نے انہیں ناقابل اعتبار بنا دیا۔
انہوں نے مدھیسی اور قبائلی برادریوں کے مطالبات پر توجہ نہیں دی۔ کرپشن کے الزامات لگتے رہے۔ سرحدی تنازعہ پر انہوں نے شروع میں جو مقبولیت حاصل کی وہ آہستہ آہستہ عدم اعتماد اور ناراضگی میں بدل گئی۔ 2025 تک عوام اور سیاسی اتحادیوں کا صبر ٹوٹ چکا تھا۔ ان کا استعفیٰ ذاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسے نظام کا اشارہ تھا جو انہیں مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔
اولی کی مرکزی قیادت کے انداز اور آمرانہ موقف نے سیاسی اتحاد کو کمزور کیا۔ اپوزیشن جماعتوں اور اندرونی اتحادیوں کے ساتھ رابطے کی کمی نے نہ صرف پارلیامنٹ کے کام کاج پر دباؤ ڈالا بلکہ پالیسی سازی کی پیچیدگیوں میں بھی اضافہ کیا۔ ان کے فیصلے اکثر فوری مقبولیت پر مبنی دکھائی دیے، جس سے طویل مدتی استحکام کی بنیادیں کمزور ہوئیں۔ عوامی توقعات اور سیاسی سمجھ بوجھ کے درمیان یہ خلیج بڑھتی گئی اور اولی کا زوال ناگزیر ہو گیا۔
سشیلا کارکی : امید اور شک کا چہرہ
سشیلا کارکی نے نیپال کی پہلی خاتون چیف جسٹس کے طور پر 2016 میں تاریخ رقم کی۔ بدعنوانی کے معاملات پر ان کے سخت موقف اور ایگزیکٹو دباؤ کے سامنے مضبوطی سے کھڑے رہنے کی صلاحیت نے انہیں نمایاں کیا۔ اب جب کہ وہ عبوری وزیر اعظم بن چکی ہیں، انصاف اور اخلاقیات کی علامت کے طور پر ان کی شبیہ عوام کو یقین دلاتی ہے۔
لیکن یہ پوزیشن صرف عزت کے بارے میں نہیں بلکہ چیلنجوں کے بارے میں بھی ہے۔ عدلیہ میں فیصلے دینے کا تجربہ سیاست میں سمجھوتہ اور توازن قائم کرنے میں براہ راست مفید نہیں ہے۔ انہیں اس نازک توازن پر قابو پانا ہوگا۔ ان کی غیر جانبدارانہ امیج عوام کی توقعات کی علامت ہے لیکن اسے سیاست کی پیچیدگیوں میں مسلسل آزمایا جائے گا۔ یہ توقعات اتنی ہی طاقت دیتی ہیں جتنا وہ دباؤ پیدا کرتی ہیں اور یہ اس کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
نامکمل انقلابات کی روایت
نیپال کو سمجھنا اس کی تحریکوں اور سیاسی تبدیلیوں کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ یہ نہ صرف ایک پڑوسی ملک ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت اور سماجی و ثقافتی تنوع کو سمجھنے کا ایک اہم حوالہ ہے۔
ان تجربات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت صرف اکثریت اور طاقت پر قائم نہیں رہتی۔ اس کے لیے انصاف، شفافیت اور مضبوط اخلاقی قیادت ضروری ہے۔ نیپال کی سیاست کو سمجھ کر، ہم اس کے اندرونی تنازعات کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں جمہوریت، سماجی شمولیت اور ادارہ جاتی اعتماد کے چیلنجوں اور امکانات کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔
نیپال کی جمہوریت ہمیشہ نامکمل انقلابات سے گزری ہے۔ رانا حکومت 1951 میں ختم ہوئی، جس نے جمہوریت کی راہ ہموار کی، لیکن راج شاہی پھر بھی مضبوط رہی۔ جمہوریت کی جڑیں کمزور رہیں اور سیاسی عمل اکثر نامکمل رہا۔
سال 1960میں راجا مہندر نے سیاسی جماعتوں کو ختم کر کے پنچایتی نظام متعارف کرایا۔ اسے ‘پارٹی لیس جمہوریت’ کہا گیا، لیکن یہ ایک مرکزی اور آمرانہ حکمرانی تھی، جس نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا اور سیاسی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔
سال1990کی عوامی تحریک کثیر جماعتی جمہوریت کو دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ عوام کو نئی جمہوریت سے بہت امیدیں وابستہ تھیں لیکن پارٹی جھگڑوں اور بدعنوانی نے اعتماد کو کمزور کیا۔ اقتدار کی دوڑ اور موقع پرستی نے جمہوری عمل کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
سال 1996سے 2006 تک ماؤ نواز تنازعہ نے ملک میں ایک گہرا بحران پیدا کیا۔ اس تنازعہ میں 17 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔ امن معاہدے کے بعد بھی انصاف اور شمولیت کے سوالات حل طلب رہے جس کی وجہ سے سماجی اور سیاسی عدم مساوات برقرار رہی۔
نیپال 2008 میں ایک جمہوریہ بنا، لیکن آئین کے نفاذ کا عمل بار بار طویل اور متنازعہ رہا۔ 2015 میں نیا آئین آیا، لیکن مدھیسی اور پسماندہ برادریوں کے مطالبات کو خاطرخواہ انداز میں قبول نہیں کیا گیا۔ اس طرح نیپال کی جمہوریت نامکمل انقلابات اور نامکمل تبدیلیوں کے طویل سفر سے گزرتی رہی ہے۔
نیپال کے نامکمل انقلابات اس کی سیاسی میراث کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہیں کہ انصاف، شفافیت اور اخلاقی قیادت جمہوریت کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔
جنوبی ایشیائی نقطہ نظر
نیپال کی سیاست کاٹھمنڈو کی سڑکوں تک محدود نہیں ہے۔ وہ پورے جنوبی ایشیا کے سیاسی تانے بانے سے گہرے طور پر جڑی ہوئی ہے۔ خطے کے ممالک اکثر جمہوریت، فوج اور طاقت کے توازن کی کشمکش میں الجھے رہتےہیں۔ پاکستان میں فوجی سائے کا دبدبہ، بنگلہ دیش میں متنازعہ انتخابات، سری لنکا میں معاشی اور سیاسی بحران یہ سب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جمہوری ادارے آسانی سے مستحکم نہیں رہتے۔
ایسے میں نیپال کا تجربہ منفرد ہے۔ سشیلا کارکی کی قیادت میں ملک اس امتحان سے گزر رہا ہے کہ کیا اخلاقیات، شفافیت اور ادارہ جاتی اعتماد سیاسی استحکام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ صرف اقتدار کی منتقلی نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جمہوریت میں اکثریت اور طاقت کے ساتھ ساتھ انصاف اور اخلاقی قیادت بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف نیپال بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک متاثر کن ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔
امید اور خوف کے درمیان
نیپال آج ایک نازک موڑ پر ہے۔ سشیلا کارکی کے پاس معجزہ دکھانے کا وقت نہیں ہے، لیکن ان کے پاس اخلاقی سرمایہ ہے جو کسی اور پارٹی لیڈر کے پاس نہیں ہے۔ مارچ 2026 تک، انہیں صرف انتخابات کروانا ہے، اداروں کی ساکھ بحال کرنی ہے اور یہ دکھانا ہے کہ سیاست اب بھی ایمانداری کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔
ان کی قیادت مختصر ہوگی، لیکن اس کا اثر دیرپا ہوسکتا ہے۔ اگر وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بلکہ پورے نیپال کی جیت ہوگی۔ جمہوریت کا مستقبل اداروں پر منحصر ہے لیڈروں پر نہیں۔ اور یہ ان کا سب سے بڑا چیلنج ہے، اداروں پر عوام کا اعتماد واپس لانا۔
نیپال کی جمہوریت بار بار ٹوٹی ہے، لیکن ہر ٹوٹ پھوٹ میں عوام کی آواز پھر سے بلند ہوئی ہے۔ سشیلا کارکی اس آواز کی تازہ بازگشت ہیں۔ کیا ان کا دور اقتدار یہ ثابت کر پائے گا کہ ادھورے انقلابات کے اس طویل سفر میں امید کی لو اب بھی جل رہی ہے؟
(آشوتوش کمار ٹھاکر پیشے کے اعتبار سے مینجمنٹ پروفیشنل ہیں، ادب اور آرٹ پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔)