سونم وانگچک کی اہلیہ نے بتایا – این ایس اے کے تحت حراست میں لیے جانے کے بعد بات نہیں کروائی گئی

معروف ماحولیاتی کارکن اور ریمن میگسیسےایوارڈ یافتہ سونم وانگچک کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے اورانتہائی عجلت میں لداخ سے باہر لے جانے کے دو دن بعد ان کی اہلیہ گیتانجلی جے آنگمو نے بتایاکہ ان پر اپنے لوگوں کی آواز بننےکی وجہ سے 'ہندوستان مخالف' ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

معروف ماحولیاتی کارکن اور ریمن میگسیسےایوارڈ یافتہ سونم وانگچک کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے اورانتہائی عجلت میں لداخ سے باہر لے جانے کے دو دن بعد ان کی اہلیہ گیتانجلی جے آنگمو نے بتایاکہ ان پر اپنے لوگوں کی آواز بننےکی وجہ سے ‘ہندوستان مخالف’ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

گیتانجلی آنگمو۔ (فوٹو کریڈٹ: فیس بک)

نئی دہلی: معروف ماحولیاتی کارکن اور ریمن میگسیسے ایوارڈ یافتہ سونم وانگچک کو قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت گرفتار کیے جانے اور انتہائی عجلت میں لداخ سے باہر لے جائے جانے کے دو دن بعد ان کی اہلیہ گیتانجلی جے آنگمو نے اتوار کو دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے ابھی تک ان سے بات نہیں کی ہے۔

آنگمو نے کہا،’انہیں (26 ستمبر کو) ان کے آبائی گاؤں سے، جولیہہ سے 60 کلومیٹر دورہے، حراست میں لیا گیا تھا، میں انسٹی ٹیوٹ (ہمالین انسٹی ٹیوٹ آف الٹرنیٹوز لداخ یا ایچ آئی اے ایل) میں تھی ۔ مجھے فون پر بتایا گیا کہ انہیں جودھپور (راجستھان) لے جایا جا رہا ہے اور انسپکٹرنے وعدہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی  بنائیں گے کہ  جودھپور پہنچتے ہی میں ان سے بات کروں ۔لیکن مجھے ابھی تک وہ فون کال نہیں آیا ہے۔’

جودھپور جیل کے ‘اہلکاروں’ کے حوالے سے کچھ خبروں میں بتایا گیاہے، وانگچک، جو لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور خطے کے لیے چھٹے شیڈول کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والی گاندھیائی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں، کو ‘تنہائی قید میں رکھا جائے گا جس کی سی سی ٹی وی کیمروں سے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔’

آنگمو کے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وانگچک کو اس جیل میں کن حالات میں رکھا گیا ہے، لیکن انہوں نے دہرایا، ‘وہ ایک گاندھیائی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسی لیے وہ ستیہ گرہ، پیدل مارچ، سب کچھ پُرامن طریقے سے کر رہے تھے۔ اس کے بجائے، حکام ہی ہیں جو انہیں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں؛ انہوں نے دہلی میں بھی یہی کیا۔’

انہوں نے کہا،’25 ستمبر کو بھی تشدد نوجوانوں نے نہیں بلکہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے شروع کیا تھا۔ لداخ کے نوجوان سب سے زیادہ پرامن اور مہذب ہوتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘آج، ان کی بیوی سے زیادہ، میں ایک ہندوستانی کے طور پر بہت زیادہ غمگین ہوں، کیونکہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جوہمارے ملک کی شان بڑھا رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر تعلیم، اختراع کار، اور ماحولیاتی کارکن،جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کے لیے وقف کردی۔ وہ ایک محب وطن ہیں،جنہوں نے ہندوستانی فوج کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا اور چینی کتابیں پڑھنے اور  چینی مصنوعات کا ستعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔’

انہوں نے کہا،’اس کے باوجود انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا اور این ایس اے کے تحت الزام لگایا گیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ایسا کچھ کریں گے (انہیں لداخ سے دور لے جا کر) تاکہ حالات غیر یقینی ہوجائے ۔ ملک کے سب سے اچھے وکیل ان کا دفاع کریں گے، لیکن ان پر ہندوستان مخالف ہونے کا الزام لگایا جانا دراصل ان سے زیادہ ہمارے لیڈروں کے ضمیر کی آواز ہے۔’

انہوں نے کہا کہ وانگچک کے ساتھ مل کر انہوں نے جن اداروں کی شروعات کی، خواہ وہ ایچ آئی اے ایل ہو یا لداخ کی طلباء کی تعلیمی اور ثقافتی تحریک، انہیں ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے ان کے مطالبے کی وجہ سےانہیں گزشتہ چار سالوں سے ‘ہراساں’ کیا جا رہا ہے۔

آنگمو نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ 2024 میں مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان سے ملنے گئی تھیں تو انہوں نے انہیں واضح طور پر بتایا تھاکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے ایچ آئی اےایل کی لینڈ الاٹمنٹ فائل کو روک دیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا، ‘وزیر نے مجھے بتایا کہ ایچ آئی اے ایل اور سونم وانگچک ایک ہی ہیں اور جب تک وہ چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے لڑنا بند نہیں کرتے، آپ کی فائل اٹکی رہے گی۔’

انہوں نے مزید کہا،’سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی ایک فیکٹ چیکنگ ٹیم نے ہمارے پاس آئی اور ہر مالیاتی لین دین کی جانچ کی؛ ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ درحقیقت، سونم اور میں، مل کر اپنی ذاتی دولت سے سالانہ ان اداروں میں رقم دیتے ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ سماجی کام اسی طرح ہونا چاہیے۔’

قابل ذکر ہے کہ آنگمو نے الزام لگایا ہے کہ وانگچک کو اس لیے بھی گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے انتخابات اکتوبر میں ہونے والے ہیں۔

انہوں نے کہا،’لوگ ان انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ اس نے پہلے ​​وعدہ کیا تھا (لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا) اور اسے پورا نہیں کر رہی ہے۔ لیکن ان انتخابات سے پہلے وانگچک کو گرفتار کرنے سے پارٹی کے حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ اس سے لڑنے کا عوام کا عزم کمزور نہیں ہوگا، بلکہ مضبوط ہوگا۔ وہ ان کی آواز تھے، وہ نمائندہ تھے؛ اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔’

انہوں نے یہ بھی کہا،’اس عزم کا ایک نتیجہ 2024 کے پارلیامانی انتخابات میں دیکھا گیا تھا؛ بی جے پی اس سیٹ (لداخ حلقہ) پر ہار گئی۔’

یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ گزشتہ فروری میں اس ملک میں ایک ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے وانگچک کے ‘پاکستانی روابط’ ہیں۔

آنگمو نے کہا،’یہ سیمینار اقوام متحدہ کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا۔ وہ وہاں ہندوستان کے لیے ایک قابل فخر شخصیت تھے۔ درحقیقت، اسٹیج پر، انہوں نے سی او پی 26 میں ‘مشن لائف (لائف اسٹائل فار دی انوائرمنٹ)) شروع کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی تھی، جبکہ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان پر جلد ہی پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا جائے گا… یہ انتہائی افسوسناک ہے۔’

انہوں نے مزید کہا،’میں ان کے ساتھ اس لیے گئی کیونکہ میں ایک سیشن میں کلیدی مقرر تھی۔ لیکن میں بھی ایک ایسے خاندان سے ہوں جس کی جڑیں تقسیم سے پہلے پاکستان میں تھیں۔ میں اس ملک میں کبھی نہیں گئی تھی؛ میں وہاں اس لیے بھی گئی تھی کیونکہ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ میرا خاندان کہاں سے ہے۔’

وانگچک اور آنگمو نے ‘تعلیمی کام’ کے لیے ‘کئی بار’ جودھپور کا دورہ کیا تھا۔ آنگمو نے کہا کہ انہوں نے کبھی سوچا  نہیں تھا کہ ایک اپنے لوگوں کی آواز بننے کی وجہ سے ‘ہندوستان مخالف’ ہونے کے الزام میں اس شہر میں گھسیٹا جائے گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس الزام کے بارے میں انہیں کیسا لگا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ اس طرح کے دباؤکے سامنے جھک جائیں۔ وہ کبھی بھی اپنے کام کی تنقید یا تعریف سے پریشان یا پرجوش نہیں ہوئے؛انہوں نے کبھی بھی اپنے کام کی تعریف کی توقع نہیں کی۔ وہ ہندوستان کی عظمت کے لیے ؛ بہتر ماحولیاتی تبدیلی کے خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب انہیں توڑ نہیں پائے گا؛ وہ اس کے باوجود کام کرتے رہیں گے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کئی دوسرے لوگوں سے الگ ہیں۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔