عالمی عدم مساوات 2026 کی رپورٹ کے مطابق، دنیا کی امیر ترین 10 فیصد آبادی کی آمدنی باقی 90 فیصد لوگوں کی کل آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ وہیں، ہندوستان میں 10 فیصد لوگ کل قومی آمدنی کا 58 فیصد کماتے ہیں، جبکہ نیچے کے 50 فیصد لوگ صرف 15فیصد۔

السٹریشن: دی وائر
نئی دہلی: دنیا کی امیر ترین 10فیصد آبادی باقی 90 فیصد کی مشترکہ آمدنی سے زیادہ کماتی ہے۔ اس کے علاوہ، دنیا بھر میں صرف 60,000 افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی یعنی تقریباً 4.1 ارب لوگوں کی دولت سے تین گنا زیادہ دولت ہے۔ دنیا کی کل آبادی تقریباً 8.2 ارب ہے۔
یہ چونکا نے والے اعدادوشمار عالمی عدم مساوات 2026 کی رپورٹ میں سامنے آئے ہیں، جسے پیرس واقع عالمی عدم مساوات لیب کے ماہر معاشیات لوکاس چانسل، ریکارڈو گومز کیریرا، روویدا موشریف اور تھامس پیکیٹی نے مرتب کیا ہے۔
رپورٹ میں نہ صرف دولت کی بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ عدم مساوات دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ غیر مساوی ممالک میں سے ایک ہے اور اس صورتحال میں برسوں سےتقریباً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
‘ہندوستان میں 10فیصد لوگ کل قومی آمدنی کا 58فیصد کماتے ہیں، جبکہ نیچے کے 50فیصدکو صرف 15 فیصد ملتا ہے۔ دولت کی عدم مساوات اس سے بھی زیادہ ہے … امیر ترین 10فیصدلوگ کل دولت کے 65فیصدکے مالک ہیں اور سر فہرست 1فیصد کے پاس تقریباً 40فیصد حصہ ہے۔’
رپورٹ کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ اس صورتحال کو بدلا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کے لیے سیاسی طور پرقوت ارادی اور عالمی کوششیں ہوں۔
‘عدم مساوات ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ یہ ہماری پالیسیوں اور ادارہ جاتی ڈھانچے کا نتیجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے نتیجے میں پھیلتی تقسیم، کمزور جمہوریت، اور موسمیاتی بحران ہیں، جس کا بوجھ سب سے زیادہ ان پر پڑتا ہے جو اس کےلیے سب سے کم ذمہ دارہیں۔ لیکن بہتری کے امکانات بھی موجود ہیں۔ جہاں ٹیکس نظام منصفانہ ہےاور سماجی سرمایہ کاری ترجیحات میں ہے، وہاں عدم مساوات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اوزار ہیں … کمی ہے تو صرف سیاسی عزم کی۔’
ذیل میں رپورٹ کے سات اہم نتائج درج کیے گئے ہیں جو خصوصی طور پر ہندوستان پر مرکوز ہے۔
عالمی عدم مساوات نہ صرف موجود ہے بلکہ بڑھ رہی ہے
دنیا کی نصف آبادی (نچلے 50فیصد) کے پاس صرف 2فیصددولت ہے اور وہ 8فیصد کماتی ہے۔

وہیں، سر فہرست 0.001فیصد آبادی کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، یہ سال 1995 میں 4فیصدتھی، جو 2025 تک بڑھ کر تقریباً 6فیصد ہو گئی ہے۔

ہندوستان دنیا کے سب سے غیر مساوی ممالک میں سے ایک
ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دولت پر چندلوگوں کا قبضہ ہے۔
ملک کی سب سے امیر ترین 10فیصد آبادی کل دولت کے 65فیصدکے مالک ہیں، جن میں سے 1فیصدامیر ترین کے پاس 40فیصد دولت ہے۔


آمدنی کے معاملے میں بھی اسی طرح کی عدم مساوات ہے۔
سرفہرست 10فیصدلوگ قومی آمدنی کا 58فیصد کماتے ہیں، جبکہ نیچے کے 50فیصد کو صرف 15فیصد حصہ ملتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی: ناہموار اخراج اور خطرات
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی نجی ملکیت سے منسلک کل کاربن کے اخراج میں صرف 3 فیصد حصہ ڈالتی ہے، جبکہ امیر ترین 10 فیصد کاربن کے 77 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
پھر بھی جب موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کی بات آتی ہے تو امیر طبقہ اپنے وسائل کی وجہ سے اس سے خود کو بچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوتا ہے۔

مزدوروں کی آمدنی میں خواتین کا حصہ 25فیصد،یعنی 1990 جیسی صورتحال
صنفی عدم مساوات ایک سنگین مسئلہ کے طور پر قائم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،’خواتین زیادہ کام کر رہی ہیں، لیکن مردوں کے مقابلے کم کما رہی ہیں۔’
اگر بلا معاوضہ کام کو چھوڑ دیا جائے تو خواتین مردوں کی فی گھنٹہ آمدنی کا 61 فیصد کماتی ہیں اور اگر بلا معاوضہ کام کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد صرف 32 فیصد رہ جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ‘یہ عدم مساوات خواتین کے کیریئر، سیاست میں شرکت اور دولت کے حصول کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے۔’

علاقائی تفاوت اب بھی برقرار ہے
رپورٹ کے مطابق، عالمی اوسط آمدنی کے اعداد و شمار اس بات کی عکاسی نہیں کر تے کہ خطوں کے درمیان کتنا بڑافرق موجود ہے۔’شمالی امریکہ اور اوشیانا میں اوسط یومیہ آمدنی تقریباً 125 یورو ہے، جبکہ صحارا کے جنوب میں افریقہ میں یہ صرف 10 یورو ہے۔

عالمی مالیاتی نظام امیر ممالک کے حق میں جھکا ہوا ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ عدم مساوات کوئی اتفاقی امرنہیں ہے، بلکہ اسٹرکچرل وجوہات کی بناء پر پیدا ہوئی ہے… جو امیر معیشتوں اور ریزرو کرنسیوں کے حامل ممالک کو مرکز میں رکھ کر بنائی گئی ہے۔
‘موجودہ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ یہ امیر ممالک کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ ممالک جن کی کرنسیوں کو ریزرو کرنسی سمجھا جاتا ہے وہ کم شرح سود پر قرض لے سکتے ہیں، زیادہ شرحوں پر قرضہ دے سکتے ہیں، اور عالمی بچت کومتوجہ کر سکتے ہیں۔ وہیں، ترقی پذیر ممالک کو مہنگے قرض، کم منافع اور سرمائے کی پرواز کا سامنا کرنا پڑتاہے۔’

تبدیلی ممکن ہے: ترقی پسند ٹیکس نظام اور عالمی ویلتھ ٹیکس کی ضرورت
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدم مساوات کو ناگزیر نہیں سمجھا جانا چاہیے۔’جب ٹیکس کے نظام ترقی پسند ہوتے ہیں اور وسائل کو مساوی طور پر دوبارہ تقسیم کیا جاتا ہے تو عدم مساوات کم ہو جاتی ہے۔’

مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس کا بوجھ امیروں پر کم اور غریبوں پر زیادہ ہے۔
‘انکم ٹیکس کی شرح آبادی کی اکثریت کے لیے بتدریج بڑھتی ہے، لیکن ارب پتیوں کے لیے یہ اچانک گر جاتی ہے۔ یہ امیر طبقے غریب خاندانوں کے مقابلے میں اپنی آمدنی کا بہت کم حصہ ٹیکس کے طور پرادا کرتے ہیں۔ اس سے حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور موسمیاتی کارروائی کے لیے ناکافی وسائل ہوتے ہیں، اور ٹیکس کے نظام پر عوام کا اعتماد بھی ختم ہوتا ہے۔ ترقی پسند ٹیکس نہ صرف عدم مساوات کو کم کرتا ہے بلکہ ٹیکس نظام میں انصاف اور اعتماد کو بھی مضبوط کرتا ہے۔’
رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ’اگر دنیا کے ایک لاکھ سے کم ارب پتی اور انتہائی امیروں پر 3 فیصد کا عالمی ویلتھ ٹیکس لگایا جائے تو ہر سال 750 ارب ڈالر جمع کیے جا سکتے ہیں، جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔’
تمام چارٹ عالمی عدم مساوات 2026 کی رپورٹ پر مبنی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔