مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ میں چرچہ کے دوران کہا تھا کہ شہریت ترمیم قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے مذہبی استحصال کے شکار ہندو، جین، بودھ، پارسی، سکھ اور عیسائی کو شہریت دی جائےگی۔
نئی دہلی :آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)کے تحت شہریت پانے کے لیے مذہبی استحصال کوئی بنیاد نہیں ہے۔نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، شرما نے کہا کہ کوئی بھی شخص یہ کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ اس کے ساتھ مذہبی بنیاد پر استحصال ہوا ہے۔ مذہبی استحصال کے تصورکو ثابت کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
Assam Min HB Sarma on his statement,'not possible to proof religious persecution':If a person has to prove it then he has to go to Bangladesh&collect a copy of police report. So,I said that it's not possible to proof concept of religious persecution #CitizenshipAmendmentAct(18.1) pic.twitter.com/Kpycq5VLOR
— ANI (@ANI) January 18, 2020
شرما نے کہا کہ شہریت قانون کے تحت شہریت کے لیے درخواست کرنے کے تین اصول ہیں، ان میں سے پہلا ہے کہ درخواست گزارہندو، جین، پارسی، عیسائی، سکھ یا بودھ ہو۔ دوسرا، وہ بنیادی طورپر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا رہنے والا ہو اور تیسرا یہ کہ اس کے پاس 31 دسمبر 2014 کے پہلے سے ہندوستان میں رہنے کاثبوت ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مذہبی استحصال شہریت کے لیے کوئی پیمانہ نہیں ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، شرما نے کہا، ‘مذہبی استحصال کے لیے کسی طرح کے شواہد کی ضرورت ہے؟ کیا ان کے پاس استحصال کے دوران ہوئے زخموں کو دکھانے کے لیے تصویریں ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘کوئی اپیل کرنے والایہ کیسے ثابت کرےگا کہ وہ مذہبی استحصال کا شکار ہوا ہے یا وہ کیسے ثابت کرےگا کہ وہ مذہبی استحصال کا شکار ہوکر ہندوستان آیا ہے؟انہوں نے کہا، ‘یہ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بنگلہ دیش جائے اور مذہبی استحصال کے خلاف تھانے میں درج کرائی گئی شکایت کا ثبوت لےکر آئے۔ اگر کسی انسان کو ثابت کرنا ہے تو وہ مذہبی استحصال کا شکار ہوا ہے تو اسے تھانے میں درج کرائی گئی شکایت کی کاپی لانے کے لیے بنگلہ دیش جانا ہوگا۔ کیا بنگلہ دیش کا وہ پولیس اسٹیشن اسے ایف آئی آر کی کاپی دےگا؟ اس لئے میں نے کہا کہ شہریت قانون کے تحت کسی کے لیے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہوگا کہ وہ مذہبی استحصال کا شکار ہوا ہے۔’
واضح ہو کہ شہریت قانون 10 جنوری سے ملک بھر میں مؤثرہو گیا۔ اس کے تحت 31 دسمبر 2014 تک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا اہتمام ہے۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس قانون پرپارلیامنٹ میں چرچہ کے دوران کہا تھا کہ شہریت قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان میں آئے مذہبی استحصال کے شکار ہندو، جین، بودھ، پارسی، سکھ اور عیسائی کو شہریت دی جائےگی۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ میں کہاتھا کہ چونکہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بڑی تعداد میں اقلیت مذہبی استحصال کے شکار ہیں، اس کی وجہ سے شہریت ترمیم ایکٹ لایا گیا ہے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوگا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کہا تھا کہ یہ قانون ان تینوں ملکوں میں مذہبی استحصال کا شکار ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ضروری ہے۔