ہریانہ: لاک ڈاؤن میں 3500 فیملی کو راشن کا انتظار، کہا-گاؤں نہیں جانے دیا، اب بھوکا مار رہے

ہریانہ کے پانی پت ضلع کے مہاجر بنکروں، رکشہ ڈرائیوروں سمیت ہزاروں یومیہ مزدوروں کو راشن نہیں مل پارہا ہے۔ اس میں سے کئی لوگ اپنے گاؤں واپس لوٹ رہے تھے، لیکن انتظامیہ نے ان کو یہ یقین دلا کر روکا ہے کہ ان کو کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائے گی۔

ہریانہ کے پانی پت ضلع کے مہاجر بنکروں، رکشہ ڈرائیوروں سمیت ہزاروں یومیہ مزدوروں کو راشن نہیں مل پارہا ہے۔ اس میں سے کئی لوگ اپنے گاؤں واپس لوٹ رہے تھے، لیکن انتظامیہ نے ان کو یہ یقین دلا کر روکا ہے کہ ان کو کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائے گی۔

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے ہریانہ سے مزدوروں کی ہجرت کو روکنے کے لئے ریاستی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سبھی کو کھانے-پینے اوررہنے کی پوری سہولت دی جائے‌گی۔ وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ٹوئٹ کر کےکہا کہ انہوں نے سبھی کو اس بارے میں ہدایت دے دی اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے‌گا۔

حالانکہ زمینی حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ ہریانہ کے پانی پت ضلع میں رہ رہے تقریبا 3500 یومیہ مزدوروں کو ابھی کھانے کا انتظار ہے۔ اس میں سے کوئی رکشہ ڈرائیور ہے، تو کوئی بنکر ہے، تو کوئی چائے بناکر بیچتا ہے تو کوئی لحاف-گداڈھونے کا کام کرتا ہے۔

یہ روز کمانے اور روز کھانے والے لوگ ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے پاس پیسےکے سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔ نہ تو مالک سے مدد مل رہی اور نہ ہی حکومت اس سمت میں مؤثر قدم اٹھا رہی ہے۔ان کی حالت کو لےکر وزیراعلیٰ، چیف سکریٹری، کھانے-پینے کے انتظام کرنے والےنوڈل افسر سمیت تمام متعلقہ محکمہ جات کو خط لکھا گیا ہے حالانکہ ان مزدوروں کوابھی بھی کوئی خاص مدد نہیں مل پا رہی ہے۔

پانی پت شہر کے پنچ رنگا بازار میں چائے کی دکان چلانے والے دیوراج نے بتایاکہ ان کے علاقے میں تقریباً چالیس فیملی ہیں جن کے پاس راشن نہیں پہنچا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر لوگ رکشہ ڈرائیور ہیں۔ انہوں نے کہا، ابھی تک ایک بار بھی یہاں کھانے-پینے کی کوئی چیز انتظامیہ کی طرف سے نہیں آئی ہے۔

دیوراج نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے دی گئی ہیلپ لائن نمبر پر انہوں نے کئی بار کال کیا۔ پہلے تو کافی دیر تک کسی نے اٹھایا نہیں، بعد میں جب ایک نے اٹھایاتو انہوں نے کہا کہ مدد پہنچائی جائے‌گی لیکن ابھی تک کوئی مدد کے لئے نہیں آیاہے۔ دیوراج کی کل سات لوگوں کی فیملی ہے اور وہ 4000 روپے مہینہ دےکر ایک کرایے کے گھر میں رہتے ہیں۔

اسی طرح پانی پت میں شینا فارم کے پاس سیکٹر 25 پارٹ-2 میں رہنے والے محمدطاہر نے بتایا کہ ان کی عمارت میں ہی 50-60 مزدور ہیں جو کہ کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ کئی جگہ ہم نے درخواست کی ہے لیکن کہیں سے کوئی مددنہیں مل رہی ہے۔ ہم لوگ دری کی بنائی کا کام کرتے ہیں۔ کارخانہ مالک تو پتہ نہیں کہاں ہے، ایک بار بھی ہماری خبر نہیں لی۔ ‘

طاہر مغربی بنگال کے اتر دیناجپور کے رہنے والے ہیں۔ وہ اپنی بیوی اور چھےبیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے کمرے کا کرایہ 2000 روپے ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہیلپ لائن پر کال کرتے-کرتے تھک جاتے ہیں لیکن کوئی کال نہیں اٹھاتا ہے۔ صرف ایک ہی رنگ ٹون بجتا رہتا ہے-ہندوستان بولتا ہے۔ ‘

اس کے علاوہ مزدوروں کو راشن بانٹنے میں جانبداری کے بھی الزام لگائے جارہے ہیں۔ پانی پت کی آئی بی کالج میں بی کام کے ایک طالب علم آشیش کمار نے بتایا کہ انتظامیہ یہ کہہ رہا ہے کہ جو یوپی-بہار کے ہیں ان کو راشن نہیں ملے‌گا اور ہریانہ والوں کو ترجیح دی جائے‌گی۔

انہوں نے کہا، آزاد نگر کے گوہانا روڈ پر گلی نمبر تین پر راشن بانٹا جارہا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ جو یوپی-بہار والے ہیں ان کو راشن نہیں ملے‌گا، صرف جن کے یہاں گھر ہیں ان کو ہی راشن دیا جائے‌گا۔ ‘مہاجر مزدوروں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ جہاں پر 50-60 لوگوں کو راشن کی ضرورت ہے وہاں انتظامیہ پانچ-چھے لوگوں کو راشن دےکر جا رہا ہے۔

سیکٹر 29 کے پارٹ-2 میں رہنے والے انصار نے کہا، ‘ ہمیں 60 لوگوں کے راشن کی ضرورت تھی، لیکن صرف چھے لوگوں کا راشن دیا گیا۔ اس میں سے 15 بیوہ خواتین ہیں۔اب میں کیسے دوں گا یہ۔ ہرکوئی کہہ رہا کہ مجھے دو، مجھے دو۔ ‘یہ بھی الزام ہے کہ مکان مالک ان کو کرایہ کے لئے پریشان کر رہا ہے۔

وہیں سیکٹر 29 کے پھلورا چوک میں رہنے والے مسلم نے بتایا کہ ان کے یہاں کل36 لوگوں کے لئے ہریانہ انتظامیہ پانچ کیلو کے چار پیکٹ آٹا، ایک کیلو دال، آدھاکیلو تیل، ایک نمک کا پیکٹ اور ایک ہلدی کا پیکٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ اتنےمیں میں کس کو-کس کو کھلا پاؤں‌گا۔’

بترا کالونی کے ایک مزدور سہیل بات کرتے-کرتے رونے لگے اور کہا، ‘بھیا ایک ٹائم کا ہی کھانا دلوا دو، بہت مہربانی ہوگی۔ ہم 50-60 لوگ ہیں، سارےبھوکے پڑے ہیں۔ ہم تو گھر جا رہے تھے، انتظامیہ نے زبردستی روکا اور کہا کہ کوئی کہیں نہیں جائے‌گا، یہی کھانا ملے‌گا۔ اب ہم بھوکے مر رہے ہیں۔ ‘

مہاجر مزدوروں نے یہ بھی بتایا کہ جیسے ہی کوئی راشن یا سبزی خریدنے نکلتاہے تو اس کو پہلے یا تو مقامی دبنگ لاٹھی-ڈنڈوں سے پیٹتے ہیں، اگر وہ وہاں سے نکل گیا تو پولیس والے ان مہاجر مزدوروں کو جانے نہیں دیتے ہیں، بھگا دیتے ہیں۔راشن کا انتظار کر رہے 3562 مہاجر مزدوروں، بنکروں، ریہڑی-پٹری والوں کی فہرست وزیراعلیٰ اور ضلع انتظامیہ کو بھیج‌کرمزدور تنظیم انڈین فیڈریشن آف ٹریڈیونین نے ان کو فوراً مدد پہنچانے کی مانگ کی ہے۔ا

تنظیم  کے کنوینر پی پی کپور کا الزام ہے کہ ہریانہ حکومت تقریباً دو لاکھ مہاجر مزدوروں کو بھوک سے مرنے یا ہجرت کرنے کو مجبور کر رہی ہے۔انہوں نے دی وائر سے بات چیت میں کہا، ‘ ہم نے دو دن میں پانی پت کے چاروں کونے سے 3562 بنکروں  کے نام، پتہ، موبائل نمبر سمیت فہرست انتظامیہ کو بھیجی ہےلیکن انتظامیہ کے تمام دعووں کے باوجود کسی ضرورت مند تک راشن نہیں پہنچ پا رہا ہے۔

حالانکہ انتظامیہ لگاتار اس صورت حال  سے انکار کر رہی ہے۔ مہاجر مزدوروں کےلئے کھانے-پینے کا انتظام کرنے کی ذمہ داری نبھا رہے نوڈل افسر سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو پہلے تو انہوں نے اس صورت حال سے سیدھا انکار کر دیا۔جب نوڈل افسر سے کہا گیا کہ کئی لوگوں سے فون پر بات کی ہے اور مزدوروں نےیہ تصدیق کی ہے کہ ان کو کھانے-پینے کابہت مسئلہ ہو رہا ہے، تب انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ضروری قدم اٹھائیں‌گے۔ انہوں نے کہا، ‘ آپ مجھے اپنی فہرست بھیجیےمیں فوراً ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ ‘

حالانکہ خبر لکھے جانے تک ابھی بھی بڑی تعداد میں مزدوروں کو راحت نہیں پہنچی ہے۔ ایسا کرنا ریاست کی کھٹر حکومت کے دعووں پر بڑے سوال کھڑا کرتا ہے۔

(یہاں 3562 مہاجر مزدوروں / بنکروں  کی فہرست دی جا رہی ہےجن کو فوراً راشن مہیا کرانے کی ضرورت ہے۔ )

Haryana Migrant Workers by The Wire on Scribd