مسلمانوں کے حوالے سے غلام نبی آزاد کا بیان آر ایس ایس اور بی جے پی کی زبان سے مشابہت رکھتا ہے: محبوبہ مفتی

ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے صدر اور کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد نے کہا تھا کہ ہندوستان میں تمام مسلمان اصل میں ہندو تھے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ آزاد کے تبصرے خطرناک اور تفرقہ انگیز ہیں۔

ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے صدر اور کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد نے کہا تھا کہ ہندوستان میں تمام مسلمان اصل میں ہندو تھے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ آزاد کے تبصرے خطرناک اور تفرقہ انگیز ہیں۔

محبوبہ مفتی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

محبوبہ مفتی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوموار کو ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے صدر غلام نبی آزاد کی اس تقریر کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہندوستان میں تمام مسلمان بنیادی طور پر ہندو ہیں’۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، محبوبہ مفتی نے کہا، ‘آزاد کے تبصرے خطرناک اور تفرقہ انگیز ہیں۔ یہ آر ایس ایس، بی جے پی اور جن سنگھ کی زبان سے مشابہت رکھتے ہیں۔’

آزاد نے کہا تھا کہ، ہندوستان میں تمام مسلمان اصل میں ہندو تھے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا ہے۔

جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال حسین ملک کی پاکستان کی عبوری کابینہ میں تقرری پر مفتی نے کہا ، میں مشعال حسین ملک کی وکیل نہیں ہوں، لیکن وہ اپنے شوہر کے برعکس کسی دہشت گرد یا دہشت گردی کی  ملزم بھی نہیں ہیں۔ لیکن بی جے پی میں ہمارے پاس سادھوی پرگیہ ٹھاکر جیسے دہشت گردی کےملزم افراد ہیں، جو کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل  کرتے ہیں اور بی جے پی ایسے لوگوں کو انعام دے رہی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ملک کی تقرری کچھ ایسی چیز ہے، جس سے بی جے پی آر ایس ایس حکومت کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، ‘پاکستان ان لوگوں کو انعام دے رہا ہے جو سوچتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر پر اپنے خیالات کو آگے بڑھا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومت ان لوگوں کو سزا دے رہی ہے جو جموں و کشمیر میں ہندوستان کے نقطہ نظر کی حمایت کر تے  ہیں اور اس کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کی مثال شیخ محمد عبداللہ صاحب ہیں، جنہیں بی جے پی تاریخ سے مٹانا چاہتی ہے۔ مفتی صاحب کے بارے میں اس سے کم  کچھ نہیں کہا جا سکتا، جو  ہندوستان کے نقطہ نظر کو اتنا عزیز رکھتے تھے۔’