ایک خاتون کے چار سالہ بیٹی کی کسٹڈی مانگنے پر شوہرکی جانب سے ان کے کردار پر سوال اٹھانے پر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا کہ پدری معاشرہ میں کسی خاتون کے کردار پر انگلی اٹھاناعام بات ہے۔ عام طور پر ایسے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔خاتون کے غیر ازدواجی تعلقات ہوں بھی تو یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ وہ اچھی ماں نہیں ہوگی۔
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی :پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ازدواجی تنازعہ میں کسی خاتون کے غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے اس کے بچہ کی کسٹڈی سے انکار کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
دی ہندو کی
رپورٹ کے مطابق،عرضی گزارخاتون نے اپنی چار سالہ بیٹی کی کسٹڈی کے لیے عدالت میں حبس بے جا یعنی ہیبیس کارپس کی عرضی دائر کی تھی۔ بچی فی الحال خاتون سے الگ رہ رہے شوہر کے ساتھ ہے۔
جسٹس انوپندر سنگھ گریوال نے 10 مئی کو عرضی گزار خاتون کو بچہ کی کسٹڈی دینے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہ نے عرضی گزار خاتون کے کردار پر الزام لگائے ہیں کہ خاتون کے اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات ہیں۔
جسٹس گریوال نے کہا، ‘عرضی میں اس دعوے کے علاوہ عدالت کےسامنےایسی کوئی دلیل یا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے، جو اس کی حمایت کرتا ہو۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ پدری معاشرہ میں کسی خاتون کے کردار پر انگلی اٹھانا عام بات ہے۔ عام طور پر ان الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ ماننا بھی کہ خاتون کے غیر ازدواجی تعلقات ہیں یا رہے ہیں، اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ وہ اچھی ماں نہیں ہوگی اور اس بنیاد پر ماں کو بچہ کی کسٹڈی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔’
جسٹس گریوال نے کہا کہ اس معاملے میں عرضی گزار خاتون کے خلاف یہ الزام پوری طرح سے بے بنیاد ہیں اور انہیں نابالغ بچہ کی کسٹڈی سے جڑے معاملے کے فیصلے کے لیے اہم نہیں مانا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ بچہ کو اپنے ابتدائی سالوں میں نشوونماکے لیے ماں کا پیار، دیکھ بھال اور محبت کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا،‘نوعمری کے دوران ماں کی مدد اوررہنمائی لازمی ہوگی۔ ہندو ہندو اقلیتی اور سرپرستی ایکٹ 1956 کی دفعہ چھ کے تحت ماں پانچ سال تک کی عمر کے بچہ کی قدرتی سرپرست ہوتی ہے۔’
جسٹس گریوال نے کہا، خصوصی طور پر تب، جب آسٹریلیا کی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے اور بچہ کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔ عرضی گزارخاتون آسٹریلیائی شہری ہے اور وہاں اچھی طرح سے سیٹل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بچہ کے بہترحق میں ہوگا کہ بچہ کی کسٹڈی عرضی گزار ماں کو سونپ دی جائے۔’